ثمیر الدین قاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ماہر فلکیات، مولانا
ثمیر الدین قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش (1950-11-06) 6 نومبر 1950 (عمر 73 برس)
گُھٹّی، ضلع گڈا، قدیم بہار (موجودہ جھارکھنڈ)، بھارت
رہائش مانچسٹر   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت  انگلستان
قومیت برطانوی
عملی زندگی
تعليم فضیلت
مادر علمی مدرسہ امداد العلوم، اِٹکی، ضلع رانچی
مدرسہ اعزازیہ، پھتنہ، بھاگلپور
دار العلوم چھاپی، گجرات
دار العلوم دیوبند
پیشہ عالم، مصنف، شارح
پیشہ ورانہ زبان عربی، اردو
دور فعالیت 1973ء تاحال
کارہائے نمایاں اثمار الہدایہ
الشرح الثمیری
ثمرۃ العقائد
ثمرۃ الفلکیات
ثمرۃ الفقہ
ثمیری کیلنڈر

ثمیر الدین قاسمی (پیدائش: 6 نومبر 1950ء) ایک ہندوستانی نژاد برطانوی عالم دین، مصنف اور ہیئت و فلکیات کے ماہر ہیں۔ حدیث، فقہ، اصول فقہ، عقائد، ہیئت و فلکیات وغیرہ میں ان کو خاص درک و دسترس حاصل ہے، جس کا اندازہ ان کی کتابوں اور شروحات سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آج عالم اسلام؛ خصوصاً ہند و پاک اور بنگلہ دیش کی رؤیت ہلال کمیٹیوں میں ہلال سے متعلق ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

ثمیر الدین قاسمی 6 نومبر 1950ء مطابق 25 محرم 1370ھ کو شہر گڈا سے 36 کلومیٹر دور مہگاواں، ضلع گڈا، بہار (موجودہ صوبہ جھارکھنڈ) میں واقع گُھٹّی نامی دیہات میں جناب جمال الدین بن محمد بخش (عرف لدنی) بن چولہائی کے یہاں پیدا ہوئے۔[1][2][3][4]

انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی کے مکتب میں مولوی عبد الرؤف عرف گونی سے حاصل کی، اسی مکتب میں انھوں نے اردو، ہندی، حساب اور فارسی بھی سیکھی۔[1][5][6]

بارہ سال کی عمر میں 1962ء کو انھوں نے حصول تعلیم کی غرض سے مدرسہ امداد العلوم، اِٹکی، رانچی میں داخلہ لیا، 1964ء کو مدرسہ اعزازیہ، پھتنہ، بھاگلپور میں داخل ہوئے، پھر 1966ء میں دار العلوم چھاپی، گجرات چلے گئے، جہاں سے 1968ء میں مرکزِ علم و عرفاں دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور شعبان 1390ھ مطابق 1970ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔[1][5][6][7]

انھوں نے فخر الدین احمد مراد آبادی سے صحیح بخاری جلد اول، محمود حسن گنگوہی سے صحیح بخاری جلد ثانی، فخر الحسن مراد آبادی سے جامع ترمذی، شریف حسن دیوبندی سے صحیح مسلم، عبد الاحد دیوبندی سے سنن ابو داؤد، حسین احمد بہاری سے سنن نسائی، نعیم احمد دیوبندی سے سنن ابن ماجہ، میاں اختر حسین دیوبندی سے شرح معانی الآثار، انظر شاہ کشمیری سے موطأ امام مالک، محمد سالم قاسمی سے مشکاۃ المصابیح جلد دوم، نصیر احمد خان بلند شہری سے مشکاۃ المصابیح جلد اول اور محمد طیب قاسمی سے حجۃ اللّٰہ البالغۃ پڑھی۔[1][4] محمد زکریا کاندھلوی کے احادیث مسلسلات کے درس میں دو مرتبہ 1969 اور 1970ء میں شریک ہو کر بھی مستفید ہوئے۔[1]

دورۂ حدیث کے بعد 1971ء میں انھوں نے دار العلوم دیوبند ہی سے عربی ادب میں مضبوطی کے لیے مزید ایک سال صرف کیا۔[1]

1972ء میں انھوں نے دار العلوم ہی میں رہ کر کتابت، انگریزی اور فلکیات وغیرہ کی تعلیم حاصل کی اور فلکیات میں انھوں نے فلکیات کے ماہر اور اس وقت کے دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث نصیر احمد خان بلند شہری سے فن ہیئت کی کتاب التصریح پڑھی۔[1]

انھوں نے اپنے دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں اس وقت کے ادیب اور لغت نویس وحید الزماں کیرانوی سے خصوصی استفادہ و تربیت حاصل کی، نیز سہل انداز میں تصنیف و تالیف کا طرز بھی ان سے سیکھا۔[1]

مدرسی کے زمانے میں انھوں نے جی سی ایس ای (جنرل سرٹیفیکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن) کا امتحان دے کر اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔[1]

تدریسی و عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے مدرسہ کنز مرغوب، پَٹّن، گجرات سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور پانچ سال وہاں رہ کر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھائیں، پھر مدرسہ تعلیم الاسلام آنند، گجرات میں پانچ سال رہے، جہاں پر دورۂ حدیث کی کئی کتابیں ان کے زیر درس رہیں۔ اس کے بعد خانقاہ رحمانی مونگیر تشریف لے گئے، وہاں بھی حدیث کے اسباق ان سے متعلق رہے اور وہیں سے 24 جون 1987ء کو وہ مدرسہ تعلیم الاسلام ڈیوز بری، انگلینڈ تشریف لے گئے اور ایک سال وہاں پر منتہی سال کی کتاب مشکاۃ المصابیح کا درس دیا، پھر بلہم مسجد، لندن میں چار سال امامت کے فرائض انجام دیے، پھر 1995 سے 2000ء تک الجامعۃ الاسلامیۃ، فیلتھم ثم مانچسٹر میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2000ء میں درس و تدریس سے بالکلیہ الگ ہو کر تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول ہو گئے اور آج تک وہی سلسلہ قائم ہے۔[1][8][9][10]

ذاتی زندگی[ترمیم]

ان کی چھ اولاد ہیں، چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، سبھی تعلیم یافتہ اور انگلینڈ ہی میں مقیم ہیں۔[1]

قلمی و تصنیفی زندگی[ترمیم]

ثمیر الدین قاسمی ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ کے کئی پرچوں اور رسالوں کے مضمون نگار رہ چکے ہیں، نیز جامعہ اسلامیہ مانچسٹر، انگلینڈ سے نکلنے والے رسالے ”الجامعہ“ کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ برصغیر کے کامیاب شراحِ درس نظامی میں ان کا شمار ہوتا ہے۔[1][11]

انھوں نے اپنی کتابوں مثلاً اثمار الہدایہ وغیرہ کے ہر مسئلے کو تین تین حدیثوں سے مبرہن کیا ہے، حوالہ جات میں صحاح ستہ یا اس سے پہلے کی کتابوں جیسے مصنف ابن شیبہ، مصنف عبد الرزاق، مسند احمد، طبرانی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔ ثمرۃ العقائد کو صرف صحاح ستہ سے مبرہن کیا ہے اور انھوں نے صرف شروحات نہیں لکھی ہیں؛ بلکہ اپنی تصنیفات کی شکل میں فقہ حنفی کو مضبوط و محفوظ کرنے کا ایک عمدہ کارنامہ انجام دیا ہے، جس کا اندازہ خود ان کی تصانیف سے لگایا جا سکتا ہے۔[1]

ان کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں بھی شامل ہیں:[1][12][13][14][11][15]

  • اثمار الہدایہ شرح ہدایہ (تیرہ جلدیں)
  • الشرح الثمیری شرح قدوری (چار جلدیں)
  • ثمرۃ النجاح علی نور الایضاح (دو جلدیں)
  • ثمرۃ العقائد (ثمرۃ العقائد کا ہندی انگریزی، عربی، بنگلہ اور پشتو میں ترجمہ ہو چکا ہے: ہندی میں ترجمہ محمد جہانگیر دمکاوی نے[1] اور انگریزی و عربی ترجمہ محمد اللہ خلیلی قاسمی نے کیا ہے۔[16])
  • ثمرۃ المیراث
  • ثمرۃ الفکلیات
  • سائنس اور قرآن
  • اسباب فسخ نکاح
  • ثمرۃ الاوزان
  • تحفۃ الطلباء شرح سفینۃ البلغاء
  • حاشیہ سفینۃ البلغاء (عربی)
  • خلاصۃ التعلیل
  • رؤیت ہلال علم فلکیات کی روشنی میں
  • یاد وطن (اپنے علاقے کے مشاہیر کے مختصر تذکرے)
  • تاریخ علاقہ گڈا و بھاگلپور
  • قوم انوارو فارسی
  • تفریق و طلاق
  • عیسائیت کیا ہے؟
  • ثمیری کیلنڈر
  • ثمرۃ الفقہ (دو حصے) میں
  • صدائے درد مند
  • علاقے میں کمیٹی کی ضرورت،ل
  • طلاق مغلظہ آٹھویں مرحلے پر (انگریزی)
  • لائف آف عیسی علیہ السلام (انگریزی)
الشرح الثمیری (جلد سوم) کا سرورق

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ محمد روح الامین میُوربھنجی (14 اکتوبر 2023ء)۔ "مولانا ثمیر الدین قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ"۔ www.baseeratonline.com۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023ء 
  2. قاسمی 2020, p. 7.
  3. قاسمی 2008, p. 17.
  4. ^ ا ب قاسمی 2004, p. 9.
  5. ^ ا ب قاسمی 2020, p. 8.
  6. ^ ا ب قاسمی 2008, p. 18.
  7. قاسمی 2004, pp. 9–10.
  8. قاسمی 2020, pp. 8–9.
  9. قاسمی 2008, p. 19.
  10. قاسمی 2004, p. 10.
  11. ^ ا ب قاسمی 2004, pp. 10–11.
  12. ابو عمار زاہد الراشدی، مدیر (مارچ 2006)۔ "تعارف و تبصرہ: الشرح الثمیری علی مختصر القدوری"۔ ماہنامہ الشریعہ۔ گوجرانولہ، پاکستان: الشریعہ اکیڈمی۔ 17 (3) 
  13. قاسمی 2020, pp. 9–10.
  14. قاسمی 2008, p. 20.
  15. محمد شعیب نورگت۔ "About Wifaqul Ulama Who are Wifaqul Ulama (UK) and the Scholars who support it?" [وفاق العلماء کے بارے میں وفاق العلماء (برطانیہ) اور اس کی تائید کرنے والے علما کون ہیں؟]۔ www.wifaqululama.co.uk (بزبان انگریزی)۔ وفاق العلماء، برطانیہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023ء 
  16. محمد روح الامین میُوربھنجی (23 نومبر 2022ء)۔ "ڈاکٹر مفتی محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی: سوانحی خاکہ"۔ qindeelonline.com۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023ء 

کتابیات[ترمیم]

  • ثمیر الدین قاسمی (2020)۔ "مصنف مولانا ثمیر الدین صاحب تاریخ کے آئینے میں: مولانا ساجد"۔ یاد وطن۔ مانچسٹر، انگلینڈ: مکتبہ ثمیر 
  • ثمیر الدین قاسمی (2008)۔ "مختصر حالات شارح: منیر الدین احمد عثمانی نقشبندی"۔ اثمار الہدایہ (جلد اول)۔ نیا نگر، ضلع گڈا، جھارکھنڈ: جامعہ روضۃ العلوم 
  • ثمیر الدین قاسمی (2004)۔ "حالات شارح: عبد العزیز قاسمی"۔ الشرح الثميرى على المختصر القدورى (الجزء الاول)۔ 387 کیتھرین روڈ، فاریسٹ گیٹ، لندن: ختم نبوت اکیڈمی