مندرجات کا رخ کریں

وارث شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
وارث شاہ
(Western Punjabi میں: وارث شاہ)،(پنجابی میں: ਵਾਰਿਸ ਸ਼ਾਹ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 23 جنوری 1722ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنڈیالہ شیر خان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 جون 1798ء (76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنڈیالہ شیر خان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ہیر رانجھا   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

وارث شاہ پنجابی کی ہیر وارث شاہ مشہور زمانہ تصنیف ”ہیر“ کے خالق اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔

سوانح حیات

[ترمیم]

وارث شاہ شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پنجاب کے ایک تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان میں 5 ربیع الثانی 1130ھ بمطابق 1718ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ آپ نقوی بھاکری سادات سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت امیر محمد مکی رضوی بھاکری(جن کا مزار سکھر شمالی سندھ کے پنجابی علاقے میں ہے) کی اولاد سے تھے وارث شاہ کا دور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔

شجرہ نسب

[ترمیم]

آپ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے۔ حضرت سید وارث شاہ بن حضرت سید گل شیر شاہ بن حضرت سید بودے شاہ بن حضرت سید عادل شاہ بن حضرت سید میراں حبیب شاہ باکھری بن حضرت سید یعقوب شاہ بھاکری بن حضرت سید رحمت اللہ شاہ بن حضرت سید حسن شاہ بن حضرت سید محسن شاہ بھاکری بن حضرت سید ناصر الدین بھاکری بن حضرت سید جمال الدین بھاکری بن حضرت سید محمد مھدی المعروف دولا شاہ لقب سید مرتضیٰ بھاکری بن حضرت مخدوم بدرالدین محمد بھاوکری اچ شریف بن حضرت سید سلطان خطیب صدرالدین رضوی بھاکری بن حضرت سید محمود محمد مکی نقوی بھاکری رضوی بن حضرت سید ابراہیم بن حضرت سید قاسم بن حضرت سید زین العابدین کنیت سید زید بن حضرت سید حمزہ بن حضرت سید ہارون بن حضرت سید محمد عقیل بن حضرت سید اسماعیل بن حضرت سید جعفر ثانی بن حضرت سید امام علی نقی علیہ السلام بن حضرت سید امام محمد تقی علیہ السلام بن حضرت سید امام علی رضا علیہ السلام بن حضرت سید امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بن حضرت سید امام جعفر صادق علیہ السلام بن حضرت سید امام محمد باقر علیہ السلام بن حضرت سید امام زین العابدین علیہ السلام بن حضرت سید امام حسین علیہ السلام شہید کربلا بن حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام۔

شجرہ نسب پر تنقید

[ترمیم]

وارث شاہ کے شجرہ نسب پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ پیراں دتاترگڑ اور ڈاکٹر شائستہ نزہت کے پیش کردہ شجرہ نسب(پی ایچ ڈی مقالہ "عمرانیات وارث شاہ") پر تنویر بخاری نے اپنی کتاب وارث شاہ (شخصیت،عہد اور فن) میں تنقید کی ہے۔

تعلیم

[ترمیم]

آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ علم حاصل کرنے کی غرض سے قصور کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت مولانا غلام مرتضٰی جو اس وقت قصور میں ہی تشریف فرما تھے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بابا بُلھے شاہ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی۔ دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جاؤ اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔

بیعت

[ترمیم]

تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بابا بلھے شاہ نے تو شاہ عنایت قادری کی بیعت کی جبکہ سید وارث شاہ نے خواجہ فریدالدین گنج شکر کے خاندان میں بیعت کی تھی.

جب ”ہیر رانجھا“ کے قصہ کے متعلق آپ کے استاد محترم غلام مرتضٰی کو علم ہوا تو انھوں نے اس واقعہ پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا وارث شاہ، بابا بلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر[1] لکھ ڈالی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپکو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا، وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دیے ہیں۔ یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ سید وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔

پنجابی شیکسپیئر

[ترمیم]

وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ پنجابی کی تدوین و ترویج میں وارث شاہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپ کا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ ”ہیر“ میں بہت سی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں۔ وارث شاہ کی ”ہیر[2]“کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی کی تھی اور ان کی ایک بیٹی بھی تھی، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی نہیں کی تھی۔ آپ کے سنہ پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور نہ وفات کے متعلق۔ افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 10 محرم 1220ھ میں وفات پائی۔[3]

قصہ ہیر رانجھا

[ترمیم]

وارث شاہ نے ہیر رانجھا کا قصہ پنجابی میں لکھنے سے قبل اس قصہ سے متعلق تمام مقامات کا عینی مشاہدہ کیا۔ جنڈیالہ سے ٹلابالناتھ (ٹِلا گورکھ ناتھ) پہنچے اور وہاں سے رانجھا کے گاؤں تخت ہزارہ پہنچے جہاں رانجھا کی مسجد(رانجھا کی بھاوج نے تعمیر کروائی تھی [4]) میں ہیر اور رانجھا کی قبر کا مشاہدہ کیا۔ تخت ہزارہ سے ہیر کی ریاست جھنگ سیال گئے۔ ہیر کے سسرالی گاؤں رنگپور میں ایک مسجد میں قیام کیا۔ یہاں بھاگ بھری نامی خاتون دو وقت کا کھانا دے جایا کرتی تھی۔ کوٹ قبولہ سے پاکپتن میں بابا فرید کے مزار کی زیارت کی۔ کچھ دیر ملتان میں قیام کیا اور اولیا کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ کچھ عرصے اوچ شریف میں قیام کے بعد ملکہ ہانس میں دولت خاں بلوچ کے مہمان رہے اور یہیں قصہ ہیر رانجھا پنجابی زبان میں چالیس سال کی عمر(1171ھ) میں لکھنا شروع کیا اور دس سال میں اسے مکمل [5]

وارث شاہ کی دیگر تصانیف

[ترمیم]

چودھری محمد افضل خان(پنجدریا ایڈیٹر، لاہور)[6] نے مندرجہ ذیل تصانیف وارث شاہ سے منسوب کی ہیں البتہ محققین میں اس پر اختلاف موجود ہے:

  1. قصیدہ بردہ شریف (پنجابی ترجمہ)
  2. معراجنامہ
  3. چوہڑیٹی نامہ(چوہڑیٹڑی نامہ)
  4. عبرت نامہ
  5. سی حرفی نامہ سسی پنوں
  6. باراں نامہ(بارہ ماہ)
  7. دوہڑے

وارث شاہ سے منسوب تصانیف میں "شتر نامہ" کا ذکر پیراں دتا نے کیا ہے۔

حجرہ وارث شاہ.. انجمن وارث شاہ

[ترمیم]

تین سبز میناروں والی یہ قدیم مسجد آج بھی اپنے حجرے کے ساتھ قائم ہے ۔’حجرہ وارث شاہ دا‘ ملکہ ہانس میں مشہور جگہ ہے جہاں 1767ء میں انھوں نے’ ہیر رانجھا ‘ مکمل کی .وارث شاہ کے حجرے والی مسجد کا انتظام اب ’ انجمن وارث شاہ‘ کے نام کی تنظیم چلاتی ہے۔ ملکہ ہانس میں حجرہ وارث شاہ میں ہر سال ’جشن وارث شاہ‘ کے نام سے ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں ہیر وارث شاہ پڑھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔

وفات

[ترمیم]

بعمر 76برس 24 جون 1798ء کو وفات پائی ان کا مزار جنڈیالہ شیر خان میں مرجع خلائق ہے۔ جہاں سالانہ عرس کے سلسلے میں 23 تا 25 ستمبر، 3روزہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے.

نمونہ کلام

[ترمیم]

کھرل ہانس دا ملک مشہور ملکا
تتھے شعر کیتا یاراں واسطے میں
پرکھ شعر دی آپ کر لین شاعر
گھوڑا پھیریا وچ نخاس دے میں
پڑھن گھبرو دیس وچ خوشی ہو کے
پھل بیچیا واسطے باس دے میں
وارث شاہ نہ عمل دی راس میتھے
کراں مان نمانڑا کاستے میں
من بھاوندا کھاویے جگ آکھے گلاں جگ بھاوندیاں رسدیاں نے
وارث جنہاں نوں عادتاں بریاں نے سب خلقتاں انہاں بھجدیاں نے

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "قصہ ہیر وارث شاہ"۔ 30 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2020 
  2. "ہیر وارث شاہ کا اصل نسخہ کہاں ہے؟"۔ 21 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2021 
  3. "عظیم درویش صوفی شاعر وارث شاہ"۔ 13 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2015 
  4. ص 13، وارث شاہ(شخصیت،عہد اور فن) از تنویر بخاری
  5. وارث شاہ (شخصیت،عہد اور فن) از تنویر بخاری، ص 14
  6. وارث شاہ(عہد، شخصیت اور فن، تنویر بخاری، ص 163