عابس بن ابی شبیب شاکری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عابس بن ابی شبیب شاکری
معلومات شخصیت
تاریخ وفات 10 اکتوبر 680ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عابس بن ابی شبیب شاکری حسین بن علی کے اصحاب میں سے تھے جو عاشورہ کے دن کربلا میں امام حسین کا ساتھ دیتے ہوئے شہید ہوئے۔

زندگی[ترمیم]

آپ قبیلہ بنی شاکر سے تھے، اس قبیلے کے لوگ عرب کے بہادروں میں شمار ہوتے تھے، یہ قبیلہ اہل بیت کی پیروی میں شہرت رکھتا تھا۔

عابس بزرگ اور روسائے بنی شاکر میں سے تھے۔ مسلم ابن عقیل نے کوفہ سے امام حسین کو خط لکھا اور وہ عابس کو امام کو پہنچانے کے لیے دیا۔ عابس نے مکہ میں امام کو مسلم کا خط پہنچایا اور پھر مسلسل خدمت امام میں رہے اور کربلا میں شہید ہوئے۔[1]

نام و نسب[ترمیم]

عابس بن ابی شبیب بن شاکر بن ربیعہ بن مالک بن صعب بن معویتہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشد ہمدانی شاکری۔

قبیلہ[ترمیم]

بنو شاکر قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ تھے اور ان ہی کی نسبت حضرت علی علیہ السلام نے جنگ صفین کے موقع پر فرمایا تھا کہ: اگر ان کی(بنو شاکر کی) تعداد ایک ہزار ہوجائے تو خدا کی عبادت اس طرح ہونے لگے جس طرح ہونی چاہیے۔

یہ لوگ بڑے شجاع اور جنگ آزما تھے اور "فتیان الصباح" کے لقب سے مشہور تھے جس کے معنی ہیں "وقتِ صبح کے جواں مرد" چونکہ غارت گری اور جنگ کا مقابلہ زیادہ تر اوقاتِ صبح میں ہوتا تھا اس لیے اس وقت کی طرف نسبت دی گئی۔

ہمدان کی ایک دوسری شاخ بنو وادعہ کے پاس ان لوگوں نے جاکر قیام کیا تو یہ بھی اُن کی طرف بھی منسوب ہونے لگے اور اسی لیے عابس شاکری بھی کہا جاتا تھا اور وادعی بھی۔

شخصیت[ترمیم]

عابس شیعیانِ کوفہ میں سے رئیسِ قوم، بہادر، مقرر، عبادت گزار اور شب زندہ دار تھے۔ متعدد لڑائیوں میں کارِہائے نمایاں انجام دے چکے تھے اور دلوں پر شجاعت کا سکہ قائم تھا۔

مسلم کا ساتھ[ترمیم]

جب جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں وارد ہوئے تھے اور آپ (ع) نے پہلا جلسہ منعقد کرکے امام حسین علیہ السلام کا خط سنایا تھا تو اس وقت سب سے پہلے عابس ہی کھڑے ہوئے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ "میں دوسروں کا ذمہ دار نہیں مگر جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں نے طے کر لیا ہے کہ آخری دم تک آپ (ع) کا ساتھ دوں گا۔

ان کی تقریر اتنی جامع اور پُرمغز تھی کہ حبیب بن مظاھر نے بھی ان کی تعریف کی تھی اور ان ہی کی تائید میں اپنی نصرت و وفاداری کا عہد کیا تھا۔

جب کوفہ کے اٹھارہ ہزار آدمیوں نے جناب مسلم علیہ السلام کی بیعت کرلی اور آپ (ع) نے اس صورت حال سے مطمئن ہوکر امام حسین علیہ السلام کو اطلاع دینا چاہی تو آپ (ع) نے وہ خط عابس ہی کے ہاتھ مکہ بھیجا تھا۔چنانچہ وہ اس خط کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے پاس پہنچے اور پھر آپ (ع) سے جدا نہیں ہوئے.ان کا غلام شوذب ان کے ساتھ تھا چنانچہ انھوں نے اپنے غلام کو بھی اپنی طرف سے امام حسین علیہ السلام پر نثار کیا۔

کربلا میں[ترمیم]

جب شوذب درجہ شہادت پر فائز ہو چکے تو عابس نے امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا "بخدا روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مجھے آپ (ع) سے زیادہ عزیز و محبوب ہو.اگر مجھے قدرت ہوتی کہ میں اپنی جان سے زیادہ کوئی عزیز شے آپ (ع) کی خدمت میں پیش کروں تو ایسا ہی کرتا.مگر اب تو بس میری جان باقی ہے بس اب اجازت دیجئے میں آخری سلام عرض کرتے ہوئے خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ میں آپ (ع) کے اور آپ (ع) کے پدرِ بزرگوار کے دین پر قائم ہوں"

ان الفاظ کو ادا کرکے امام (ع) سے رخصت ہوئے اور تلوار کھینچتے ہوئے صفوفِ مخالف کے سامنے پہنچے.ان کی پیشانی پر اس وقت ایک زخم موجود تھا جو شاید پہلے کسی حملہ میں آگیا تھا۔

یزیدی فوج میں کوفہ کا ایک شخص ربیع بن تمیم جو واقعہ کربلا میں موجود تھا بیان کرتا ہے کہ میں نے عابس کو آتے دیکھا تو پہچان لیا.اس لیے کہ میں انھیں اس سے پہلے لڑائیوں میں دیکھ چکا تھا اور ان کی شجاعت سے واقف تھا۔چنانچہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ایہا الناس یہ شیروں کا شیر ہے، یہ ابن ابی شبیب ہے دیکھو کوئی ایک شخص تم میں سے اس کے مقابلہ کو باہر نہ نکلے۔

عابس نے آواز دینا شروع کی کیا کوئی مردِ میدان نہیں جو ایک مردِ میدان کے مقابلہ کو نکلے؟ مگر فوجِ یزید میں سے کوئی شخص بھی باہر نہ نکلا۔ عمر سعد نے کہا اس بہادر کو پتھروں سے مارلو.چنانچہ ہر طرف سے پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ یہ بزدلانہ اور عجیب طریقہ جنگ دیکھ کر عابس نے زرہ اور خود بکتر اتار کر پھینک دیا اور تلوار سونت کر صفوفِ مخالف پر ٹوٹ پڑے۔ جس صف کی طرف رخ کرتے تھے سینکڑوں آدمی ان کے سامنے سے بھاگتے نظر آتے تھے۔تھوڑی دیر کی جنگ کے بعد فوج کے ایک بڑے حصہ نے ان کو چاروں طرف سے گھیر کر قتل کر دیا۔پھر ان کا سر قلم کیا گیا اور بہت سے آدمیوں نے آپس میں جھگڑنا شروع کی۔ ہر ایک کہتا تھا کہ اس شخص کو میں نے قتل کیا ہے۔ بالآخر عمر سعد نے اس کا یہ کہہ کر فیصلہ کیا کہ جھگڑا نہ کرو۔ اس شخص کا قاتل کوئی ایک نہیں ہو سکتا۔ تم سب اس کے قاتل ہو.اس طرح یہ نزاع برطرف ہوا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "ڈیٹا بیس، ماسٹر حسین۔"۔ 16 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2016 

سانچے[ترمیم]