جون بن حوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جون بن حوی
جَوْن ٱبْن حُوَيّ
ذاتی
وفات10th of محرم الحرام, 61 ہجری ، اکتوبر, 680 عیسوی
موت کی وجہواقعہ کربلا میں شہادت پائی
مدفنکربلا, عراق
مذہباسلام
وجہ شہرتامام حسین علیہ السلام کا ساتھی ہونا

جون بن حوی (عربی: جون بن حوي) سوڈان اور مصر کے علاقے کے رہنے والے ایک سابق مسیحی اور آزاد کردہ غلام تھے۔ جو 10 محرم 61ھ (680ء) جنگ کربلا میں امام حسین کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ جون ابوذر غفاری کے سابقہ غلام تھے۔ علی ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد جون حسین ابن علی مجتبیٰ کے پاس رہے اور پھر امام حسین کی خدمت میں رہے۔ جب امام حسین نے مدینہ چھوڑا، جون نے ان کی ہمراہی کے لیے اصرار کیا۔[1] ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب میں آپ کو جوین بن ابی مالک کے نام سے تذکرہ کیا ہے۔[2]

نسب[ترمیم]

جوْنِ بْنِ حُوَیِّ بن قتادة بن اعور بن ساعدة بن عوف بن کعب بن حویّ۔ اس کے علاوہ ان کے جریرہ، جریر، جون بن جوی، جون بن حریّ، جویرہ، جوین بن ابی مالک، حرز، حرّہ و حریرہ، حویّ و خون بن حوی وغیرہ کئی دوسرے نام بھی ملتے ہیں۔[3]

زندگی نامہ[ترمیم]

جَون بن حویّ عاشورا کے کہن سال شہداء میں سے تھے۔ آپ غلام ابوذر غفاری اور حسین ابن علی تھے۔ پہلے وہ فضل بن عباس ابن عبد المطلب کے سیاہ فام غلام تھے، جسے علی ابن ابی طالب نے 150 دینار میں خریدا اور ابوذر الغفاری کا خادم بنادیا۔ جب حضرت عثمان (تیسرے خلیفہ) نے ابوذر کو ربذہ میں جلاوطن کیا تو، جون اس کے ساتھ ربذہ چلے گئے۔

32 ہجری میں، ابوذر کی وفات کے بعد، وہ مدینہ واپس آئے اور امام علی (ع) کے ساتھ شریک ہوئے اور ہمیشہ کے لیے علی (ع) کے گھرانے میں امام حسن اور پھر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ رہے۔

سال 60 هـ ق کہ امام حسین علیہ السلام از مدینہ بہ طرف مکہ حرکت کرد، جون در کنار آن حضرت و از مدینہ تا کربلا همراہ امام آمد و در جنگ با دشمنان او تا آخرین قطرہ ی خون خود از امام دفاع کرد۔ بیشتر سیرہ نویسان و صاحبان کتب رجالی، شرح حال او را ذکر کردہ و گفتہ اند:

از آنجا کہ این غلام اسلحہ شناس بود و در اسلحہ سازی استاد و در تعمیر آلات جنگی مهارت داشت، در شب عاشورا در خیمہ ی مخصوص امام حسین علیہ السلام فقط جون در کنار امام بود کہ شمشیرش را بازبینی و اصلاح می کرد۔

از امام سجاد علیہ السلام نقل شدہ است کہ: جون در خیمہ ی پدرم سرگرم وارسی شمشیرش بود و پدرم اشعاری را زمزمہ می کرد: «یا دهر اف لک من خلیل، کم لک بالاشراق و الاصیل۔۔۔»۔

یوم عاشور پر، جون نے اپنے امام کے ساتھ دوپہر کی نماز پڑھی، پھر، بڑھاپے کے باوجود، وہ امام کی خدمت میں گیا اور اسے لڑنے کی اجازت دی گئی۔ امام نے اسے فرمایا «یا جون، انت فی اذن منی، فانما تبعتنا طلبہ للعافیة فلا تبتل بطریقتنا؛ اے جون، آپ دوسروں کی تکلیف سے صحت سلامتی و آسایش کے لیے ہم سے شامل ہوئے اور آپ نے ہماری پیروی کی، لہذا ہماری مصیبت کا شکار نہ ہوں۔ "آپ کو یہاں بحفاظت روانہ ہونے کی اجازت ہے۔"، جون نے اپنے آپ کو امام علیہ السلام کے قدموں پر گرا دیا اور کہا: "سکون کے ایام میں آپ کے سائے میں خوش حالی اور راحت تھی۔ میں انصاف نہیں سمجھتا کہ آج، جو مشکل دن ہے، میں آپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ یہ سچ ہے کہ میرے جسمانی خون سے بدبو آ رہی ہے اور میری حیثیت کم ہے اور میرا رنگ کالا ہے، لیکن کیا آپ مجھ سے جنت کو روکیں گے؟ میرے لیے دعا کریں کہ میں جنت میں جاؤں اور عزت پاؤں اور سفید ہوجاؤں۔ "خدا کی قسم، میں اس وقت تک آپ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ میرا سیاہ خون آپ کے ساتھ نہیں مل جاتا۔"

جون امام کی اجازت کے بعد میدان جنگ میں گئے۔ وہ کربلا میں اس وقت تک لڑے یہاں تک کہ دشمنوں نے اس کو گھیر لیا اور اس پر بہت سے زخم آئے۔ کچھ مورخین کے مطابق، 25 افراد اور ابی مخنف کے مقتل کے مطابق، عمر سعد کی فوج کے 70 ارکان کو ہلاک اور کچھ دیگر کو زخمی کر دیا، پھر وہ میدان جنگ میں تلوار کی ضرب سے شہید ہوا جو اس کے سر پر لگی۔

جب وہ زمین پر گر پڑے، امام حسین نے اس کے سر کو اپنی گود میں رکھا اور زور سے پکارا، پھر آپ نے اپنا مبارک ہاتھ "جون" کے سر اور چہرے پر رکھا اور کہا: «اللّهُمِّ بَیِّض وَجْهَهُ وَ طَیِّب ریحَهُ وَاحْشُرْهُ مَعَ مُحَمَّد وَ آل مُحَمَّد»۔" بارالها اس کے چہرے کو سفید بو کو خوشبو فرما اور خاندان عصمت کے ساتھ محشور فرما۔"

پھر اس کے پیکر مطهر کو میدان جنگ سے باہر لے جاکر اپنے شہید ساتھیوں کی لاشوں کے لیے ایک خصوصی خیمے میں رکھا۔ [4][5][6]

اپنے والد امام سجاد علیہ السلام کی طرف سے امام باقر کی ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ "عاشورہ کے واقعے کے بعد لوگ شہداء کو دفن کرنے آئے تھے۔" "دس دن بعد، جب انھیں جون کی لاش ملی تو اس سے کستوری کی بو آ رہی تھی۔"

جون ان شہدا میں سے ہیں جن پر زیارت ناحیہ میں سلام و تحیت ہے، اس زیارت مین آیا ہے:«السّلام علی جون بن حویّ ابن حریًّ مولی ابی زرّ الغفّاری؛ سلام بر جون غلام ابی زر غفاری»۔

مالک[ترمیم]

جون بن جوی سیاہ فام غلام اہل نوبہ میں سے تھے۔ علی ابن ابی طالب نے ان کو عباس بن عبد المطلب سے 150 دینار کے عوض خریدا پھر حضرت ابوذر غفاری کو ہدیہ کر دیا تھا۔ وہ ابوذر غفاری کے ساتھ جلا وطن کیے گئے تھے۔ اور یہ ابوذر غفاری کے ہمراہ جنگل کنارے (ربذہ) میں رہے۔ ابوذر غفاری کے سال وفات 32 ہجری کے بعد جون بن حوی مدینہ آ گئے۔ پہلے علی ابن ابی طالب کی خدمت کی اس کے بعد حسن ابن علی پھر حسین ابن علی کی اور پھر آخر میں علی بن حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

جنگ کربلا میں[ترمیم]

کربلا کے میدان میں جون ہمیشہ امام حسین کے ساتھ رہے۔ وہ کالے رنگ اور سرمئی گھنگھریالے بالوں والے بزرگ آدمی تھے۔

عاشورہ کی رات امام حسین نے ان کو جان بچانے کے لیے کہا

آپ نے سارے سفر میں میرا ساتھ دیا لیکن اب آپ جا سکتے ہیں

جون نے جواب دیا

یہ کیسے ممکن ہوگا کہ میں آپ کی میزبانی اور صحبت سے فیض اٹھاؤں اور آپ کو مشکل میں چھوڑ جاؤں؟ [7]

اگلے دن صبح انھوں نے یزید بن معاویہ کی فوج کی جانب سے کیے گئے دو حملوں کو روکنے میں مدد کی۔ دوپہر کے وقت، نماز ظہر کے بعد، جون امام حسین کے پاس آئے اور چپ کر کے کھڑے ہو گئے۔ امام حسین نے جون کی طرف دیکھا اور کہا

جون میں جانتا ہوں آپ میرے پاس جنگ کے میدان میں جانے کی اجازت لینے آئے ہیں۔ آپ ایک اچھے دوست ہیں۔ میں آپ کو اسلام کے ليے شہید ہونے سے نہیں روکوں گا

جون خوشی سے مسکرائے۔ انھوں نے دشمنوں کا سامنا کیا اور یہ الفاظ ادا کیے:

كيف تَرى الفُجّارُ ضَربَ الأسْودِ بالمـشـرفـيِّ القـاطعِ المُـهنَّدِ
أحمـي الخيـارَ مِن بنـي محمّدِ أذُبُّ عنـهم بـاللـسـانِ واليـدِ
أرجو بذاك الفـوزَ عندَ المـوردِ مِـن الإلهِ الـواحدِ المـوحَّدِ

میں اللہ کے لیے مرنا چاہتا ہوں
اور میری تلوار دشمنوں کے خون کی پیاسی ہے
مرنے سے پہلے میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کروں گا
اپنی تلوار اور زبان سے میں رسول کے نواسے کی خدمت کروں گا

I am a soul willing to die for Allah,
and have a sword thirsty of the blood of his enemies
Before I die I shall fight the enemies of Allah,
with my sword and my tongue serve the grandson of his prophet [8]

جون یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کو کئی مہلک زخم آئے مگر انھوں نے باخوبی دشمنان دین کا مقابلہ کیا۔ جون وہاں گھوڑے سے گر پڑے پر پھر بھی وہ زبان سے جنگ کرتے رہے کچھ دیر بعد وہ شہید ہو گئے۔ جون نے دشمن کے 25 فوجیوں کو مار گرایا تھا۔[9]

قبر اور زیارت[ترمیم]

آپ کربلا معلی میں باقی شہداء کے ساتھ دفن ہیں، آپ کا ذکر المہدی عجل اللہ فرجہ نے زيارت ناحيہ مقدسہ میں کیا ہے۔[حوالہ درکار]

«اَلسَّلَامُ عَلَى جَوْنٍ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ»۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Hazrat John bin Huwai"۔ Theinfallibles.com۔ 26 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2017  الوسيط |title= و |عنوان= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  2. المناقب، پیشین، ج 4، ص 103
  3. محمد الريشهري، الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابہ عليهم السّلام، الجزء : 1 صفحة : 713.
  4. انساب الاشراف، پیشین، ص 185
  5. الفتوح، پیشین، ص 108
  6. الکامل فی التاریخ، پیشین، ص 59.
  7. "Lesson from Kerbala – 1"۔ Duas.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2017  الوسيط |title= و |عنوان= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  8. "The Companions of Imam Husayn"۔ coolteachersite.weebly.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2017  الوسيط |title= و |عنوان= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  9. ذخيرة الدارين فيما يتعلق بمصائب الحسين(ع)، الجزء : 1 صفحة : 389.