ابو ہریرہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابوہریرہ سے رجوع مکرر)
ابو ہریرہ
(عربی میں: أبو هريرة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 602ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تہامہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 679ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وادی عقیق  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محرر بن ابی ہریرہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد انس بن مالک،  طاؤس بن کیسان،  محمد بن سیرین  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (18ق.ھ / 59ھ)حدیث کے سب سے بڑے راوی سلطان الحدیث اور سر خیل اصحابِ صفہ کہلاتے ہیں۔ یمن کے قبیلہ دوس سے ان کاخاندانی تعلق ہے۔زمانہ،جاہلیت میں آپ کا نام”عبد شمس” تھا مگرجب یہ میں جنگ خیبر کے بعد دامن اسلام میں آگئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کا نام عبد الرحمن رکھ دیا۔ ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی آستین میں ایک بلی دیکھی تو آپ نے ان کو یَا اَبَاھُرَیْرَۃَ! (اے بلی کے باپ!) کہہ کر پکارا ۔ اسی دن سے ان کا یہ لقب اس قدر مشہور ہو گیا کہ لوگ ان کا اصلی نام ہی بھول گئے ۔ یہ بہت ہی عبادت گزار، انتہائی متقی اور پرہیز گار صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ روزانہ ایک ہزار (1000) رکعت نماز نفل پڑھا کرتے تھے۔آٹھ سو (800)صحابہ اور تابعین آپ کے شاگرد ہیں ۔ آپ نے پانچ ہزار تین سو چوہتر (5374) حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے چار سو چھیالیس (446) بخاری شریف میں ہیں۔آپ نے 59ھ میں اٹھتر (78) سال کی عمر پاکر مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔ [1] [2]

نام و نسب[ترمیم]

عبد الرحمن بن صخر نام ، ابوہریرہ کنیت ، سلسلہ نسب یہ ہے، عمیر بن عامر بن عبد ذی الشریٰ بن طریف بن غیاث بن لہنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس،[3] اصل خاندانی نام عبد شمس تھا۔

اسلام کے بعد آنحضرت نے عمیر رکھا، کنیت کی وجہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک "ہرہ" بلی پالی ہوئی تھی، شب میں اس کو ایک درخت میں رکھتا تھا اور صبح کو جب بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے لیتا اور اس کے ساتھ کھیلتا، لوگوں نے یہ غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر مجھ کو ابوہریرہ کہنا شروع کر دیا، دوس کا قبیلہ یمن میں آباد تھا۔ [4]

قبل از اسلام[ترمیم]

بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، اس لیے فقر و افلاس بچپن کے ساتھی بن گئے تھے، بسرہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی کپڑے پر ملازم تھے اور خدمت یہ سپرد تھی کہ جب وہ کہیں جانے لگتے تو یہ پاپیادہ ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے اس کی سواری کے ساتھ چلیں، [5]

اسلام و ہجرت[ترمیم]

ابوہریرہؓ کے ایک ہم قبیلہ طفیل بن عمر دوسی ہجرت عظمیٰ کے قبل مکہ ہی میں قرآن کے معجزانہ سحر سے مسحور ہو چکے تھے اور قبول اسلام کے بعد اس کی تبلیغ کے لیے یمن لوٹ آئے ان ہی کی کوششوں سے دوس میں اسلام پھیلا اور غزوۂ خیبر کے زمانہ میں یہ یمن کے اسی خانوادوں کو لے کر آنحضرت کی خدمت بابرکت میں مدینہ حاضر ہوئے؛ لیکن آپ اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے، اس لیے یہ لوگ مدینہ سے خیبر پہنچے ،[6] اسی قبیلہ کے ساتھ ابوہریرہؓ بھی تھے اور راستہ میں بڑے شوق و ولولہ کے ساتھ شعر: بالیلۃ من طولھا وعنائھا علی انھا من دارالکفرنجت پڑھتے جاتے تھے، اسی ذوق و شوق کے ساتھ خیبر پہنچ کر آنحضرت کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے ،ان کا ایک غلام راستہ میں گم ہو گیا تھا، اتفاق سے اسی وقت وہ دکھائی دیا، آنحضرت نے فرمایا ابوہریرہؓ تمھارا غلام آگیا، عرض کیا خدا کی راہ میں آزاد ہے، [7] بیعت اسلام کے بعد دامن نبوی سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑا۔ [8]

غزوات[ترمیم]

غزوات میں ان کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی ، مگر اجمالاً اتنا معلوم ہے کہ اسلام کے بعد متعدد غزوات میں شریک ہوئے ؛چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں جن جن لڑائیوں میں شریک رہا غزوۂ خیبر کے علاوہ ان سب میں مالِ غنیمت ملا کیونکہ اس کا مال صرف حدیبیہ والوں کے لیے مخصوص تھا۔ [9]

ماں کا اسلام[ترمیم]

دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے کے بعد فکر ہوئی کہ بوڑھی ماں کو بھی جو زندہ تھیں۔ اس سعادت میں شریک کریں ، مگر وہ برابر انکار کرتی رہیں، ایک دن حسب معمول ان کو اسلام کی دعوت دی، انھوں نے شان نبوت میں کچھ ناروا الفاظ استعمال کیے، ابوہریرہؓ روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ بیان کر کے ماں کے اسلام کے لیے طالب دعا ہوئے رحمت عالمؓ نے دعا فرمائی، واپس ہوئے تو دعا قبول ہو چکی تھی، والدہ اسلام کے لیے نہاد دھو کر تیار ہو رہی تھیں ، ابوہریرہؓ گھر پہنچے تو ان کو اندر بلایا اور "أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" کے سامعہ نواز ترانہ کے ساتھ ان کا استقبال کیا، یہ فوراً الٹے پاؤں فرط مسرت سے روتے ہوئے کاشانۂ نبویﷺ پر حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ !بشارت ہو آپ ﷺ کی دعا قبول ہوئی، خدانے میری ماں کو اسلام کی ہدایت بخشی۔ [10]

عہد خلفا[ترمیم]

ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ملکی معاملات میں کوئی حصہ نہیں لیا، اس لیے کہیں نمایاں طور پر نظر نہیں آتے، اس مدت میں اپنے محبوب مشغلے حدیث کی اشاعت میں جس کی تفصیل آئندہ آئے گی خاموشی کے ساتھ مصروف رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا، انھوں نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا ، اس دن سے ان کا فقر و افلاس ختم ہوا، چنانچہ جب وہاں سے واپس ہوئے تو دس ہزار روپیہ پاس تھا ، عمر رضی اللہ عنہ نے باز پرس کی کہ اتنی رقم کہاں سے ملی؟ عرض کیا گھوڑیوں کے بچوں، عطیوں اور غلاموں کے ٹیکس سے، تحقیقات سے ان کا بیان صحیح نکلا تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے دوبارہ ان کے عہدہ پر واپس کرنا چاہا، مگر انھوں نے انکار کر دیا، عمر رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا تم کو امارت قبول کرنے میں کیوں عذر ہے، اس کی خواہش تو یوسف علیہ السلام نے کی جو تم سے افضل تھے، عرض کیا وہ نبی اور نبی زادہ تھے، میں بیچارہ ابوہریرہ امیمہ کا بیٹا ہوں۔ میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں ،ایک یہ کہ بغیر علم کے کچھ کہوں، دوسرے یہ کہ بغیر حجت شرعی کے فیصلہ کروں، تیسرے یہ کہ مارا جاؤں میری آبرو ریزی کی جائے اور میرا مال چھینا جائے۔ [11]

حضرت عثمانؓ کا عہد خلافت خاموشی میں بسر کیا، البتہ آخر میں حضرت عثمانؓ بن عفان کے محصور ہونے کے بعد لوگوں کو ان کی امد اور اعانت پر آمادہ کرتے تھے اور محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمانؓ بن عفان کے گھر میں موجود تھے، کچھ اور لوگ بھی تھے،ان سب کو خطاب کرکے کہا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؛کہ تم لوگ میرے بعد فتنہ اور اختلاف میں مبتلا ہو گئے، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اس وقت ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہیے فرمایا: تم کو امین اور اس کے حامیوں کے ساتھ ہونا چاہیے،اس سے حضرت عثمان غنیؓ کی طرف اشارہ تھا۔ [12]

حضرت عثمانؓ کے محاصرہ تک حضرت ابوہریرہؓ کا پتہ چلتا ہے،اس کے بعد آپ جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ میں کہیں نہیں نظر آتے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس فتنہ عام کے زمانہ میں اکثر محتاط صحابہؓ گوشہ نشین ہو گئے تھے،بہتوں نے نو آبادی چھوڑ کر بادہ نشینی اختیار کر لی تھی، حضرت ابوہریرہؓ بھی فتنہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے کہیں روپوش ہو گئے تھے، ان فتنوں کے بعد امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں مروان کبھی کبھی ان کو مدینہ پر اپنا قائم مقام بناتا تھا۔ [13]

علالت[ترمیم]

57ھ میں مدینہ میں بیمار ہوئے، بڑے بڑے لوگ عیادت کو آتے تھے، خود مروان بن حکم بھی آتا تھا، بیماری کی حالت میں زندگی کی کوئی آرزو باقی نہ رہی تھی، اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جلد سے جلد یہ دارالابتلاء چھوڑ کر دارالبقا میں داخل ہو جائیں ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن عیادت کو آئے ، رواج کے مطابق ان کی صحت کے لیے دعا کی، انھوں نے کہا خدا یا اب دنیا میں نہ لوٹا، پھر ابو سلمہ کو مخاطب کرکے بولے وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے ، جب انسان موت کو سونے کے ذخیرہ سے زیادہ پسند کرے گا، اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جب آدمی کسی قبر پر گذرے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش بجائے اس کے وہ اس میں دفن ہوتا۔ [14] بستر مرگ پر پیش آنے والی منزل کے خطرات کو یاد کر کے بہت روتے تھے ، لوگ رونے کا سبب پوچھتے تو فرماتے کہ میں اس دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں روتا ؛بلکہ سفر کی طوالت اور زادراہ کی قلت پر آنسو بہاتا ہوں، اس وقت میں دوزخ جنت کے نشیب و فراز کے درمیان ہوں معلوم نہیں ان میں سے کس راستہ پر جانا ہوگا۔ [15]

وصیت[ترمیم]

آخر وقت میں تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایتیں دیں کہ آنحضرت کی طرح مجھ کو عمامہ اور قمیص پہنانا اور عرب کے پرانے دستور کے مطابق میری قبر پر نہ خیمہ نصب کرنا اور نہ جنازہ کے پیچھے آگ لے چلنا اور جنازہ لیجانے میں جلدی کرنا اگر میں صالح ہوں گا جلد اپنے رب سے ملوں گا اور اگر بد قسمت ہوں گا تو ایک بوجھ تمھاری گردن سے دور ہو گا۔ [16]

وفات اور تجہیز و تکفین[ترمیم]

آپ نے 59ھ میں انتقال فرمایا۔انتقال کے بعد اس وصیت کی پوری تعمیل کی گئی، ولید نے نماز جنازہ پڑھائی، اکابر صحابہ ؓ میں حضرت ابن عمرؓ ابوسعید خدریؓ موجود تھے، نماز کے بعد حضرت عثمانؓ بن عفان کے صاحبزادوں نے کندھا دے کر جنت البقیع پہنچایا اور مہاجرین کے گور غریباں میں اس مخزنِ علم کو سپرد خاک کیا، اناللہ وانا الیہ راجعون، [17] انتقال کے وقت 78 سال کی عمر تھی۔ [18]

ترکہ[ترمیم]

انتقال کے بعد ولید حاکم مدینہ نے امیر معاویہؓ کو آپ کی وفات کی خبردی تو انھوں نے ترکہ کے علاوہ بیت المال سے دس ہزار درہم آپ کے ورثہ کو دلوائے اور ولید کو ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔ [19]

حلیہ[ترمیم]

رنگ گندم گون ، شانے کشادہ ، دانت آبدار تھے اور آگے دو دانتوں کے درمیان جگہ خالی تھی، زلفیں رکھتے تھے اور بالوں میں زرد خضاب کرتے تھے۔

لباس[ترمیم]

عموما ًسادہ ہوتا تھا، یعنی صرف دو رنگین کپڑے استعمال کرتے تھے، کبھی کبھی کتان وغیرہ کے بیش قیمت لباس بھی استعمال کر لیتے تھے۔

فضل و کمال[ترمیم]

ابوہریرہؓ ان صحابہ میں سے ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں ، آپ بالاتفاق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی جماعت میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، اگرچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور انس بن مالکؓ بھی حفاظ میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کو کثرت روایت میں ان پر بھی تفوق حاصل تھا، آنحضرت فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ علم کا ظرف ہیں۔ [20]

ذوق علم[ترمیم]

حضرت ابوہریرہؓ کو علم کی بڑی جستجو تھی،ان کا ذوق علم حرص کے درجہ تک پہنچ گیا تھا، ان کی علمی حرص کا اعتراف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایک مرتبہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن کون خوش قسمت آپ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا، فرمایا کہ تمھاری حرص علی الحدیث کو دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہ کرے گا۔ [21] عام طور پر لوگ آنحضرت سے زیادہ سوالات کرتے ہوئے ڈرتے تھے؛ لیکن ابوہریرہؓ نہایت دلیری سے پوچھتے تھے، عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے کہا کہ ابوہریرہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت سے روایت کرتے ہیں،انھوں نے جواب دیا پناہ بخدا ان کی روایات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کرنا، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ آنحضرت سے پوچھنے میں بہت جری تھے، اس لیے وہ ایسے ایسے سوالات کرتے تھے جن کو ہم لوگ نہیں کرسکتے تھے۔ [22] وہ خود جیسے علم کے شائق تھے، چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کے دل میں طلب علم کا یہی جذبہ پیدا ہوجائے ،ایک دن بازار جاکر لوگوں کو پکارا کہ تم کو کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے؟لوگوں نے پوچھا کس شے سے ؟ کہا وہاں رسول اللہ ﷺ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو، لوگوں نے پوچھا کہاں؟ کہا مسجد میں ،چنانچہ سب دوڑ کر مسجد آئے؛ لیکن یہاں کوئی مادی میراث نہ تھی، اس لیے لوٹ گئے اور کہا وہاں کچھ بھی تقسیم نہیں ہوتا، البتہ کچھ لوگ نمازیں پڑھ رہے تھے،کچھ لوگ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھے،کچھ حلال و حرام پر گفتگو کر رہے تھے بولے تم لوگوں پر افسوس ہے، یہی تمھارے نبی کی میراث ہے۔ [23]

حدیث میں ان کا پایا[ترمیم]

اس تلاش وجستجو نے ان کو حدیث کا بحر بے کران بنادیا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو خود بھی بڑے حافظ حدیث تھے ،فرماتے تھے کہ ابو ہریرہؓ ہم سب سے زیادہ حدیث جانتے ہیں، [24] امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ ابوہریرہؓ ،اپنے ہمعصر حفاظ میں سب سے بڑے حافظ تھے [25] اعمش ابو صالح سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، علامہ ذہبی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ "ابو ہریرہؓ" علم کا ظرف تھے اور صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند پایہ رکھتے تھے، [26] حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں،کہ "ابوہریرہ"اپنے ہمعصر رواۃ میں سب سے بڑے حافظ تھے اور تمام صحابہؓ میں کسی نے حدیث کا اتنا ذخیرہ نہیں فراہم کیا۔ [27] کمال کی آخری حدیہ تھی کہ آپ کو خود اپنی ہمہ دانی کا یقین داثق تھا، چنانچہ ایک موقع پر اپنی زبان سے کہا کہ میں آنحضرت کے صحابہؓ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس کو مجھ سے زیادہ احادیث یاد ہوں، [28] ترمذی کی روایت میں صرف عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا استثنا ہے۔ [29]

کثرت روایت کا سبب[ترمیم]

بہت سے اکابر اور علمائے صحابہؓ کے مقابلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کے کثرت علم اور وسعت معلومات کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس قسم کے مواقع حاصل تھے، جو دوسرے صحابہؓ کو حاصل نہ تھے، یہ خود اپنی کثرتِ روایت کے وجوہ و اسباب بیان کرتے تھے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے، حالانکہ مہاجر و انصار ان حدیثوں کو نہیں بیان کرتے مگر معترضین اس پر غور نہیں کرتے کہ ہمارے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے اور انصار اپنی زراعت کی دیکھ بھال میں سرگردان رہتے تھے، میں محتاج آدمی تھا، میرا سارا وقت آنحضرت کی صحبت میں گذرتا تھا اور جن اوقات میں وہ لوگ موجود نہ ہوتے تھے،اس وقت بھی میں موجود رہتا تھا، دوسرے جن چیزوں کو وہ بھلا دیتے تھے میں ان کو یاد رکھتا تھا، [30] حضرت ابوہریرہؓ کی اس توجیہ کی تصدیق کبار صحابہؓ کرتے تھے، چنانچہ ابو عامر روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت طلحہؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر کہا ابو محمدﷺ آج تک ہم کو نہ معلوم ہو سکا کہ یہ یمنی (ابوہریرہؓ) اقوال نبوی کا بڑا حافظ ہے یا تم لوگ، انھوں نے جواب دیا کہ بلاشبہ انھوں نے بہت سی ایسی حدیثیں سنیں جو ہم لوگوں نے نہیں سنیں اور بہت سے ایسی باتیں جانتے ہیں جو ہمارے علم سے باہر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ دولت و جائداد والے تھے، ہمارے گھر بار اور اہل و عیال تھے، ہم ان میں پھنسے رہتے تھے، صرف صبح و شام آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری دے کر لوٹ آتے تھے اور ابوہریرہؓ مسکین اور مال و متاع اور بال بچوں کی ذمہ داری سے سبکدوش تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیے آپ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ،ہم سب کو یہ یقین ہے کہ انھوں نے ہم سب سے زیادہ احادیث نبویﷺ سنیں اور ہم میں سے کسی نے ان پر یہ اتہام نہیں لگایا کہ وہ بغیر آنحضرت ﷺ سے سنے ہوئے ان کو بیان کرتے ہیں، [31] حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ ہم سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی خدمت کے حاضر باش تھے، [32] ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کو بلا کر پوچھا، تم یہ کیسی حدیثیں بیان کرتے ہو،حالانکہ جو کچھ میں نے (فعل نبویﷺ ) دیکھا اور (قول نبویﷺ ) سنا وہی تم نے بھی سنا اور دیکھا، عرض کیا آپ آنحضرت ﷺ کے خاطر زیب و زینت میں مصروف رہتی تھی اور خدا کی قسم میری توجہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ہٹاتی تھی۔ [33]

ایک مرتبہ مروان کو ان کی کوئی بات ناگوار ہوئی، ا س نے غصہ میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں روایت کرتے ہیں، حالانکہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے کچھ ہی دنوں پہلے مدینہ آئے تھے، بولے، جب میں مدینہ آیا تو آنحضرت ﷺ خیبر میں تھے، اس وقت میری عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی اور آپ کی وفات تک سایہ کی طرح آپ کے ساتھ رہا، آپ کی ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں جاتا تھا، آپ کی خدمت کرتا تھا، آپ کے ساتھ لڑائیوں میں شریک رہتا تھا، آپ کی معیت میں حج کرتا تھا، اس لیے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ حدیثیں جانتا ہوں خدا کی قسم وہ جماعت جو مجھ سے قبل آپ کی صحبت میں تھی، وہ میری حاضر باشی کی معترف تھی اور مجھ سے حدیثیں پوچھا کرتی تھی، ان پوچھنے والوں میں عمرؓ، عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ [34]

آپ دعا بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، زید بن ثابت ؓ کا بیان ہے کہ ایک دن میں ابوہریرہؓ اور ایک دوسرا شخص مسجد میں بیٹھے دعا اور ذکر خدا میں مشغول تھے، اس درمیان میں آنحضرت ﷺ بھی تشریف لائے، ہم لوگ خاموش ہو گئے، آپ نے فرمایا، اپنا کام جاری رکھو اس ارشاد پر میں اور دوسرا شخص ابوہریرہؓ کے قبل دعا کرنے لگے اور آنحضرت ﷺ آمین کہتے جاتے تھے،اس کے بعد ابوہریرہؓ نے دعا کی کہ خدایا جو کچھ میرے ساتھ مجھ سے قبل مانگ چکے ہیں وہ بھی مجھے دے، اس کے علاوہ ایسا علم عطا فرما جو پھر فراموش نہ ہو، اس پر آنحضرت ﷺ نے آمین کہی، اس کے بعد ہم دونوں شخصوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہم کو بھی ایسا علم عطا ہو جو فراموشی کی دست برد سے محفوظ رہے، فرمایا وہ دوسرے نوجوان کے حصہ میں آچکا [35]اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے آنحضرت ﷺ سے نسیانِ حدیث کی شکایت کی ،آپ ﷺ نے فرمایا چادر پھیلاؤ، انھوں نے چادر پھیلا دی،آپ نے اس میں دست مبارک ڈالے ،پھر فرمایا کہ اس کو سینہ سے لگا لو، کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں پھر کبھی نہ بھولا۔ [36]

حدیث کی تحریر و کتابت[ترمیم]

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ حدیثوں کے بارہ میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ چنانچہ بھولنے یا الفاظ کے رد وبدل کے ڈر سے جو کچھ سنتے تھے اس کو قلمبند کرلیتے تھے، فضل بن حسن اپنے والد حسن بن عمرو کا ایک واقعہ خود ان کی زبان سے سنا ہوا بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابوہریرہؓ کو ایک حدیث سنائی، ابوہریرہؓ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی حسن نے کہا میں نے یہ حدیث آپ ہی سے سنی ہے، فرمایا کہ اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس ضرور لکھی ہوگی، چنانچہ ان کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ایک کتاب دکھائی جس میں تمام حدیثیں درج تھیں اسی میں وہ حدیث بھی تھی،حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے تم سے کہا نہ تھاکہ تم نے مجھ سے سنی ہے تو وہ ضرور لکھی ہو گی۔ [37] لیکن صحاح کی ایک اور روایت میں ہے جو خود ان ہی سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ مجھ سے زیادہ حدیث اس لیے جانتے تھے کہ وہ آپ کی باتوں کو لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا، [38]اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت کی زندگی میں گو نہیں لکھ لیتے تھے، مگر بعد کو ان کو بھی لکھنا ضروری معلوم ہوا۔

امتحان[ترمیم]

ابوہریرہؓ کی کثرت روایت کی وجہ سے بعض اشخاص کے دل میں ان کی روایات کی جانب سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ،چنانچہ ایک مرتبہ مروان نے امتحان کی غرض سے ان کو بلوایا اور اپنے کاتب کو تخت کے نیچے بٹھا کر ان سے حدیثیں پوچھنا شروع کیں، یہ بیان کرتے جاتے تھے اور کاتب چھپا ہوا ان کی لا علمی میں لکھتا جاتا تھا، دوسرے سال پھر اسی طریقہ سے امتحان لیا، اس مرتبہ بھی انھوں نے بلا کم و کاست وہی جوابات دیے جو ایک سال قبل دے چکے تھے حتی کہ ترتیب میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔ [39]

اشاعت حدیث[ترمیم]

حضرت ابوہریرہؓ کا یہ خاص امتیاز ہے کہ خدا نے آپ کو جس فیاضی سے علم کی دولت عطا کی ،اسی فیاضی سے آپ نے اس کو مسلمانوں کے لیے وقف عام کیا، چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ،جہاں بھی کچھ مسلمان مل جاتے ان کے کانوں تک اقوال نبویﷺ پہنچا دیتے، جمعہ کے دن، نماز کے قبل کا وقت حدیث کے لیے مخصوص تھا،چنانچہ ہر جمعہ کو نماز سے پہلے لوگوں کے سامنے حدیثیں بیان کرتے اور یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہتا جب تک مقصورہ کا دروازہ نہ کھلتا اور امام برآمد نہ ہوتا۔ [40]

حضرت ابوہریرہؓ کے علم و عرفان کی بارش سے عورتیں بھی سیراب ہوتی تھیں،گو اس طبقہ کو وہ باقاعدہ تعلیم نہیں دیتے تھے،لیکن اگر کسی عورت سے کوئی فعل خلافِ احکام نبوی ﷺ سرزد ہوجاتا، تو فورا ٹوک دیتے اور اس بارے میں رسول اللہ کا حکم اس کو بتا دیتے،ایک مرتبہ ایک عورت سے ملے، اس کے پیراہن سے خوشبو کی لپٹ آتی تھی، پوچھا تو مسجد سے آتی ہے اس نے کہا ہاں پھر پوچھا مخصوص مسجد جانے کے لیے خوشبو لگائی تھی؟ اس نے کہا ہاں،فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس عورت کی نماز جو مخصوص مسجد جانے کے لیے خوشبو لگاتی ہے اس وقت تک مقبول نہ ہوگی، جب تک کہ وہ غسل نہ کر ڈالے، [41] یعنی اس کی خوشبو دھل نہ جائے،کیونکہ وہ فتنہ بن جاتی ہے، غرض اس عہد مبارک کی خواتین بھی ان کے خرمن علم کی خوشہ چین تھیں، چنانچہ آپ کے زمرہ روات میں حضرت عائشہؓ کا نام بھی نظر آتا ہے۔

آپ کے دامن کمال میں جس قدر علمی جواہرتھے، سب عام مسلمانوں میں تقسیم کر دیے؛ لیکن وہ احادیث جو فتنہ سے متعلق تھیں اور جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طور پر فرمایا تھا زبان سے نہ نکالیں کہ یہ خود فتنہ کی بنیاد بن جاتیں ، فرماتے تھے کہ میں نے احادیث نبویﷺ دو ظرف میں محفوظ کی ہیں، ایک ظرف کو پھیلایا ہوں، اگر دوسرے کو پھیلادوں تو نرخرہ کاٹ ڈالا جائے، [42] صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ اسرار توحید کی امانت تھے، متکلمین کہتے ہیں کہ وہ اسرار دین تھے،لیکن محدثین کا فتویٰ یہی ہے کہ وہ فتنہ کی حدیثیں تھیں۔ اشاعت علم فریضہ مذہبی اور عمل خیر ہے،لیکن اگر اس میں مذہبی خدمت کے جذبہ کی بجائے نمود و نمائش کا شائبہ شامل ہو جائے تو یہی عمل شربن جائے گا، ابوہریرہؓ جس جذبہ کے تحت اس فرض کو انجام دیتے تھے، اس کے متعلق خود ان کا بیان ہے کہ اگر سورۂ بقرہ کی یہ آیت: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ [43] ان لوگوں پر جو ہمارے نازل کیے ہوئے کھلے ہوئے احکام اور ہدایت کی باتوں میں جن کو ہم نے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے چھپاتے ہیں،خدا بھی لعنت بھیجتا ہے اور لعنت بھیجنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔ نہ ہوتی تو میں کبھی کوئی حدیث نہ بیان کرتا۔ [44]

حضرت ابوہریرہؓ کی مرویات کی مجموعی تعداد 5374 ہے، ان میں 325 متفق علیہ ہیں اور 79 میں بخاری اور 93 میں مسلم منفرد ہیں، [45] احادیث نبوی ﷺ کے عظیم الشان ذخیرہ کی مناسبت سے آپ کے رواۃ تلامذہ کا دائرہ بھی وسیع تھا، اکابر صحابہؓ میں زید بن ثابتؓ، ابو ایوب انصاریؓ ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، ابی بن کعبؓ، انس بن مالکؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، عبداللہ بن زبیرؓ ، جابر بن عبداللہ ؓ، ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اور عام صحابہؓ و تابعین میں ابورافع ، واثلہ ، جابر ، مروان ابن حکم، قبیصہ بن ذویب، سعید بن مسیب، سلیمان الاغر ، قیس بن ابی حازم ، مالک بن ابی عامر اصبحی، ابواسامہ بن سہل بن حنیف ،ابو ادریس خولانی، ابو عثمان نہدی، ابو رافع صائع، ابوزرعہ، بن عمرو ، ابو مسلم، ابن فارض، بسر بن سعید، بشیر بن نہیک ،بعجہ جہنی، ثابت بن عیاض، حفص بن عاصم بن عمر الخطابؓ ،حمید و ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوفؓ، حمید بن عبد الرحمن حمیری، حنظلہ بن علی اسلمی، جناب صاحب مقصورہ، خلاد بن عمرو، حکم بن مینا، خالد بن غلاق، ابو قیس ، زیاد بن رباح، سالم بن عبداللہ، زراہ بن ابی اوفی، سالم ابوالغیث، سالم مولی شداد، سعید بن ابی سعید، ابو سعید مقبری، حسن بصری ، محمد بن سیرین و سعید بن عمرو بن سعید بن العاص، سلیمان بن یسار، ابو الحباب، سعید بن یسار، سنان بن ابی سنان، عامر بن سعد بن ابی وقاصؓ، شریح ابن ہانی، شفی بن ماتع، طاوس، عکرمہ،مجاہد، عطاء، عامر شعبی،عبد اللہ بن رباع انصاری ، عبد اللہ بن شفیق، عبداللہ بن ثعلبہ، ابوالولید عبد اللہ بن حارث،سعید بن حارث، سعید بن سمعان، سعید بن مرجانہ، عبد اللہ بن عبد الرحمن، عبد الرحمن بن سعد المقعد، عبد الرحمن بن ابی عمرہ انصاری، عبد الرحمن بن یعقوب ،عبد الرحمن بن ابی نعیم الجبلی، عبد الرحمن بن مہران، اعرج ،عبیداللہ بن عبد اللہ، عبیداللہ بن سفیان حضرمی،عطاء بن میناء، عطا بن یزید لیثی، ابوسعید مولی بن کریز، عجلان بن مولی فاطہ، عراک بن مالک ،عبید بن حنین، عبید اللہ بن ابی رافع، عطاء بن یسار، عمرو بن ابی سفیان ، عنبسہ بن سعید بن العاص ، محمد بن قیس بن مخرمہ، موسیٰ، عیسیٰ ابن طلحہ بن عبیداللہ ،عروہ بن زبیرؓ، محمد بن عباد، جعفر، محمد بن ابی عائشہ، محمد بن زیاد جمجیؒ ،محمد بن عبد الرحمن ،موسیٰ ابن یسار، نافع بن جبیر بن مطعم، نافع مولی ابن عمر، نافع مولی ابی قتادہ، یوسف ابن ماہک، مقیم بن ابی سنان، یزید بن ہرمز، ابو حازم الاشجعی ، ابوبکر بن عبدالرحمن ، ابوتیمیہ ہجیمی، یزید بن اصم موسیٰ بن دروان، ابو الشعثاء المحاربی ، ابوصالح السمان ،ابو غطفان بن طریف المری، یہ حضرت ابوہریرہؓ کے رواۃ کی نہایت مختصر فہرست ہے، صحابہؓ اور تابعین ؒ ملا کر ان کے رواۃ کی تعداد 800 سے متجاوز ہو جاتی ہے۔ [46]

ایک اعتراض اور اس کا جواب[ترمیم]

بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض صحابہؓ ان کی مرویات پر اعتراض کرتے تھے، اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ ان کی روایتوں پر شک کرتے تھے؛بلکہ ان کے تفقہ پر انھیں اعتراض تھا، ان کا کہنا یہ تھا کہ آنحضرت نے مختلف حالات و واقعات کے لحاظ سے بعض باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور حضرت ابوہریرہؓ موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر ان حدیثوں کو بیان کر دیتے ہیں، جن سے ان حادیث کا اصل منشا فوت ہوجاتا ہے اور اس حیثیت سے ان کا اعتراض صحیح تھے کہ حضرت ابوہریرہؓ فقہ الحدث کا لحاظ نہیں کرتے تھے، فقہ میں ان کا کوئی امتیازی درجہ نہیں تھا، تاہم آنحضرت ﷺ کے بعد مدینہ میں جو جماعت منصب افتاء پر فائز تھی اس میں ایک ابو ہریرہؓ بھی تھے۔ [47]

عام تعلیم[ترمیم]

عام تعلیمی لحاظ سے وہ صحابہؓ کی جماعت میں بہت نمایاں تھے، عربی مادری زبان تھی اس کے علاوہ فارسی بھی جانتے تھے،ایک مرتبہ ایک ایرانی عورت استغاثہ لے کر آئی کہ شوہر نے مجھ کو طلاق دیدی ہے اور لڑکا لینا چاہتا ہے، یہ عورت فارسی میں گفتگو کرتی تھی اور ابوہریرہؓ اسی زبان میں جواب دیتے تھے، [48] اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب سے بھی واقفیت رکھتے تھے چنانچہ توراۃ کے مسائل سے کافی واقفیت تھی، [49] لکھنے میں بھی پوری مہارت رکھتے تھے، چنانچہ احادیث کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت ابوہریرہؓ غزوۂ خیبر میں دارالاسلام آئے، اس حساب سے ان کو کل چار سال صحبت نبوی سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا، اگرچہ بظاہر یہ مدت کم معلوم ہوتی ہے؛لیکن اس حیثیت سے کہ اس مدت میں سفر وحضر، خلوت وجلوت میں ایک لمحہ کے لیے بھی خدمت اقدس سے جدانہ ہوئے اور اس قلیل مدت میں جو لمحات بھی میسر آئے ان سے پورا فائدہ اٹھایا، یہ چھوٹی مدت کیفیت کے اعتبار سے بڑی طویل مدت کے برابر ہو جاتی ہے اس ملازمت رسولﷺ کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ پر تعلیمات نبوی کا بہت گہرا رنگ چڑھا تھا اور آپ اسلامی تعلیمات کا مکمل ترین نمونہ بن گئے تھے۔

خوف قیامت[ترمیم]

خشیت الہی اور خوف قیامت صحابہ کرامؓ کا خاص وصف تھا، ابوہریرہ اس سے لرزہ براندام رہتے تھے، خوف خدا اور قیامت کے احتساب کے ذکر سے چیخ کر بیہوش ہو جاتے تھے۔ ایک بار شقیا اصبحی مدینہ آئے،دیکھا کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے،پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے کہا، ابوہریرہؓ، چنانچہ یہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے، اس وقت ابوہریرہؓ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے،جب حدیث سنا چکے اور مجمع چھٹا تو انھوں نے ان سے کہا،کہ رسول اللہ کی کوئی حدیث سنائیے،جس کو آپ نے ان سے سنا ہو،سمجھا ہو، جانا ہو، ابوہریرہؓ نے کہا ایسی ہی حدیث بیان کروں گا،یہ کہا اور چیخ مار کر بے ہوش ہو گئے،تھوڑی دیرکے بعد ہوش آیا تو کہا میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا،جو آپ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور اس وقت میرے اور آپ کے سوا کوئی تیسرا شخص نہ تھا، اتنا کہہ کر پھر زور سے چلائے اور بیہوش ہو گئے،افاقہ ہوا، تومنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو آنحضرت ﷺ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور وہاں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہ تھا یہ کہہ اور چیخ مارکر غش کھا کر منہ کے بل گر پڑے ،شقیا اصبحی نے تھام لیا اور دیر تک سنبھالے رہے،ہوش آیا تو کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب خدا بندوں کے فیصلہ کے لیے اترے گا تو سب سے پہلے تین آدمی طلب کیے جائیں گے عالم قرآن، راہ خدا میں مقتول اور دولت مند، پھر خدا عالم سے پوچھے گا کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی، وہ کہے گا، ہاں خدایا، فرمائے گا تو نے اس پر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا رات دن اس کی تلاوت کرتا تھا ،خدا فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو اس لیے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھ کو قاری کا خطاب دیں، چنانچہ خطاب دیا، پھر دولت مند سے سوال کرے گا، کیا میں نے تجھ کو صاحب مقدرت کرکے لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کر دیا؟ وہ کہے گا، ہاں خدایا ،فرمائے گا تو نے کیا کیا، وہ کہے گا میں صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا، خدا فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے ؛بلکہ اس سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تو فیاض اور سخی کہلائے اور لوگوں نے کہا، پھر وہ جس کو راہ خدا میں اپنی جان دینے کا دعویٰ تھا پیش کیا جائے گا، اس سے سوال ہوگا، تو کیوں مار ڈالا گیا وہ کہے گا تو نے اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا میں تیری راہ میں لڑا اور مارا گیا،خدا فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے،بلکہ تو چاہتا تھا کہ تو دنیا میں جری اور بہادر کہلائے تو یہ کہا جاچکا ،یہ حدیث بیان کرکے رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا ابو ہریرہؓ سب سے پہلے ان ہی تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ [50]

عبادت و ریاضت[ترمیم]

حضرت ابوہریرہؓ کو عبادت سے خاص ذوق تھا، شب بیداری آپ کا محبوب مشغلہ تھا، خود بھی شب بیداری کرتے تھے اور گھر والوں سے بھی شب بیداری کراتے تھے آپ کا کنبہ تین آدمیوں پر مشتمل تھا، ایک خود، دوسری بیوی اور تیسرا خادم ،یہ تینوں بالالتزام باری باری سے اٹھ کر ایک ایک تہائی شب میں نماز پڑہتے تھے،ایک ختم کرکے دوسرے کو جگاتا اور دوسرا تیسرے کو اسی طریقہ سے تینوں مل کر پوری رات نماز میں گزار دیتے ۔ [51] ہر مہینہ کے شروع میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے،اگر کسی سبب سے شروع میں نہ رکھ سکتے تو آخر میں پورے کرتے،[52] ارکان عبادت کو پورے شرائط کے ساتھ ادا کرتے تھے ؛بلکہ شدت احتیاط کے باعث اس میں مبالغہ سے کام لیتے تھے، نعیم بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہؓ مسجد کی چھت پر وضو کرتے تھے، میں نے دیکھا کہ ہاتھ اٹھا کر شانوں تک دھوتے اور مجھ سے مخاطب ہوکر بولے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے وہ اعضا جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں چمکیں گے ،اس لیے تم لوگوں سے جہاں تک ہو سکے اس کی چمک کو بڑھاؤ، [53] عکرمہ راوی ہیں کہ ابوہریرہؓ بارہ ہزار تسبیحیں روزانہ پڑہتے تھے اورکہتے تھے کہ بقدر گناہ تسبیح کرتا ہوں، مضارب بن جزء بیان کرتے ہیں کہ رات کو میں نکلا کرتا تھا ایک دن نکلا تو تکبیر کی آواز سنی،قریب جاکر دیکھا تو ابوہریرہ تھے،پوچھا یہ کیا کر رہے ہو، کہا خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک دن وہ تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس پیٹ کی روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد خدانے یہ دن دکھایاکہ وہ میرے عقد میں آگئی، [54] آپ تسبیح وتہلیل میں مصروف رہتے تھے ،ایک تھیلی میں کنکریاں اور گٹھلیاں بھری رہتی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھتے تھے جب تھیلی ختم ہو جاتی تولونڈی کو حکم دیتے وہ بھرلاتی۔ [55]

محبت رسولﷺ[ترمیم]

آنحضرت کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کی محبت شیفتگی کے درجہ تک تھی ایک لمحہ کے لیے بھی آپ سے جدانہ ہوتے تھے، تمام مہاجرین و انصار اپنے اپنے کاروبار میں لگے رہتے ؛لیکن ان کا کام صرف یہ تھا کہ جمال نبویﷺ کے دیدار سے شوق کی آگ بجھائیں، ایک موقع پر اس کا اظہار بھی کیا یا رسول اللہ ﷺ حضور کامشاہدہ جمال میری جان کا سرمائی راحت اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ [56] آنحضرت کے بعد لطیف غذا کھانے سے محض اس لیے پرہیز کرتے تھے،کہ حضور نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، ایک مرتبہ لوگوں نے ان کو بھنی ہوئی بکری کی دعوت دی،انھوں نے محض اس لیے قبول کرنے سے انکار کیا کہ آنحضرت ﷺ دنیا سے اس حال میں سدھارے کہ کبھی جو کی روٹی بھی آسودہ ہوکر نہیں کھائی۔ [57]

محبت آل رسولﷺ[ترمیم]

ذات نبویﷺ کے ساتھ اس والہانہ تعلق کا فطری اقتضایہ تھا کہ آل اطہار کے ساتھ بھی یہی شیفتگی تھی، ایک مرتبہ آنحضرت نے ان کے سامنے حضرت حسنؓ کو بلا کر گود میں بٹھایا اور ان کے منہ میں منہ ملا کر تین مرتبہ فرمایا کہ: خدا میں اس کو محبوب رکھتا ہوں، اس لیے توبھی محبوب رکھ اور اس کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ، اس کے بعد سے جب یہ حضرت حسن کو دیکھتے تھے تو ان کی آنکھیں پرنم ہوجاتی تھیں، [58] عمیر بن اسحق راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ابوہریرہؓ حضرت حسنؓ سے ملے تو کہا کہ اپنے شکم مبارک کا وہ حصہ کھولیے جو آنحضرت ﷺ کا بوسہ گاہ تھا، آپ نے کپڑا ہٹا دیا اور ابوہریرہؓ نے اسی مقام پر بوسہ عقیدت ثبت کر دیا۔ [59]

والدہ کی خدمت گزاری[ترمیم]

حق العباد میں ایک بڑا حق یہ ہے کہ انسان تابمقدور ان ضیعف اور سب سے بڑے محسن والدین کی خدمت گزاری کو باعث فخر اور ذریعہ نجات سمجھے،جنھوں نے اس کو بچہ سے جوان بنایا، اسلام نے خاص طور پر ان کے اعزاز و احترام اور خدمت گزاری کی تعلیم دی ، حضرت ابوہریرہؓ نے اس فریضہ کا یہاں تک لحاظ رکھا کہ ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی بھر حج نہیں کیا۔ [60]

اظہار حق میں بے باکی[ترمیم]

حق گوئی اور راست بازی ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کا خاص جوہر تھا، اعلانِ حق میں وہ اس قدر جری اور دلیر تھے کہ بڑے بڑے شخص کو اس کی لغزش پر فوراً ٹوک دیتے تھے، آپ کا قیام مدینہ میں تھا، مروان یہاں کا حاکم تھا، اس لیے اکثر اس سے سابقہ پڑتا تھا، ایک مرتبہ اس کے یہاں گئے تو تصویریں آویزاں دیکھیں، فرمایا میں نے آنحضرت سے سنا ہے کہ اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے،اگر دعوائے تخلیق ہے تو کوئی ذرہ، غلہ یا جو پیدا کر کے دکھائے۔ [61] مروان کے زمانہ امارت میں مدینہ میں چک (ہنڈی) کا رواج ہوچلا تھا،حضرت ابوہریرہؓ کو معلوم ہواتو مدینہ جاکر مروان سے کہا تم نے ربا حلال کر دیا، مروان نے اس سے برات ظاہر کی ،فرمایا تم نے چکون کو رائج کیا،حالانکہ آنحضرت ﷺ نے اشیاء خوردنی کی بیع کی اس وقت تک ممانعت فرمائی ہے جب تک بائع اس کو ناپ نہ لے،حضرت ابوہریرہؓ کی اس تنبیہ سے مروان نے یہ طریقہ منسوخ کر دیا۔ [62] ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ مسجد نبوی میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے، مروان بھی موجود تھا، آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے سنایا کہ میں نے صادق مصدوق ﷺ سے سنا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی۔ [63]

فقر و غنا[ترمیم]

حضرت ابوہریرہؓ کی زندگی کے دو دور تھے،پہلا افلاس ،تنگدستی اور فقر و فاقہ میں بسر ہوا، دوسرے میں جاہ وثروت اور فارغ البالی نصیب ہوئی، فقر و فاقہ کا دور نہایت درد انگیز تھا، مسلسل فاقوں سے غش پر غش آتے تھے،لیکن رحمۃ للعلمین کے سوا کوئی پوچھنے والا نہ تھا، اس زمانہ میں آپ نے سخت تکلیفیں برداشت کیں، لیکن زبان کبھی سوال سے آلودہ نہ ہوئی، ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے بہت بے قرار ہوئے تو راستہ میں بیٹھ گئے،حضرت ابوبکرؓ کا گذر ہوا، ان سے ایک آیت پوچھی، وہ بتا کر گذر گئے اور کچھ توجہ نہ کی، اس کے بعد حضرت عمرؓ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا، اس کے بعد رسول اللہ کا گذر ہوا تو آپ اس حسن طلب کو سمجھ گئے اور ساتھ لیجا کر ان کو اور تمام اصحاب صفہ کو کھانا کھلایا۔ [64] جب فقر و فاقہ کا دور ختم ہوا اور خدانے فارغ البال کیا، اس وقت فقیرانہ سادگی کو قائم رکھتے ہوئے کبھی کبھی فارغ البالی کا بھی اظہار کیا، چنانچہ ایک مرتبہ کتان کے دورنگے ہوئے کپڑے پہنے اورایک سے ناک صاف کرکے کہا واہ واہ، ابوہریرہؓ آج تم کتان سے ناک صاف کرتے ہو،حالانکہ منبر نبوی اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے درمیان غش کھا کر گرتے تھے اور گذر نے والے تمھاری گردن پر پیر رکھ کر کہتے تھے کہ ابوہریرہؓ کو جنون ہو گیا ہے،حالانکہ تمھاری یہ حالت صرف بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ [65]

سادگی[ترمیم]

لیکن امارت کی حالت میں بھی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی جب شہر سے نکلتے تو سواری میں گدھا ہوتا ، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا، چھال کی رسی کی لگام ہوتی ، غرض اس سادگی سے نکلتے کہ کسی کو امارت کا اندازہ بھی نہ ہوتا، جب کوئی سواری کے سامنے آجاتا تو (مذاق سے )خود کہتے کہ راستہ چھوڑ دو، امیر کی سواری آرہی ہے۔ [66]

فیاضی[ترمیم]

فقر وغنا دونوں حالتوں میں بلند حوصلہ اور فیاض رہے،لوگوں کو کھلانے پلانے میں بڑی سیر چشمی سے کام لیتے تھے، عبد اللہ بن رباح راوی ہیں کہ ایک مرتبہ چند آدمیوں کا وفد امیر معاویہؓ کے پاس گیا، جس میں ہم اور ابوہریرہؓ بھی تھے، رمضان کا زمانہ تھا ہم لوگوں کا معمول تھا کہ کھانے پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے تھے، ان سب میں سب سے زیادہ "ابوہریرہ" دعوت کرتے تھے۔ [67] گو مہمان نوازی صحابہ کرامؓ کا عام وصف تھا، تاہم لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے زیادہ مہمان نواز کم صحابی تھے۔ [68]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اکمال ، ص 622 و قسطلانی ،ج 1، ص 212 )
  2. (ابن سعد ،ترجمہ ابوہریرہؓ دوسی)
  3. (ابن سعد،جز4،ق2،:52)
  4. (ترمذی مناقب ابوہریرہؓ)
  5. (ابن سعد ،ترجمہ ابوہریرہؓ دوسی)
  6. (ابن سعد، جز4،ق1،:175)
  7. (بخاری ،جلد1،باب الشرکہ باب اذا قال بعدہ ہو معہ ونوی العتق خیبر جانے کا واقعہ ابن سعد سے ماخوذ ہے)
  8. (طبقات ابن سعد،جز4،ق 1،:54)
  9. (طبقات ابن سعد،جز4،ق 1،:54)
  10. (مسلم،جلد3،فضائل ابی ہریرۃؓ)
  11. (اصابہ:206/7)
  12. (مسند ابن ،حنبل:325/2)
  13. (مسلم:154/1،باب انبات التکبیر فی کل خفض فی الصلوٰۃ )
  14. (ابن سعد،جز4،ق 2،:162)
  15. (ابن سعد،جز4،ق 2،:162)
  16. (ابن سعد،جز4،ق 2،:62،63)
  17. (ابن سعد،جز4،ق2،:63)
  18. (اسد الغابہ:317/5)
  19. (مستدرک حاکم:508/3)
  20. (بخاری، کتاب العلم)
  21. (مسند احمد ابن حنبل:373/2)
  22. (مستدرک حاکم:510/3)
  23. (جمع الفوائد ،کتاب العلم بحوالہ طبرانی الاوسط ،:221/1)
  24. (مستدرک حاکم:510/3)
  25. (تذکرہ الحفاظ:31/1)
  26. (تذکرہ الحفاظ:28/1)
  27. (تہذیب التہذیب:266/12)
  28. (مستدرک حاکم،جلد3،تذکرہ ابوہریرہؓ)
  29. (ترمذی،مناقب ،ابوہریرہؓ)
  30. (ابن سعد،جز4،قسم 2،صفحہ:56،ومسلم،جلد2،فضائل ابوہریرہؓ)
  31. (مستدرک حاکم:512/3،ترمذی، مناقب ابو ہریرۃ)
  32. (مستدرک حاکم:511/3)
  33. (مستدرک حاکم:509/3)
  34. (اصابہ:205/7)
  35. (تہذیب التہذیب:266/2)
  36. (صحیح بخاری،کتاب العلم)
  37. (مستدرک حاکم:511/3)
  38. (صحیح بخاری،کتاب العلم)
  39. (مستدرک حاکم:510/3)
  40. (مستدرک حاکم:312/3)
  41. (ابوداؤد:121/2)
  42. (صحیح بخاری کتاب الفتن وابن سعد ،جلد4،ق2،صفحہ:57)
  43. (بقرۃ:159)
  44. (صحیح بخاری کتاب الفتن وابن سعد،جلد4،12،صفحہ:57)
  45. (تہذیب الکمال،صفحہ:462)
  46. (تہذیب التہذیب ،ترجمہ ابوہریرہؓ)
  47. (اعلام الموقعین:13/1)
  48. (ابوداؤد:227/1)
  49. (اصابہ:205/5)
  50. (ترمذی ابواب الزہد باب،ماجاء فی الریا والسمعۃ)
  51. (مسند احمد بن حنبل:353/2)
  52. (مسند احمد بن حنبل:234/2)
  53. (مسند احمد بن حنبل: 353/2)
  54. (اصابہ:206)
  55. (ابوداؤد کتاب انکاح باب مایکرہ من اذکر الرجل مایکون من اصابۃ اھلہ)
  56. (مسند احمد بن حنبل:493/2)
  57. (بخاری،جلد2،کتاب الاطعمہ باب ماکان النبی ﷺ واصحابہ یاکلون)
  58. (مسند احمد بن حنبل:532/2)
  59. (مسند احمد بن حنبل:422/2)
  60. (مسلم جلد2،باب ثواب العبد واجرہ اذا نصح لسیدہ واحسن وابن سعد تذکرہ ابو ہریرہؓ)
  61. (مسند احمد بن حنبل،جلد2،احادیث ابوہریرہؓ)
  62. (مسلم،جلدا، کتاب البیوع باب بیع المبیع قبل القبض مطبوعہ مصر ،ومسند احمد:349/2)
  63. (بخاری،جلد2،کتاب الفتن باب قول النبی ﷺ ہلاک امتی علی ایدی اغیلتمہ مفناء)
  64. (ترمذی ابواب الزہد ،باب جاء فی حبشہ اصحاب النبی صلعم)
  65. (بخاری کتاب الاعتصام باب ماذکر النبی ﷺ وحص علی انفاق اہل العلم)
  66. (ابن سعد:60/4)
  67. (مسند احمد بن حنبل:538/2)
  68. (مسند احمد بن حنبل:538/2)