عامر بن عبداللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عامر بن عبداللہ
معلومات شخصیت

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بلند مرتبہ اور مرتاض تابعین میں تھے، کعب احبار جو خود ایک تارک الدنیا تابعی تھے،عامر کو امت محمدیہ کے راہب کے لقب سے یاد کرتے تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

عامر نام،ابو عمر کنیت،نسب نامہ یہ ہے،عامر بن عبد اللہ بن قیس بن ثابت بن اسامہ بن حذیفہ بن معاویہ تمیمی عنبری۔ تابعین کرام کا نمایاں اورمشترک وصف، ان کا علم و عمل اورخدمتِ علم و دین تھا،لیکن ان میں ایک مختصر جماعت ایسی بھی تھی ،جس نے نہ صرف تمام دنیاوی علائق کو چھوڑ دیا تھا ؛بلکہ علم کی بساط بھی تہ کرکے محض عبادت وریاضت،یادِ الہیٰ اورتزکیہ روح کو اپنا مقصد قرار دیا تھا، ،عامر بھی اسی مقدس جماعت کے ایک ممتاز فرد تھے،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بلند مرتبہ اور مرتاض تابعین میں تھے، کعب احبار جو خود ایک تارک الدنیا تابعی تھے،عامر کو امت محمدیہ کے راہب کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ [1] عامر پر یہ رنگ ایسا گہراتھا اور ان کے ہر عمل میں ایسا نمایاں تھا کہ ان کی زندگی کے دوسرے حالات کو زہد وورع سے جدا کرکے دکھانا مشکل ہے،ان کا کوئی عمل اس روح سے خالی نہ تھا۔

عہد فاروقی[ترمیم]

عامر گوزاہد خلوت نشین تھے،لیکن شرف جہاد کے حصول کے لیے جنگی مہمات میں شریک ہوتے تھے،سب سے اول وہ عہدہ فاروقی میں مدائن کی مہم میں نظر آتے ہیں [2] اگرچہ تصریح کے ساتھ دوسری مہمات میں ان کی شرکت کا پتہ نہیں چلتا؛ لیکن اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اکثر مہمات میں شریک رہتے تھے، قتادہ کا بیان ہے کہ عامر جب غزوات میں جاتے اورراستہ میں جھاڑیاں ملتیں اوران سے کہا جاتا کہ اس میں شیر کا خوف ہے تو جواب دیتے کہ مجھے خدا سے شرم معلوم ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اورکا خوف کروں۔ [3]

حضرت عثمانؓ کی مخالفت[ترمیم]

حضرت عثمانؓ کے خلافت میں جو انقلاب برپا ہوا تھا،اس کے تین بڑے مرکز تھے،بصرہ ،کوفہ اورمصر اس انقلاب کے شعلوں کی لپیٹ میں بعض بڑے صحابہ تک آگئے تھے،بصرہ عامر کا وطن تھا،گو وہ اس فتنہ میں مبتلا نہ ہوئے تاہم ان کا دامن اس سے پاک بھی نہ رہ سکا اوروہ بھی مخالفین عثمان کے دام میں پھنس کر ان کے ساتھ ہو گئے ،ایک موقع پر اہل بصرہ نے انھیں حضرت عثمانؓ کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیا، انھوں نے مدینہ جاکر حضرت عثمانؓ کے سامنے برملا اپنے خیالات ظاہر کیے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے آپ کے اعمال کا جائز ہ لیا تو معلوم ہوا کہ آپ سے بہت سے بُرے افعال سرزد ہوئے ہیں، اس لیے خدا کا خوف کیجئے اور اس کے سامنے آیندہ کے لیے توبہ کیجئے،حضرت عثمانؓ ان کے حقیقی حالات سے اب تک ناواقف تھے، اس لیے ان کی باتیں سن کر فرمایا لوگو ذرا انھیں دیکھو یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گفتگو کرنے کے لیے آئے ہیں، لوگ انھیں قاری سمجھتے ہیں؛حالانکہ انھیں یہ بھی خبر نہیں کہ خدا ہے کہاں ،عامر نے یہ کلمات سن کر قرآن کی اس آیت: إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ تمھارا رب تاک میں ہے۔ کی طرف اشارہ کرکے کہا خدا کی قسم میں خوب جانتا ہوں وہ نافرمانوں کی تاک میں ہے [4] اس گفتگو کے بعد عامر بسرہ واپس چلے آئے۔

بعض مذہبی الزامات[ترمیم]

خلیفہ وقت کے ساتھ اس سیاسی اختلاف کے علاوہ عامر پر بعض مذہبی الزام بھی تھے یا ان کی طرف منسوب کیے جاتے تھے کہ وہ شادی نہیں کرتے،گوشت نہیں کھاتے، اپنے کو حضرت ابراہیم سے بہتر یا ان کا مثل سمجھتے ہیں، حکومت کے ساتھ ان کا سیاسی اختلاف ہو ہی چکا تھا، اس لیے ان کے بعض مخالفین نے والی بصرہ کو ان باتوں کی خبر کردی اس نے حضرت عثمانؓ کو اطلاع دے دی ،وہاں سے تحقیقات کا حکم آیا اورصحت کی صورت میں شام بھیج دیے جانے کی ہدایت ملی، اس حکم پر والی بصرہ نے عامر کے سامنے ان الزاموں کو پیش کرکے ان کا جواب طلب کیا،انھوں نے جواب دیا کہ میں نے عورتوں کو اس لیے چھوڑا ہے کہ جب بیوی ہوگی تو اولاد بھی ہوگی اوراولاد ہوئی تو دنیا میرے دل میں بس جائے گی، گوشت اس لیے نہیں کھاتا کہ میں مجوسیوں کے ملک میں رہتا ہوں اوراس کی کوئی ضمانت وشہادت نہیں ہوتی کہ ذبیحہ صحیح ہے اس لیے مجھے اس پر اطمینان نہیں ہوتا، حضرت ابراہیمؑ سے برتر ہونے کا سوال میں اس کے علاوہ کوئی جواب نہ دوں گاکہ میری آرزو ہے کہ کاش میں ان کے پاؤں کی خاک ہوتا جو ان کے قدموں سے لگ کر جنت میں جائے گی، ایک سیاسی الزام امرا وحکامِ دولت سے نہ ملنے کا تھا، اس کا جواب یہ دیا کہ تم لوگوں کے دروازوں پر حاجت مندوں کا ہجوم رہتا ہے،ان کی حاجت روائی کیا کرو اور بے غرض لوگوں کو ان کے حال پر رہنے دو۔ [5]

جلا وطنی[ترمیم]

اگرچہ مذہبی الزامات تحقیقات کے بعد غلط نکلے،لیکن سیاسی اورانتظامی حیثیت سے عامر بصرہ سے شام بھیج دیے گئے، امیر معاویہؓ نے انھیں نہایت عزت واحترام کے ساتھ ٹھہرایا ان کی خدمت کے لیے ایک لونڈی مقرر کرکے اس کو ہدایت کردی کہ ان کے حالات ومشاغل دیکھ کر انھیں اطلاع دیتی رہے،شام آنے کے بعد بھی ان کے معمولات ومشاغل میں کوئی فرق نہ آیا تھا؛چنانچہ وہ روزانہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتے تھے اورشام کی تاریکی میں واپس آتے، امیر معاویہؓ ان کے لیے کھانا بھیجتے تھے،عامر اس کو مطلق ہاتھ نہ لگاتے،کہیں سے روٹی کا ایک ٹکڑا لیتے آتے،اسی کو پانی میں بھگو کر کھالیتے اوروہی پانی اوپر سے پی کر عبادت میں مصروف ہوجاتے اور رات سے صبح تک مصروف رہتے،لونڈی نے امیر معاویہ کو یہ حالات بتائے،انھوں نے حضرت عثمانؓ کو لکھ بھیجا ،جب آپ کو عامر کی ا صل حقیقت معلوم ہوئی تو امیر معاویہ کو انھیں مقرب بنانے اوردس غلام اوردس سواریاں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا،امیر معاویہ نے عامر کو اطلاع دی کہ امیر المومنین نے مجھے آپ کی خدمت میں دس غلام اوردس سواریاں پیش کرنے اورآپ کو مقرب بنانے کا حکم دیا ہے،انھوں نے جواب دیا :ایک شیطان پہلے مسلط ہے،اسی کا بار کیا کم ہے کہ دس غلاموں کا بار اٹھاؤں، ایک خچر میرے پاس ہے وہ سواری کے لیے کافی ہے،مجھ کو خوف ہے کہ قیامت کے دن خدا مجھ سے فاضل سواریوں کے متعلق بھی باز پرس کرے گا،ر ہی عزت وتقرب تو اس کی مجھ کو کوئی خواہش نہیں ہے۔ [6]

واپسی سے انکار اورشام کی مستقل اقامت[ترمیم]

عامر کے اصل حالات معلوم ہونے کے بعد امیر معاویہ نے ان سے کہا اگر چاہیں تو آپ بصرہ واپس جا سکتے ہیں، انھوں نے جواب دیا اب میں ایسے شہر میں واپس نہ جاؤں گا، جہاں کے باشندوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا اورشام ہی میں قیام کیا،لیکن حکومت کی نگرانی ان پرسے اٹھ گئی اور وہ ساحلی علاقے کی طرف نکل گئے،کبھی کبھی امیر معاویہ سے ملنے کو چلے آتے تھے،امیر معاویہ ان سے ان کی ضروریات پوچھا کرتے،یہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ میری کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،جب معاویہ کا اصرار زیادہ بڑھا تو یہ فرمائش کی کہ شام کے سرد موسم کی وجہ سے روزوں کی شدت اورچاشنی کا لطف جاتا رہا،اگر ہو سکے تو بصرہ کی جیسی گرمی یہاں پیدا کردو۔ [7]

وطن سے بے تعلقی[ترمیم]

عامر جیسے بے نیاز شخص کے لیے وطن اورپردیس سب برابر تھے وطن میں ان کے لیے کوئی خاص کشش نہ تھی،پھر شام جیسی مقدس اورانبیاء وصلحا اس کا موطن ومدفن سرزمین مل گئی تھی اس لیے رہا سہا وطن سے جو تعلق باقی تھا وہ بھی منقطع کر لیا اوروطن اوراہل وطن سب کو بھلا کر یاد الہیٰ میں مصروف ہو گئے، بصرہ سے جو لوگ شام آتے اور ملنے کے لیے ان کے پاس جاتے ان کی ملاقات بھی عامر کے لیے خوشگوار باقی نہ رہ گئی تھی، قاضی عبیداللہ بن حسن کا بیان ہے ایک مرتبہ میں شام گیا تو عامر سے ملاقات کے لیے انھیں تلاش کیا معلوم ہوا کہ وہ ایک مقام پر ایک بوڑھی عورت کے یہاں آتے جاتے ہیں۔

میں اس عورت کے یہاں پہنچا اس نے کہا کہ وہ شب وروز اس پہاڑ کے دامن میں روزہ نماز میں مشغول رہتے ہیں اگر تم ان سے ملنا چاہتے ہو تو افطار کے وقت جاؤ،اس وقت وہ ضرور ملیں گے ؛چنانچہ میں افطار کے وقت پہاڑ کے دامن میں پہنچا، عامر موجود تھے میں نے سلام کیا انھوں نے صرف ایک شخص کا اور وہ بھی ایسے شخص کا حال پوچھا جس سے میں صرف ایک دن قبل مل چکا تھا اپنے وطن اوراہل وطن کا کوئی حال نہیں دریافت کیا یہ بھی نہیں پوچھا کہ کون زندہ ہے کون مرگیا کھانے تک کا اخلاق نہیں کیا یہ خلافِ امید باتیں دیکھ کر میں نے کہا میں آپ میں عجیب باتیں پاتا ہوں فرمایا کیا؟ میں نے کہا کہ آپ کو ہم لوگوں سے جدا ہوئے مدت گذر گئی؛ لیکن آپ نے ان میں سے کسی کا حال نہیں پوچھا اورپوچھا بھی تو ایک ایسے شخص کا جس سے میں صرف ایک دن پہلے ملا تھا، فرمایا میں نے تم کو صالح پایا اس لیے تمھارے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی میں نے عرض کیا کہ وطن سے تازہ وار د تھا آپ نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کون مرگیا کون زندہ ہے، فرمایا ایسے لوگوں کے متعلق کیا پوچھتا کہ جو مرچکے وہ ختم ہو چکے اور جو نہیں مرے ہیں وہ عنقریب مرنے والے ہیں،میں نے کہا آپ نے شب کے کھانے کے متعلق بھی مجھے سے اخلاق نہیں کیا فرمایا میں جانتا تھا کہ تم عمدہ غذا کھاتے ہو اس لیے خشک اور روکھی سوکھی روٹی کے لیے کیا پوچھتا۔

مجاہدات ونفس کشی[ترمیم]

عامر عبادت وریاضت زہد وورع اورمجاہد نفس کشی کی اس معراج تک پہنچ گئے تھے،جہاں کسی دنیاوی دل فریبی اورآرام و راحت کا گذر نہ تھا، انھوں نے نفس کشی اورمجاہدات کو اپنا مقصد حیات بنالیا تھا، ایک زمانہ میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہو سکا تو زندگی کا صرف ایک مقصد بنالوں گا[8] انھوں نے اس عزم کو اس کامیابی کے ساتھ پورا کیا کہ دنیا کی ان تمام نعمتوں اورلذتوں کو جن سے اس مقصد عظیم میں خلل پڑنے کا احتمال تھا چھوڑ دیا وہ خدا سے دعا کیا کرتے تھے کہ میرے دل سے عورتوں کی خواہش دور کر دے کہ یہ شے میرے دین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے ،اپنے ماسوا کا خوف دل سے نکال دے اورآنکھوں سے نیند اڑادے جس طرح چاہوں آزادی سے رات دن تیری عبادت کر سکوں، خدا نے ان کی پہلی دعائیں قبول کیں؛ لیکن ایک عرصہ تک نیند پر پورا قابو حاصل نہ ہو سکا، آپ فرماتے تھے کہ دنیا چار چیزوں کا نام ہے،خواب وخور،دولت اورعورت، دوچیزوں یعنی عورت اورمال سے میں نے نفس کو روک لیا ہے،مال کی مجھے حاجت نہیں اور عورت اوردیوار میرے نزدیک برابر ہیں البتہ نیند اور کھانے پر ابھی پورا قابو نہیں ہے؛ لیکن خدا کی قسم میں ان دونوں خواہشوں کو مٹانے میں پوری کوشش صرف کردوں گا؛چنانچہ نیند اڑانے اوربھوک کو بہلانے کی یہ تدبیر نکالی تھی کہ رات بھر جاگ کر عبادت کرتے تھے اوردن کو روزہ رکھ کر سوتے تھے [9]شام کے زمانہ قیام میں سارادن روزے میں گزرتا تھا اورپوری رات نماز میں بسر ہوتی تھی، غذا میں صرف روکھی روٹی ہوتی تھی جس کو پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے،اس مجاہدہ وریاضت نے جسم کو ایسا زار ونزار کر دیا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آتا تھا، ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ اپنے اوپر آپ بڑا ظلم کرتے ہیں،آپ نے اپنے ہاتھوں کا چمڑا پکڑ کر فرمایا،خدا کی قسم اگر ہو سکا تو اس کو ایسا بنادوں گا کہ زمین کو اس سے بہت کم تخمی تری ملے [10]ماسوا اللہ سے بے خوفی کا یہ حال تھا کہ وحشی حیوانوں تک سے نہیں ڈرتے تھے ،قتادہ کا بیان ہے کہ عامر جب غزوات میں شریک ہوتے تھے اورراستہ میں جھاڑیاں ملتیں اوران سے کہا جاتا کہ ان میں شیر کا ڈر ہے تو جواب دیتے کہ مجھے خدا سے شرم معلوم ہوتی ہے کہ اس کے سوا کسی کا خوف کروں۔ [11]

عبادت میں اخفا[ترمیم]

عبادت میں ہمیشہ اخفا کا اہتمام رکھتے اور عام نگاہوں سے چھپ کر عبادت کرتے تھے ان کے ایک شریک سفر کا جو کسی جہاد میں ہمراہ تھے، بیان ہے کہ ایک مہم میں میرا اورعامر کا ساتھ ہو گیا ایک جھاڑی کے پاس منزل ہوئی عامر نے اپنا سامان ایک جگہ جمع کیا اورگھوڑے کو باندھ کر اس کے سامنے چار ہ ڈال کر جھاڑی میں گھس گئے میں نے طے کیا کہ آج میں ان کو ضرور دیکھو گا کہ وہ رات کو کیا کرتے ہیں؛ چنانچہ ان کی نگرانی شروع کی وہ جاکر ایک ٹیلہ پر نماز میں مشغول ہو گئے اورصبح تک نماز پڑھتے رہے،طلوع صبح کے وقت انھوں نے یہ دعا مانگی،خدایا میں نے تجھ سے تین چیزیں مانگی تھیں دو تونے عطا فرمائیں اور ایک نہیں دی خدایا وہ بھی دے دے کہ میں حسب خواہش تیری عبادت کرسکوں،یہ دعا کرتے کرتے صبح ہو گئی اس وقت مجھ پر ان کی نظر پڑی ،مجھے دیکھ کر کہامعلوم ہوتا ہے تم رات بھر میری نگرانی کرتے رہے ہیں ابھی تم کو بتاتا ہوں یہ کہہ کر وہ مجھ پر بڑے زور سے بگڑے میں نے بھی درشت لہجہ میں جواب دیا کہ اس ہنگامہ آرائی کو جانے دیجئے آپ نے دعا میں خدا سے جن باتوں کے چاہنے کا ذکر کیا ان کو بتائے ورنہ رات کا سارا ماجرا لوگوں پر ظاہر کردوں گا،انھوں نے کہا دیکھو ایسا نہ کرنا میں نے کہا نہیں ایسا ضرور کہوں گا جب انھوں نے دیکھا کہ میں باز آنے والا نہیں ہوں تو کہا اچھا میں بتائے دیتا ہوں لیکن جب تک میں زندہ رہوں اس وقت تک کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا، میں نے خدا کو درمیان میں ڈال کر راز داری کا وعدہ کیا، اس وقت انھوں نے کہا میں نے اپنے رب سے چاہا تھا کہ وہ میرے دل سے عورت کی خواہش نکال دے جو میرے دین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے، خدا نے اسے قبول کر لیا اوراب میرے نزدیک عورت اوردیوار دونوں برا بر ہیں،دوسری دعا یہ تھی کہ میرے دل میں اس کے علاوہ اورکسی کا خوف باقی نہ رہے؛چنانچہ اب میں کسی سے نہیں ڈرتا،تیسری دعا یہ تھی کہ میری، نیند اڑجائے تاکہ رات دن جب چاہوں عبادت کرسکوں، یہ دعا قبول نہ ہوئی۔ [12]

بعض شکوک کا ازالہ[ترمیم]

اگرچہ بظاہر اس نفس کشی کی سرحد رہبانیت سے ملتی ہوئی معلوم ہوتی ہے،لیکن مقربین بارگاہ کے لیے یہ منزل بھی ابتدائی ہے اورجن کے رتبے میں سوا ان کو سوا مشکل ہے،خود ان کے زمانہ میں لوگوں نے ان کے اس راہبانہ تقشف پر اعتراضات کیے تھے اورانہوں نے اس کے جو جوابات دیے تھے ان سے بڑی حد تک ظاہری شکوک رفع ہوجاتے ہیں، ایک شخص نے ان کی تجرد زندگی کے خلاف دلیل پیش کی۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً [13] ہم نے تمھارے پہلے بہت سے رسول بھیجے اوران کے لیے جوڑے اوراولاد بنائی۔ یعنی جب انبیا علیہم السلام نے جو خدا کے سب سے بڑے عبادت گزار بندے تھے،ازدواج نہیں چھوڑا تو ایک معمولی انسان کے لیے اس کا جواز کیوں کر ہو سکتا ہے۔ عامر نے قرآن ہی سے اس کا جواب دیا۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ [14] ہم نے جن اورانس کو صرف عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔

ایک اور شخص نے کہا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے،انھوں نے اس کی یہ نفسیاتی توجیہ بیان کی کہ مجھ میں نہ نشاط وامنگ ہے اورنہ مال و دولت ایسی حالت میں میں کیوں کسی مسلمان عورت کو دھوکا دوں۔ [15] ایک مرتبہ کچھ لوگ ایک موقع پر کہہ رہے تھے کہ عامر گوشت اور چربی نہیں کھاتے، مسجد میں نماز نہیں پڑھتے،شادی نہیں کرتے،آج تک ان کے جسم نے دوسرے جسم کو مس نہیں کیا ہے اور وہ اپنے کو ابراہیم علیہ السلام کے مثل سمجھتے ہیں،مؤ کل بن یسار نے یہ باتیں سنیں تو وہ اس کی تصدیق یا تردید کے لیے عامر کے پاس گئے اوران سے کہا کہ آپ کے متعلق لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں آپ کیا فرماتے ہیں،انھوں نے جواب دیا کہ جب مجھے گوشت کھانے کی خواہش ہوتی ہے تو خود بکری ذبح کرکے کھاتا ہوں، چربی بھی کھاتا ہوں ،مگر وہاں سے (بادیہ کی طرف اشارہ کرکے بتایا ) آئی ہوئی، روزانہ کی نمازیں مسجد میں نہیں پڑھتا، لیکن جمعہ کی نماز باجماعت پڑھتا ہوں، بقیہ نمازیں یہاں اپنے مقام پر ادا کرتا ہوں، شادی اس لیے نہیں کرتا کہ میرے ایک ہی نفس ہے مجھے ڈر ہے کہ شادی کے بعد وہ مجھے مغلوب نہ کرلے،میں یہ نہیں کہتا کہ میں ابراہیمؑ کے مثل ہوں البتہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھ کو خدا سے امید ہے کہ وہ مجھے نبیوں ،صدیقوں شہداء اور صلحاء کے ساتھ رکھے گا یہ لوگ بہترین رفیق ہیں [16] ان اعتراضوں کے انھوں نے اوربھی جواب دیے ہیں جو اوپر گذر چکے ہیں۔

جہاد فی سبیل اللہ[ترمیم]

اگر چہ عامر گوشہ عزلت کے خیال سے پہاڑوں کے دامنوں میں ویرانوں میں اور نامعلوم مقامات پر عبادت کیا کرتے تھے ؛لیکن اس عزلت نشینی نے انھیں محض حجرہ نشین زاہدنہ بنادیا تھا؛بلکہ ان کی رگوں میں جہاد کا خون دوڑتا رہتا تھا؛ چنانچہ بعض مہمات میں ان کی شرکت کے واقعات اوپر مختلف سلسلوں کے ماتحت گذر چکے ہیں،ان کا معمول تھا کہ جب وہ کسی جہاد میں جانے لگتے تو پہلے موافقِ مزاج رفیق تلاش کرتے جب وہ مل جاتا تو اس سے کہتے کہ میں اس شرط پر تمھارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں کہ تم تین باتوں کی مجھے اجازت دو، ایک یہ کہ میں تمھارا موذن رہوں، دوسرے یہ کہ خدمت گزاری کروں اوراس میں کوئی شخص خلل اندازی نہ کرے تیسرے اپنی حیثیت اوراستطاعت کے مطابق تم پر صرف کروں، اگر وہ ان باتوں کو مان لیتا تو عامر اس کے ساتھ ہوجاتے ،ورنہ اس کا ساتھ چھوڑ کر دوسرا ساتھی تلاش کرتے [17] اپنی سواری پر دوسرے مجاہدین کو باری باری سے سوار کرتے تھے۔ [18]

ان کا جہاد خالصۃ لوجہ اللہ ہوتا تھا،اسماء بن عبید کا بیان ہے کہ عامر عنبری ایک مہم میں تھے،جنگ میں ایک بڑے دشمن کی لڑکی ہاتھ آئی، لوگوں نے عامر کے سامنے اس کے اوصاف بیان کیے،انھوں نے سن کر کہا میں بھی مرد ہوں مجھے یہ لڑکی دے دو،ان کی اس غیر متوقع خواہش پر لوگوں نے نہایت مسرت کے ساتھ لونڈی ان کے حوالے کردی جب وہ ان کے قبضہ میں آگئی تو اس سے کہا تم لوجہ اللہ آزاد ہو،لوگوں نے ان سے کہا آپ اس کے بدلہ میں دوسری لونڈی آزاد کرسکتے تھے،انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے رب سے ثواب چاہتا ہوں۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر[ترمیم]

امر بالمعروف اورنہی المنکر کے جہاد میں بھی ان کی تیغ زبان بے نیام رہتی تھی اورخدا اوررسول کے احکام کی پامالی پر جوش غضب سے لبریز ہوجاتے تھے،ایک مرتبہ رحبہ میں ایک راستہ سے گذر رہے تھے کہ دیکھا ایک ذمی کو لوگ پکڑے ہوئے اس پر ظلم کر رہے ہیں پہلے انھوں نے زبانی نصیحت کرکے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر جب وہ باز نہ آئے تو عامر کو غصہ آگیا انھوں نے کہا تم لوگ جھوٹ کہتے ہو میں اپنی زندگی میں ذمۃ اللہ کے ساتھ بد عہدی نہیں دیکھ سکتا اورذمی کو زبردستی چھڑالیا۔ [19]

امرا و سلاطین سے بے نیازی[ترمیم]

امراءو اربابِ دول سے ان کی بے نیازی بیزاری کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، وہ ان سے ملنا بھی پسند نہ کرتے تھے، ان پر جو الزام قائم کیے گئے تھے،ان میں ایک الزام امرا اورحکام سے نہ ملنے کا بھی تھا، جس کا انھوں نے یہ جواب دیا تھا کہ تم لوگوں کے یہاں خود ہی حاجتمندوں کا ہجوم رہتا ہے،ان کی حاجتیں پوری کیا کرو، اوربے غرض لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑدو [20] وہ خلفاء وسلاطین کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔

حضرت عثمانؓ کے مقابلہ میں انھوں نے جس جرأت اوربے باکی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اس کا تذکرہ اوپر گذر چکا ہے،اس طرح امیر معاویہ کے عہدِ خلافت میں بصرہ کے قراء کا ایک وفد شام بھیجا گیا،اس میں ایک عامر بھی تھے،مضارب بن حزن نے جو وفد بھیجنے والوں میں تھے، امیر معاویہ سے پوچھا آپ نے ہمارے قراء کو جنہیں ہم نے وفد میں بھیجا تھا،کیسا پایا،انھوں نے کہا ایک شخص کے علاوہ باقی سب جھوٹی تعریفیں اورفضول گوئی کرتے ہیں،جھوٹ لے کر آتے ہیں، اورخیانت لے کر واپس جاتے ہیں، صرف ایک شخص طبیعت کا مرد ہے،ہم لوگوں نے پوچھا امیر المومنین وہ کون شخص،جواب دیا،عامر بن قیس ۔

اگر کبھی کوئی امیر یا عہدہ دار خود ان کے پاس آتا تو اس کے ساتھ بھی یہی طرز عمل رہتا ،ایک مرتبہ کسی غزوہ میں گئے ہوئے تھے، راستہ میں ایک مقام پر منزل ہوئی، عامر ایک کنیسہ کے احاط میں اترے اورایک آدمی کو متعین کر دیا کہ کوئی شخص اندر نہ آنے پائے،تھوڑی دیر کے بعد اس شخص نے آکر اطلاع دی کہ امیر آنے کی اجازت چاہتے ہیں،عامر نے اندر بلا لیا، جب وہ آیا تو اس سے کہا میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ تم مجھ کو دنیا کی ترغیب نہ دلانا اورآخرت کو میری نگاہ سے نہ گرانا۔ [21]

دو دوست[ترمیم]

حقیقت یہ ہے کہ عامر جس عالم میں تھے وہاں تعلقات ومراسم دنیاوی کا گزرہی نہ تھا؛چنانچہ ان کی نہ صرف امرا ؛بلکہ کسی سے بھی رسم وراہ نہ تھی،ساری دنیا میں ان کی محبت صرف مطرف بصری کے حصہ میں آئی تھی،عورتوں میں ایک اونی درجہ کی بکری چَرانے والی عورت سے اس کے اوصاف کی بنا پر ہمدردی ہو گئی تھی،لیکن اس سے ربط بھی قائم نہ ہونے پایا تھا کہ وہ مرگئی۔ مطرف کے ساتھ مجذوبانہ محبت تھی؛چنانچہ بصرہ چھوڑتے وقت ان سے رخصت ہونے کے لیے ایک شب میں کئی مرتبہ مطرف کے گھر گئے اورہر مرتبہ ان سے کہتے تھے کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں خدا کی قسم تمھاری محبت مجھ کو بار بار تمھارے پاس لاتی ہے۔ [22]

عورت کا قصہ یہ ہے کہ ایک مسکین اورعابد ہ عورت چند بدویوں کی بکریاں چَرایا کرتی تھی اوران کی ہر قسم کی وحشیانہ سختیاں جھیلتی تھی، عامر کے ساتھ معنوی مماثلت کی وجہ سے بعض لوگوں نے عامر سے کہا کہ فلاں عورت تمھاری بیوی ہے اورجنتی ہے، عامر اس کی تلا ش میں نکلے، اس عورت کی زندگی یہ تھی کہ دن بھر وحشی اوربدخو بدویوں کی بکریاں چَراتی تھی،شام کو جب بکریاں لے کر واپس آتی تو بدوی گالیوں کی بوچھار سے اس کا استقبال کرتے اوراس کے سامنے روٹی کے دو ٹکڑے پھینک دیتے یہ انھیں اٹھالیتی اوران میں سے ایک لے جاکر اپنے گھر والوں کو دیتی تھی، خود دن روزے سے رہتی تھی،شام کو دوسرے ٹکڑے سے افطار کرتی،عامر تلاش کرکے اس کے پاس پہنچے، جب وہ بکریاں چرانے کے لیے نکلی تو عامر بھی ساتھ ہو گئے، ایک مقام پر پہنچ کر اس عورت نے بکریوں کو چھوڑ دیا اور نماز میں مصروف ہو گئی، عامر نے اس سے کہا کہ اگر تمھاری کوئی ضرورت ہو تو مجھے سے بیان کرو اس نے کہا میری کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،جب عامر کا اصرار زیادہ بڑھا تو اس نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس دو سپید کپڑے ہوتے جو میرے کفن کے کام آتے،عامر نے اس سے پوچھا وہ لوگ (بدوی) تم کو گالیاں کیوں دیتے ہیں،اس نے جواب دیا اس میں مجھے خدا سے اجر کی توقع ہے،اس گفتگو کے بعد عامر اس کے آقاؤں کے پاس گئے اوران سے کہا تم لوگ اپنی لونڈی کو گالیاں کیوں دیتے ہو،انھوں نے جواب دیا کہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو وہ ہمارے کام کی نہ رہے، عامر نے کہا اچھا اس کو تم لوگ بیچو گے انھوں نے کہا ہم کسی قیمت پر بھی اسے الگ نہ کریں گے،یہ جواب سن کر عامر لوٹ گئے اورلونڈی کی خواہش کے مطابق دو سپید کپڑے مہیا کرکے اس کے پاس گئے؛ لیکن یہ عجیب اتفاق کہ اس وقت لونڈی اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی، عامر نے اس کے آقاؤں سے اجازت لے کر اس کی تجہیز وتکفین کی [23] اس طرح دنیا میں انھیں ایک عورت سے ہمدردی بھی پیدا ہوئی تو یوں ختم ہو گئی۔

صدقات وخیرات[ترمیم]

عامر بڑے مخیر وفیاض تھے،مجاہدین کی مالی خدمت کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے ان کو دوہزار وظیفہ ملتا تھا،جس وقت ملتا اس وقت سے راستے میں انھیں جس قدر سائل ملتے انھیں تقسیم کرتے ہوئے گھر آتے۔ [24]

دشمن کے لیے دعا[ترمیم]

ان کی زبان کسی کی بدی سے آلودہ نہ ہوئی اورنہ کسی کے لیے ان کی زبان سے کبھی بددعا نکلی، اپنے دشمنوں کے لیے بھی دعا ہی کرتے تھے؛چنانچہ جن لوگوں نے انھیں وطن سے نکلوایا تھا،ان کے حق میں بھی دعا کرتے تھے کہ خدایا جن لوگوں نے میری چغل کھائی ہے اور مجھ کو میرے وطن سے نکلوایا ہے اور میرے بھائیوں سے مجھ کو جدا کرایا ہے،ان کے مال اوران کی اولاد میں ترقی دے،انھیں تندرست رکھ اوران کی عمر بڑھا۔ [25]

ایک قابل ذکر خواب[ترمیم]

ان کے متعلق ایک شخص کا خواب لائق ذکر ہے جس سے ان کے روحانی مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے،سعید جزری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو خواب میں جمال نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اس شخص نے آپ سے التجا کی کہ حضورﷺ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا تمھارے لیے عامر دعا کر رہے ہیں، اس شخص نے عامر سے یہ خواب بیان کیا،یہ لطف وکرم سن کر ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ ہچکی بندھ گئی۔ [26]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اصابہ:5/86)
  2. (اصابہ ایضاً)
  3. (ابن سعد،ج ،ق اول،ص76)
  4. (ابن اثیر:4/117)
  5. (یہ واقعات ابن سعد کی مختلف روایات سے ماخوذ ہیں)
  6. (ابن سعد،ج 7،ق اول،ص 78)
  7. (ابن سعد،ج 7 ق اول،ص78)
  8. (ابن سعد،ج وق اول،ص78 و79)
  9. (ابن سعد ایضاً:80)
  10. (ابن سعد،ج ق اول ،ص 76)
  11. (ابن سعد ایضاً)
  12. (ابن سعد،ج7 ،ق اول،ص75)
  13. (الرعد:38)
  14. (الذاریات:56)
  15. (ابن سعد،ج7،ق اول،ص77)
  16. (ابن سعد،ج 7 ،ق اول،ص 77)
  17. (ابن سعد ایضا:78)
  18. (ابن سعد ایضاً:79)
  19. (ابن سعد،ج7،ق اول،ص 79)
  20. (ابن سعد ایضاً:79)
  21. (ابن سعد ،ج،ق اول،ص:87)
  22. (ابن سعد ایضاً:80)
  23. (ابن سعد ،ج، ق اول،ص 75)
  24. (ابن سعد ایضاً)
  25. (ابن سعد، ج، ق اول،ص 75)
  26. (ابن سعد ایضاً:80)