محمد بن عجلان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد بن عجلان
معلومات شخصیت
کنیت ابو عبد الله
لقب مولى فاطمة بنت الوليد
والد عجلان
عملی زندگی
طبقہ الطبقة الخامسة، من صغار التابعين
ابن حجر کی رائے صدوق، اختلطت عليه أحاديث أبو هريرة
ذہبی کی رائے وثقة أحمد وابن معين وقال غيرهما سيئ الحفظ
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد بن عجلانؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

محمد نام، ابو عبداللہ کنیت، باپ کا نام عجلان تھا،فاطمہ بنت ولید بن ربیعہ قرشی کے غلام تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

علم اورتقویٰ کے اعتبار سے ممتاز تابعی تھے،امام نووی لکھتے ہیں: کان اماما فقیھا عابدا ان کی ہر ادا علم میں ڈوبی ہوئی تھی،ابن مبارک کہتے تھے کہ ابن عجلان سے زیادہ کوئی شخص اہل علم سے مشابہ نہ تھا میں ان کو علماء میں یاقوت سے تشبیہ دیتا تھا۔ [1]

حدیث شریف[ترمیم]

حدیث کے وہ ممتاز حافظ تھے، حافظ ذہبی انہیں امام اور قدوہ لکھتے ہیں۔ [2] صحابہ میں انس بن مالکؓ اورابو لطفیلؓ سے اور تابعین میں عکرمہ،نافع،سعید مقبری ،سلیمان ابن ابی حازم اشجعی،ابراہیم بن عبداللہ،رجاء بن حیوۃ،عامر بن عبداللہ بن زبیر اعرج،ابی الرناد،زید بن اسلم، عبید اللہ بن مقسم،بکیر بن الاشج ،علی بن یحییٰ،محمد بن یحییٰ بن جان اور ابو اسحٰق سبیعی وغیرہ سے استفادہ حدیث کیا تھا۔ [3]

عبید اللہ بن عمر منصور بن معتمر،مالک بن انس،لیث،سفیان ثوری،ابن عینیہ،حیوۃ ابن شریح، شعبہ،قطان اورعبداللہ بن ادریس وغیرہ جیسے اکابر آپ کے خوشہ چینوں میں تھے۔

فقہ وفتاویٰ[ترمیم]

فقہ وفتاوی میں پوری دستگاہ رکھتے تھے،حافظ ذہبی ان کو مفتی اورفقیہ لکھتے ہیں [4]مسجد نبوی میں افتا کی خدمت انجام دیتے تھے۔ [5]

حلقہ درس[ترمیم]

اسی میں ان کا حلقہ درس تھا جس میں بڑے بڑے تابعینِ شریک ہوتے تھے۔ [6]

زہد وورع[ترمیم]

زہد وورع ان کا مخصوص طغریٰ کمال تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ عالم عامل ربانی اورکبیر القدر تھے[7] ابن سعد کا بیان ہے کہ وہ عابد مرتاض تھے [8] اپنے مذہبی کمالات کی وجہ سے مدینہ کے حسن بصری شمار کیے جاتے تھے، ایک مرتبہ ایک معاملہ میں جعفر بن سلیمان نے ان کو کوڑے لگوانے کا ارادہ کیا، اہل مدینہ نے اس سے کہا اگر حسن بصری سے اس قسم کا فعل سرزد ہوجاتا تو کیا تم ان کو مارتے ، جعفر نے کہا نہیں ،لوگوں نے کہا تو وہ مدینہ کے حسن بصری ہیں۔ [9]

وفات[ترمیم]

۴۸ میں وفات پائی۔ [10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴)
  2. (ایضاً:۱۴۸)
  3. (تہذیب التہذیب:۹/۳۴۱)
  4. (تذکرۃ الحفاظ،جلد اول،ص۱۴۸)
  5. (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق ۲،ص۸۷)
  6. (تذکرۃ الحفاظ،ج ۱،ص۱۴۹)
  7. (ایضاً:۱۴۸)
  8. (تہذیب ،ج ۹،ص۳۴۱،بحوالہ ابن سعد)
  9. (تذکرۃ الحفاظ،ج اول،ص۱۴۹)
  10. (ایضاً)