تحنث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تحنث مکمل توجہ اور انہماک کے لیے اپنے آپ کو عام لوگوں سے علاحدہ کر لینے کو تحنث کہا جاتا ہے۔

معنی[ترمیم]

تَحَنّثَ: تَعَبّدَ، تَرَكَ الإثْمَ[1]

  • "تحنث ترک حنث اور یہاں مراد ترک نوم بمعنی استیقاط ہے۔"[2]
  • رات کو عبادت کرنا۔(گناہ ترک کرنے کا عمل، شب بیداری)۔

از روئے حدیث[ترمیم]

حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کا غار حرا میں جا کر عبادت کرنے کے عمل کو تحنث کہا جاتا ہے۔ مخصوص کرنا؛ نذر کرنا؛ وقف کرنا؛ پرستش کرنا؛حوالے کرنا؛ کسی مصروفیت، جستجو یا تحریک پر سرگرمی سے اپنی پوری توجہ دینا یا اپنا وقت لگانا؛ کسی باضابطہ عمل سے کسی دینی کام کے لیے الگ کر دینا؛ لگانا؛ وارنا؛ نثار کرنا؛ قربان کرنا۔[3] ’’ تحنث‘‘ اللہ کے ملکوت میں غور و فکر کا نام ہے۔ آپ اللہ کو یاد کرتے‘ اس سے محبت کرتے تھے۔ لیکن محبت کے طریقے اور یاد کی اداؤں کو جاننا چاہتے تھے۔ آپ اس فکر میں تھے کہ آخر انسانی زندگی کے مقاصد کیا ہیں اسی لیے تأثم تحنث گناہ سے نفرت کرنے، اسے چھوڑدینے کو کہتے ہیں۔

غار حرا مقام تحنث[ترمیم]

نبوت ملنے سے چند سال پیشتر آپ میں تنہائی پسندی کا ذوق بڑھ گیا تھا اور آپ مسلسل غور و فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ غار حرا میں کئی کئی دنوں تک قیام فرماتے اعتکاف کی حالت میں رہتے اور آپ کی عبادت حدیث کی زبان میں تحنث کہی گئی ہے یعنی آپ مسلسل اللہ کی صفات کی معرفت اور اپنے مقصد زندگی کے حوالے سے غو رو فکر میں ڈوبے رہتے [4] آپ ﷺ تنہائی پسند ہو گئے اور کئی کئی شب و روز غار حراء میں رہ کر عبادت کرنے لگے، اس عبادت کے لیے عائشہ صدیقہ نے تحنث کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کی تشریح امام زہری نے تعبد سے کی ہے[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قاموس المحدث
  2. 1851ء، (ترجمہ) عجائب القصص، 502:2
  3. ْQaumi English Urdu Dictionary - قومی انگریزی اردو لغت
  4. تفسیر روح القرآن سورۃ الانعام آیت83
  5. تفسیر جلالین ،جلال الدین سیوطی،العلق،1