جامع سفیان ثوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جامعِ سفیان ثوری صحاح ستہ کی تدوین سے بھی پہلے امام سفیان ثوری نے ’’جامع‘‘ لکھی ہے۔ اس کا سنِ تصنیف (160ھ) بتایا ہے،

  • اس کتاب کے متعلق امام یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری، امام ابوحنیفہ کی فقہ کو علی بن مسہر سے حاصل کرتے تھے اور ان ہی کی مدد اور مذاکرہ سے انھوں نے اپنی یہ کتاب جس کا نام ’’جامع‘‘ رکھا ہے تصنیف کی ہے۔
  • سفیان ثوری کی ’’جامع‘‘ ایک زمانہ میں محدثین میں بڑی مقبول و متداول رہی ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے علمِ حدیث کی جب تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے جن کتابوں کی طرف توجہ کی وہ سفیان ثوری کی ’’جامع‘‘ اور عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کی تصنیفات تھیں۔ امام بخاری نے ’’جامعِ سفیان‘‘ کا سماع اپنے وطن ہی میں امام ابوحفص کبیر سے کیا تھا۔ چنانچہ محدث خطیب بغدادی بہ سند نقل کرتے ہیں کہ
  • محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ جعفی (امام بخاری) نے بیان کیا کہ میں ابوحفص (کبیر) احمد بن حفص کے پاس ’’جامع سفیان‘‘ کا سماع اپنے والد کی کتاب میں کر رہا تھا کہ وہ ایک حرف سے گذرے جو میرے یہاں نہ تھا۔ میں نے ان سے مراجعت کی، انھوں نے دوبارہ وہی بتایا۔ میں نے دوبارہ مراجعت کی پھر انھوں نے وہی بتایا۔ آخر میں نے تیسری دفعہ مراجعت کی تو ذرا چپ رہے اور دریافت کرنے لگے کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: اسماعیل بن ابراہیم بن بردز بہ کا لڑکا ہے۔ فرمانے لگے: اس نے صحیح بتایا، یاد رکھو! یہ لڑکا ایک دن مردِ میدان بنے گا۔
  • امام ابو داؤد سجستانی صاحبِ ’’سنن‘‘ فرماتے ہیں کہ جَامِعُ سُفْیَانَ الثَّوْرِيِّ؛ فَإِنَّہُ أَحْسَنُ مَا وَضَعَ النَّاسُ فِي الْجَوَامِعِ (لوگوں نے اس موضوع پر جتنی کتابیں لکھی ہیں، سفیان ثوری کی ’’جامع‘‘ ان سب میں اچھی ہے۔)
  • یہ اس دور کی ان مشہور اور مہتم بالشان کتابوں کا ذکر تھا کہ جن کے مصنف اقلیمِ فقہ واجتہاد کے فرماں روار ہے ہیں۔ بعد کے دور میں جن کتابوں نے قبولِ عام کی سند حاصل کی ان کے مصنفین ان ہی حضرات کے خوشہ چین تھے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. امام ابنِ ماجہ اور علمِ حدیث، مؤلف، محمد عبد الرشید نعمانی ،ناشر، المیزان اردو بازار لاہور