ابو داؤد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(امام ابو داؤد سے رجوع مکرر)
ابو داؤد سلیمان ابن اشعث الازدی السجستانی
(عربی میں: أبو داود ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 817ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 275ھ ( 888ء )
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذ احمد بن حنبل،  ابو الفضل الرياشی،  عبدالرحمن دارمی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابو عیسیٰ محمد ترمذی،  احمد بن شعیب النسائی رضوان  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث،  فقہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سنن ابی داؤد  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محدث۔ اصل نام سلیمان بن الاشعث السجستانی تھا۔ ابوداؤد کنیت ہے۔ بغداد میں پیدا ہوئے۔ بصرے میں درس و تدریس اور تالیف میں مصروف رہے۔ اور وہیں وفات پائی۔ احمد بن حنبل کے شاگرد تھے۔ ان کی اہم تالیف کتاب السنن ہے جو سنن ابی داؤد کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انھوں نے معروف احادیث جمع کی ہیں۔ کتاب کا موضوع فقہی مسائل تک محدود ہے۔ البتہ اس میں احادیث کی صحت پرکھنے کے اصولوں سے بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب السنن صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

ابوداؤد کنیت، سلیمان نام اور والد کا اسم گرامی اشعث ہے سلسلہ نسب یہ ہے۔ ابوداؤدسلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السجستانی قبیلہ ازد کی طرف منسوب ہوکر ازدی اور خراسان کے شہر سجستان کی طرف نسبت کرتے ہوئے سجستانی کہلاتے ہیں۔[3]

سنہ پیدائش[ترمیم]

امام ابوداؤد سیستان میں 202ھ میں پیدا ہوئے لیکن آپ نے زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا اور وہیں اپنی سنن کی تالیف کی اسی لیے ان سے روایت کرنے والوں کی اس اطراف میں کثرت ہے پھر بعض وجوہ کی بنا پر 271ھ میں بغداد کو خیر باد کہا اور زندگی کے آخری چار سال بصرے میں گزارے جو اس وقت علم وفن کے لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔

تحصیل علم[ترمیم]

کم عمری میں ہی اخذ علم کے لیے سفر شروع کر دیا تھا، حجاز، شام، مصر، عراق اور خراسان وغیرہ بلادِ اسلامیہ کا سفر کرکے وہاں کے علما اور مشائخ کی ایک بڑی جماعت سے حدیثِ پاک کا سماع حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں احمد بن حنبل، قعبی اور ابولولید الطیالسی جیسے کبارِ مشائخ شامل ہیں۔ بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں، جن سے اخذ علم میں آپ امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ شریک ہیں۔ مثلاً احمد بن حنبل، عثمان بن ابی شیبہ اور قتیبہ بن سعید وغیرہ۔[3]

اساتذہ و شیوخ[ترمیم]

امام ابوداؤد تحصیل علم کے لیے جن اکابر و شیوخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا استقصاء دشوار ہے خطیب تبریزی فرماتے ہیں کہ انھوں نے بے شمار لوگوں سے حدیثیں حاصل کیں، ان کی سنن اور دیگر کتابوں کو دیکھ کر حافظ ابن حجر کے اندازے کے مطابق ان کے شیوخ کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ آپ کے اساتذہ میں مشائخ بخاری ومسلم جیسے امام احمد بن حنبل، عثمان بن ابی شیبہ، قتیبہ بن سعید اور قعنبی ابوالولید طیاسی، مسلم بن ابراہیم اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ فن داخل ہیں۔[3]

فن حدیث میں کمال[ترمیم]

ابراہیم حربی نے جو اس زمانہ کے عمدہ محدثین میں سے ہیں جب سنن ابوداؤد کو دیکھا تو فرمایا کہ ابوداؤد کے لیے حق تعالیٰ نے علم حدیث ایسا نرم کر دیا ہے جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا ہوا تھاحافظ ابوطاہر سلفی نے اس مضمون کو پسند کر کے اس قطعہ میں نظم کیا

  • لان الحدیث و علمہ بکمالہ لامام اہلیہ ابو داؤد
  • مثل الذی لان الحدید وسبکہ لبنی اہل زمانہ داؤد[3]

فقہی ذوق[ترمیم]

اصحاب صحاح ستہ کی نسبت امام ابوداؤد پر فقہی ذوق زیادہ غالب تھا، چنانچہ تمام ارباب صحاح ستہ میں صرف یہی ایک بزرگ ہیں جن کو علامہ شیخ ابواسحق شیرازی نے طبقات الفقہاء میں جگہ دی ہے امام ممدوح کے اسی فقہی ذوق کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کو صرف احادیث احکام کے لیے مختص فرمایا، فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب (سنن )میں موجود ہے صحاح ستہ میں سے کسی کتاب میں آپ کو نہیں ملے گا، چنانچہ حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی متوفی ٧٠٨ھ صحاح ستہ کی خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں اور احادیث فقہیہ کے حصرو استیعاب کے سلسلے میں ابوداؤد کو جو بابت حاصل ہے وہ دوسرے مصنفین صحاح ستہ کو نہیں علامہ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ حدیث وفقہہ دونوں کے سرخیل تھے۔[3]

زہد و تقویٰ[ترمیم]

ابوحاتم فرماتے ہیں کہ امام موصوف حفظ حدیث، اتقان روایت، زہد و عبادت اور یقین و توکل میں یکتائے روزگار تھے۔ ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ ورع وتقویٰ، عفت و عبادت کے بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ ان کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے کرتے کی ایک آستین تنگ تھی اور ایک کشادہ جب اس کا راز دریافت کیا گیا تو بتایا کہ ایک آستین میں اپنے نوشتے رکھ لیتا ہوں اس لیے اس کو کشادہ بنا لیا ہے اور دوسری کو کشادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس میں کوئی فائدہ نہ تھا اس لیے اس کو تنگ ہی رکھا۔

  • جو گنج قناعت میں ہیں تقدیر پر شاکر ہے ذوق برابر انھیں کم اور زیادہ[3]

آپ کے فضل و کمال کا اعتراف[ترمیم]

ابوداؤد کو علم و عمل میں جو امتیازی مقام حاصل تھا اس زمانہ کے علما مشائخ کو بھی اس کا پورا پورا اعتراف تھا چنانچہ حافظ موسیٰ بن ہارون جو ان کے معاصر تھے فرماتے ہیں کہ ابوداؤد دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں دیکھا امام حاکم فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤد بلا شک و ریب اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے۔[3]

اہل اللہ کی سچی عقیدت[ترمیم]

احد بن محمد بن لیث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری جو اس زمانہ کے اہل اللہ میں سے تھے آپ کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا: امام صاحب میں ایک ضرورت سے آیا ہوں اگر حسب امکان پوری کرنے کا وعدہ فرمائیں تو عرض کروں۔ آپ نے وعدہ کر لیا انھوں نے کہا جس مقدس زبان سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث روایت کرتے ہیں اس کو بوسہ دینے کی آرزو رکھتا ہوں ذرا آپ اسے باہر نکالیں چنانچہ آپ نے اپنی زبان مبارک باہر نکالی اور حضرت سہل نے اس کو بوسہ دیا۔[3]

تصنیفات[ترمیم]

امام ابوداؤد نے بہت سا علمی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا ہے جس کی مجمل فہرست درج ذیل ہے۔ مراسیل۔ الردعلی القدریہ۔ الناسخ والمنسوخ۔ ماتضروبہ اہل الامصار۔ فضائل الانصار۔ مسند مالک بن انس۔ المسائل معرفۃ الاوقات۔ کتاب بدء الوحی سنن۔ ان میں سب سے زیادہ اہم آپ کی سنن ہے۔[3]

وفات[ترمیم]

امام ابو داؤد نے تہتر سال کی عمر پا کر سولہ شوال 275ھ میں انتقال فرمایا اور بصرہ میں امام سفیان ثوری کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ یوم وفات روز جمعہ ہے۔[3]

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو تیرا
(اقبال)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119462575 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. Abu Dawud as-Sijistani page on data.bnf.fr — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی