نصیر الدین طوسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نصیر الدین طوسی
(فارسی میں: نصيرالدین طوسی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Nasir al-Din al-Tusi portrait.jpg
 

معلومات شخصیت
پیدائش 18 فروری 1201[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 جون 1274ء (18 ذوالحجہ 672ھ)
کاظمیہ[3]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد کاظمیہ،  بغداد،  عراق  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش طوس
ایل خانی سلطنت
موصل
بغداد
قلعہ الموت  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اہل تشیع[1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن رصدگاہ مراغہ[2]  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ کمال الدین ابن یونس  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری طلبہ قطب الدین شیرازی،  علامہ حلی  ویکی ڈیٹا پر (P185) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص قطب الدین شیرازی،  علامہ حلی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر فلکیات،  ریاضی دان،  فلسفی،  منجم،  جامع العلوم،  معمار،  طبیب،  الٰہیات دان،  مرجع،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اوغوز زبانیں،  عربی[4][5]،  فارسی[4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلکیات،  علم کلام،  اسلامی فلسفہ،  ریاضی،  کیمیا،  حیاتیات،  طب،  طبیعیات،  سائنس،  فلسفہ،  تاریخ،  قانون،  الٰہیات،  جغرافیہ،  موسیقی،  بصریات  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں اخلاق ناصری  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر ابن سینا، فخرالدین رازی، مؤید الدین العرضی
متاثر ابن خلدون، قطب الدین شیرازی، ابن شاطر، نکولس کوپرنیکس

العلامہ ابو جعفر محمد بن محمد بن حسن الطوسی (مشہور بہ “خواجہ نصیرالدین“ اور دیگر معروف القاب “نصرالدین“، “محقق طوسی“، “استاد البشر“ اور“ خواجہ“ بھی ہیں) ہے، ساتویں صدی ہجری کے شروع میں طوس، ایران میں پیدا ہوئے اور بغداد میں اسی صدی کے آخر میں وفات پائی، اسلام کے بڑے سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں، مختلف ادوار میں خلفاء نے ان کا اکرام کیا، ان کی مجالس میں وزراء اور امرا شامل ہوتے تھے جس سے بعض لوگ حسد کا شکار ہو گئے اور ان پر کچھ جھوٹے الزامات لگادیے جس کے نتیجے میں انہیں کسی قلعہ میں قید کر دیا گیا جہاں انہوں نے ریاضی میں اپنی بیشتر تصانیف لکھیں اور یہ قید ان کی شہرت کا سبب بنی۔

جب ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کیا تو انہیں آزاد کر دیا اور ان کا اکرام کرکے اپنے علما میں شامل کر لیا، پھر انہیں ہلاکو خان کے اوقاف کا امین بنادیا گیا، انہوں نے اپنے اکرام میں پیش کی جانے والی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لائبریری بنائی جس میں انہوں نے دو لاکھ سے زائد کتب جمع کیں، انہوں نے ایک فلکیاتی رصد گاہ بھی بنائی اور اس وقت کے نامور سائنسدانوں کو اس رصد گاہ میں کام کرنے کے لیے اپنے ساتھ شامل کر لیا جن میں المؤید العرضی جو دمشق سے آئے تھے، الفخر المراغلی الموصلی، النجم دبیران القزوینی اور محیی الدین المغربی الحلبی شامل ہیں۔

انہوں نے بہت ساری تصانیف چھوڑیں جن میں سب سے اہم کتاب “شکل القطاع” ہے، یہ پہلی کتاب تھی جس نے مثلثات کے حساب کو علمِ فلک سے الگ کیا، انہوں نے جغرافیہ، حکمت، موسیقی، فلکی کیلینڈر، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں جو ان کی علمی مصروفیت کی دلیل ہیں، انہوں بعض کتبِ یونان کا بھی ترجمہ کیا اور ان کی تشریح وتنقید کی، اپنی رصد گاہ میں انہوں نے فلکیاتی ٹیبل (زیچ) بنائے جن سے یورپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے بہت سارے فلکیاتی مسائل حل کیے اور بطلیموس سے زیادہ آسان کائناتی ماڈل پیش کیا، ان کے تجربات نے بعد میں کوپرنیکس کو زمین کو کائنات کے مرکز کی بجائے سورج کو نظام شمسی کا مرکز قرار دینے میں مدد دی، اس سے پہلے زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

انہوں نے آج کے جدید علمِ فلک کی ترقی کی راہ ہموار کی، اس کے علاوہ انہوں نے جبر اور ہندسہ کے بہت سارے نظریات میں نئے انداز کے طریقے شامل کیے ساتھ ہی ریاضی کے بہت سارے مسائل کو نئے براہین سے حل کیا، سارٹن ان کے بارے میں کہتے ہیں: “طوسی اسلام کے سب سے عظیم سائنسدان اور ان کے سب سے بڑے ریاضی دان تھے”، “ریگومونٹینوس” نے اپنی کتاب “المثلثات” کی تصنیف میں طوسی کی کتب سے استفادہ کیا۔

شہرۂ آفاق آبزرویٹری کے موجد، فلکیات کے ماہر، مولانا جلال الدین رومیؒ کے ہم عصر ،اخلاق ناصری کے مؤلف، نصیر الدین طوسی کے زور قلم سے علم کے کئی دریا بہے۔علمِ نجوم،علمِ بصریات Optics، ریاضیات، معدنیات، اخلاقیات، ادب، منطق، فلسفہ، طب، اقلیدس، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم کو انہوں نے اپنی بصیرت اور تجسس سے مالا مال کر دیالیکن علم ہیئت Astronomyکے گویا وہ دیوانے تھے۔ بمقام مراغہ، نزدیک ایشیائے کوچک ،انہوں نے دنیا کی اولین اور بہترین آبزرویٹری بنائی اور ایسے تجربات کیے جو بعد میں دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ ریاضیات میں اس وقت تک جتنی بھی کتابیں لکھی گئی تھیں ان کو پھر سے مرتب کیا اور ان کی تعداد صرف سولہ بتائی۔ اس خزانہ میں طوسی نے مزید چار اور کتابوں کا اضافہ کیا۔ اقلیدس کی ایک شاخTrigonometryکی بنیاد ڈالی اور اس شعبہ میں تجدید کی کئی راہیں تلاش کیں۔ طوسی کو ان کی فلکیاتی تحقیقا ت کی بنا پر شہرت حاصل ہوئی۔ بارہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد انہوں نے نظامِ ِ شمسی کا ایک نقشہ مرتب کیا۔ فلکیات پر کئی کتابوں میں ’’کتاب ا لتذکرۃ الناصریہ‘‘ جس کا دوسرا نام ’’تذکرہ فی علم نسخ‘‘بہت مشہور ہے۔ علمِ نجوم پر متاخرین کے لیے یہ اساس بن گئی۔ کئی محققوں نے اس پر شرح لکھی ہے۔ اس کتاب کے چار اہم حصے ہیں پہلا کائنات کے نظام میں حرکت کی اہمیت دوسرا فلکیاتی تغیرات، چاند کی گردش اور اس کا حساب ،تیسرا کرۂ ارض پر فلکیاتی اثر، مدوجزر، کوہ، صحرا،سمندر اور ہوائیں اور چوتھا نظامِ شمسی میں ستاروں کے فاصلے۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب بہت مقبول و دلچسپ ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں طوسی نے بطلیموس Ptolemyکے بعض خیالات کی تردید کی ہے اور اس کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتاب کی بنیاد پر یورپ کے مشہور منجم کوپر نیکس نے اپنے نظریات قائم کیے جو صحیح ثابت ہوئے۔ یعنی کوپرنکس کی تحقیقات کی بنیاد طوسی کے وضع کردہ اصول تھے۔ طوسی نے فلکیات پر دیگر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً ضبط الٰہیہ،کتاب التحصیل فی نجوم، زیج ایلخانی،اظہر الماجستی وغیرہ۔ اس کے علاوہ مریخ پر، سورج کے طلو ع وغروب پر، زمین کی گردش پر، سورج اور چاند کے فاصلہ پر،سیاروں کی نوعیت پر، رات اور دن کے ظہور پر اوراس کرۂ ارض کے جائے وقوع پر تفصیلی کتابیں لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کو علم فلکیات کا ماہر سمجھا جاتاہے۔ مراغہ کی آبز رویٹری طوسی کی تحقیقا ت کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ http://www-history.mcs.st-andrews.ac.uk/Biographies/Al-Tusi_Nasir.html — اخذ شدہ بتاریخ: 12 نومبر 2017
  2. ^ ا ب مصنف: ارتھر بری — عنوان : A Short History of Astronomy — ناشر: جون مرے
  3. http://www-history.mcs.st-andrews.ac.uk/Biographies/Al-Tusi_Nasir.html — اخذ شدہ بتاریخ: 12 نومبر 2107
  4. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12399386c — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20040128005 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022