سقوط بغداد 1258ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سقوط بغداد 1258ء
سلسلہ منگول حملے اور فتوحات  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 29 جنوری 1258  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 10 فروری 1258  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
33°20′51″N 44°20′06″E / 33.3475°N 44.335°E / 33.3475; 44.335  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
منگول خلافت عباسیہ
قائد
ہلاکو خان مستعصم باللہ
قوت
نامعلوم نامعلوم
نقصانات
نامعلوم، لیکن انتہائی کم افواج: 50 ہزار، شہری 90 ہزار سے 10 لاکھ کے درمیان
Map

1258ء میں منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی اور خلافت عباسیہ کے خاتمے کو سقوط بغداد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بغداد کا محاصرہ جو ١٢٥٨ء میں ہوا ایک حملہ، جارحیت اور بغداد شہر کی بربادی تھا، اس حملہ نے بغداد کو مکمل طور پر برباد کر دیا باشندے جن کی تعداد 100،000 سے 1،000،000تهى کو شہر کے حملے کے دوران قتل کیا گیا،اور شہر جلا دیا یہاں تک کہ بغداد کے کتب خانے بھی چنگيزى افواج کے حملوں سے محفوظ نہ تھے جس میں بيت الحكمة بھی شامل ہے انھوں نے مکمل طور پر كتب خانے تباہ کر ڈالے

ہلاکو خان کی زیر قیادت منگول افواج نے خلافت عباسیہ کے دار الحکومت بغداد کا محاصرہ کرکے شہر فتح کر لیا اور عباسی حکمران مستعصم باللہ کو قتل کر دیا۔ شہر میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور کتب خانوں کو نذر آتش اور دریا برد کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد منگولوں نے شام پر حملہ کیا اور دمشق، حلب اور دیگر شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اس شکست کے ساتھ ہی امت مسلمہ کے عروج کا دور اول ختم ہو گیا۔

منگولوں کی پیشقدمی کا خاتمہ مملوک سلطان سیف الدین قطز اور اس کے سپہ سالار رکن الدین بیبرس نے فلسطین کے شہر نابلوس کے قریب عین جالوت کے مقام پر ایک جنگ میں کیا جس میں منگولوں کو پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ اس جنگ میں منگولوں کی قیادت ہلاکو خان کا نائب کتبغا کر رہا تھا جو جنگ میں مارا گیا۔

پس منظر[ترمیم]

بغداد عباسى خلافت کا دار الحکومت تھا ،اور عباسى اسلامی خاندانوں میں سے دوسرے تھے بغداد کے عروج پر، اس کى آبادی تقریباً ایک لاکھ رہائشی تھی اور 60،000 سپاہیوں کی ایک فوج دفاع کرتى تھى۔ 13 ويں صدی کے وسط تک خلافت اب ایک چھوٹی سی ریاست تھی تاہم خلیفہ کا منصب تھا اور یہ مملوک یا ترک سرداروں کے کنٹرول میں تھا اور اسكى اب بھی بڑی علامتی اہمیت تھی اور بغداد اب بھی ایک امیر اور مہذب شہر تھا۔ ہلاكو خان کے محاصرہ سے پہلے، جنرل بیجو کی کمان میں منگولوں نے 1238ء، 1242ء اور 1246ء میں جدید عراق پر متعدد مرتبہ حملہ کیا تھا لیکن اس شہر پر نہیں۔

فوج کی تشکیل[ترمیم]

1257ء میں منگول حکمران مونكو خان نے عباسى خلافت پر غالب آنے کا فیصلہ کیا یہ جان کر کہ بغدادکا علاقہ ایک بڑا اور مرکزی علاقہ تھا اس نے اپنی فوج کے لیے اپنے ملک میں سے ہر دس لڑاکوں میں سے ایک کو بھرتی کیا۔ ایک مضبوط تخمینے سے یہ فوج شاید منگولوں کی طرف سے سب سے بڑی فوج تھی۔ جس کے جنگجوؤں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ پچاس ہزار تھی۔ نومبر 1257ء میں ہلاكو خان اور چینی کمانڈر کان گوا کی کمان میں، انھوں نے بغداد کی طرف کوچ کیا جس میں مختلف مسیحی افواج کا ایک بڑا دستہ بھی شامل تھا، ان میں سے ایک بڑا حصہ جورجيين تھا، جو اپنے دار الحکومت، تفليس کی شكست کا بدلہ لینے کے بے چین تھے جو جلال الدین خوارزم شاہ کی طرف سے دہائیوں پہلے فتح کیا گیا تھا دوسرے حصہ لینے والے مسیحی افواج میں آرمینیا کی فوج، اپنے بادشاہ کی قیادت میں تھى اور سلطنت انتاکیا سے کچھ فرانسیسی دستے تھے۔ عصر حاضر کا فارسی مبصر علاءالدين عطا الملك جويني ہمیں بتاتا ہے کہ محاصرے کے شرکاء تقریباً 1،000 چینی آرٹلری کے ماہرین تھے اور وہاں ارمینیائی، جورجيين، فارسی اور ترک بھی تھے۔

محاصرہ[ترمیم]

بغداد کے محاصرہ سے پہلے، ہلاكو خان نے بآسانی لر کے شہركو تباہ کر ڈالا اور اس کی دہشت سے تو حشّاشين‎ اتنا گھبرا گئے کہ انھوں نے 1256ء میں ایک لڑائی کے بغیراپنے ناقابل تسخیرگڑھ قلعة ألموت میں ہتھیار ڈال دیے ۔ پھر وہ بغداد چلا گیا۔ مونكو خان نے اپنے بھائی کو حکم دیا کہ وہ خلافت کو چھوڑ دیں اگر وہ منگولوں كى فرماں برداری قبول کرتے ہیں۔ بغداد کے قریب، ہلاكو خان نے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا، لیکن خلیفہ، معتصم، نے انکار کر دیا۔ کئی وجوہات کی بنا پر، خلیفہ، معتصم حملے کے لیے تیاری کرنے میں ناکام رہا تھا؛ اس نے نہ لشکر جمع کیے اور نہ ہی شہر کی دیواروں کو مضبوط کیا اس سے بھی زیادہ بدتر اس نے ہلاكو خان کو اپنی دھمکی سے بہت زیادہ ناراض كر دیا اور اس طرح اپنے بربادی کو یقینى بنا ليا ہلاكو نے دجلة کے دونوں کناروں پر لشکر کو تعینات کیا، خلیفہ کی فوج نے مغرب سے حملہ آور افواج میں سے کچھ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، لیکن اگلی جنگ میں ہار گئے۔ حملہ آور منگولوں نے کچھ حفاظتى بندوں کو توڑ دیا جس کی وجہ سے وہاں فوج کے پیچھے ایک سیلاب آ گیا اور وہ پھنس گئے اس طرح بہت سے فوجیوں کو ذبح کر دیا یا غرق کر دیا گیا۔ چینی دستے نے 29 جنوری کو شہر کا محاصرہ شروع کیا یہ جنگ محاصرہ کے معیار کے مطابق بہت تیز تھی :5 فروری کو منگولوں نے دیوار کا کنٹرول لے لیا۔ معتصم نے گفت و شنید كى کی کوشش کی، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا۔ 10 فروری، بغداد نے ہتھیار ڈال دئے منگولوں نے 13 فروری کو شہر میں بھاری کامیابی حاصل کی اور قتل عام اور تباہی کا ہفتہ شروع کر دیا۔

تباہی[ترمیم]

بيت الحكمہ، جو بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لے کر علم فلکیات تک کے موضوعات پرلكھی گئی کتب كا گھر تھا کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب كی سیاہی کے ساتھ سیاہ پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دى گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ شہریوں نے فرار کی کوشش کی مگر منگول سپاہیوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مارٹن سكر لکھتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد نوے ہزار ہو سکتی ہے (Sicker 2000, p. 111) دیگر تخمینے کافی زیادہ ہیں۔ وصّافِ کا دعوی ہے کہ انسانی زندگی کا نقصان کئی لاکھ تھا۔ ایان فريزر (دی نیویارکر سے ) کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 200،000 سے دس لاکھ ہے۔ منگولوں نے لوٹ مارکی اور پھر مساجد، محلات، لائبریریوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہی عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ خلیفہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے اپنے شہریوں کا قتل عام اور اپنے خزانے كی لوٹ مار دیکھنے کے لیے مجبور کر دیا گیا۔ منگولوں نے ایک قالین میں خلیفہ کو لپیٹ کر اپنے گھوڑوں کے نیچے کچل دیا

متعلقہ مضامین[ترمیم]