بیبرس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بیبرس
(عربی میں: الظاهر بيبرس الكايد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 جولا‎ئی 1223ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جزیرہ نما کریمیا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جولا‎ئی 1277ء (54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات زہر خورانی  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت مملوک  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ناصر الدین برکہ،  بدرالدین سلامش  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان بحری مملوک  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان مصر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
24 اکتوبر 1260  – 1 جولا‎ئی 1277 
سیف الدین قطز 
ناصر الدین برکہ 
عملی زندگی
پیشہ حاکم،  عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں ساتویں صلیبی جنگ،  جنگ عین جالوت  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

الملک الظاہر رکن الدین بیبرس البندقداری (پیدائش: 1223/1228 - وفات: 1 جولائی 1277؛ ترک قپچاق نسل سے تعلق ، لقب: ابو الفتوح ) بحری مملوک خاندان میں مصر کا چوتھا سلطان ، سیف الدین قطز کا جان نشین تھا۔ وہ مصری افواج کے ان کمانداروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ انھوں نے 1260ء میں جنگ عین جالوت میں مصری فوج کے ہراول دستے کی بھی قیادت کی ، جس نے منگول فوج کی پہلی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔یہ جنگ تاریخ کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ بیبرس مملوک سلطنت کا پہلا نامور حکمران ہے۔ اس نے 1260ء سے 1277ء تک 17 سال مصر و شام پر حکومت کی۔ وہ ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدین بلبن کا ہمعصر تھا۔ وہ نسلاً ایک قپچاق ترک تھا جسے غلام بنانے کے بعد قپچاق میں فروخت کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ منگولوں نے بھی اسے غلام بنا کر شام میں فروخت کر دیا تھا۔ وہ ایوبی سلطان الصالح ایوب کا ذاتی محافظ تھا۔

جنگ عین جالوت[ترمیم]

بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک دوسرے مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر 1260ء میں عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور شام سے منگول فوجوں کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کایہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ ورنہ ان ملکوں کا بھی وہی حشر ہوتا جو ایران، عراق اور ترکستان کا ہوا۔ بیبرس نے نہ صرف یہ کہ شام پر منگولوں کے حملوں کو پسپا کیا بلکہ خود ان کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچادی۔

اس نے جنگ عین جالوت کے بعد مملوک بادشاہ سیف الدین قطز کو قتل کرکے حکومت سنبھالی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ایک ساتھی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے سیف الدین کو قتل کیا۔ بلکہ حادثاتی طور پر قتل ھوا تھا جس کا اسے بہت افسوس تھا کیونکہ یہ قاضی کی عدالت میں فیصلہ چاہتا تھا۔

مسیحیوں کے خلاف مہمات[ترمیم]

سلطان رکن الدین بیبرس کا قاہرہ میوزیم میں مجسمہ

بیبرس کا دوسرا بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا ہے۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ ان کو بحری راستے سے یورپ سے برابر مدد پہنچتی رہتی تھی۔ یہ حکومتیں مصر و شام کے خلاف منگولوں سے اتحاد کرلیتی تھیں اور مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان دب گئے تھے۔

اس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی تاہم وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہے۔

اس نے صلیبیوں کو دیگر کئی جنگوں میں بھی شکست دی۔

سلطنت میں توسیع[ترمیم]

بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی اور نوبہ کا علاقہ بھی فتح کر لیا جو ایوبی سلاطین کے زمانے سے مصر کی حکومت میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہے۔ وہ نہ صرف مصری عوام بلکہ تمام عالم اسلام کا بڑا مقبول ہیرو ہے۔

سیرت و کارنامے[ترمیم]

بیبرس کی مملوک فوج کی منگولوں اور صلیبیوں کے خلاف جنگی نقشہ
مملوک دور کا سکہ

بیبرس صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ سمجھدار اور عادل حکمران بھی تھا۔ اس کے دور حکومت میں کئی اہم کام انجام دیے گئے۔ ان میں سے ایک خلافت کے سلسلے کی بحالی ہے۔ سقوط بغداد اور خلیفہ مستعصم باللہ کی شہادت کے بعد اسلامی دنیا تین سال تک بغیر خلافت کے رہی۔ اتفاق سے ظاہر باللہ عباسی کا ایک لڑکا ابو القاسم احمد منگولوں کی قید سے چھوٹ کر 1262ء میں مصر آگیا۔ بیبرس اس کو عزت و احترام کے ساتھ قاہرہ لایا اور اس زمانے کے مشہور عالم عزیز الدین عبد السلام کی موجودگی میں اس کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی اور مصر میں اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح عباسی خلافت اب بغداد سے قاہرہ منتقل ہو گئی۔ اگرچہ مصر کے یہ عباسی خلیفہ صرف نام کے ہوتے تھے اور اصل میں اقتدار مملوک بادشاہوں کے پاس ہوتا تھا لیکن اس طرح کم از کم ایک اسلامی شعار کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔

بیبرس اسلامی تعلیمات کا خود بھی پابند تھا اور اپنی سلطنت میں اس نے اسلامی احکام پر عمل کرانے کی بھی پوری کوشش کی۔ اس کے عہد میں عدالت میں بڑے سے بڑے آدمی پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ کئی مرتبہ خود بیبرس پر بھی لوگوں نے مقدمات دائر کیے اور اس کو عدالت میں آنا پڑا۔ بیبرس نے شراب بنانے اور اس کی خرید و فروخت پر بھی پابندی لگادی تھی۔ حج سے پہلے مصر سے غلاف کعبہ کو مکہ معظمہ سے لے جانے کی رسم کا آغاز بھی بیبرس کے زمانے میں ہی ہوا۔ وہ پہلا حکمران ہے جس نے چاروں فقہات مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور مصر و شام میں چاروں فقہ سے تعلق رکھنے والے قاضیوں کا تقرر کیا۔ اس سے پہلے صرف شافعی قاضی مقرر کیے جاتے تھے کیونکہ مصر میں اکثریت فقہ شافعی پر عمل کرنے والوں کی ہے۔

بیبرس نے رفاہ عامہ کے کام بھی کیے۔ نہریں، پل اور مدرسے تعمیر کرائے۔ وہ اپنے تعمیر کیے ہوئے ظاہریہ کتب خانہ (دمشق) کے احاطے میں دفن ہے۔

اس کی سوانح حیات "سیرت السلطان بیبرس" نامی کتاب میں درج ہے۔ وہ صلاح الدین ایوبی کی جنگی کامیابیوں سے بہت متاثر تھا اور اس کے کارناموں کو دہرانا چاہتا تھا۔

متعلقہ مضامین[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

مدرسہ ظاہریہ اور بیبرس کا مزار[مردہ ربط]

بیبرس پر تفصیلی مضمون، انگریزی زبان