ابراہیم بن اسحاق حربی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابراہیم بن اسحاق حربی
(عربی میں: إبراهيم الحربي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 814ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عراق  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 898ء (83–84 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذ احمد بن حنبل،  ابن ابی شیبہ،  ابو الفضل الرياشی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ،  محدث،  ماہرِ لسانیات،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ،  علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابراہیم بن اسحاق حربی مشہور شیخ، امام، حافظ الحدیث اور علامہ ہیں، اپنے زمانے کے شیخ الاسلام تھے، پورا نام اور کنیت یوں ہے: "ابو اسحاق ابراہیم بن اسحاق بن ابراہیم بغدادی حربی۔ صاحبِ تصانیف شمار ہوتے ہیں"۔[2][3]

ولادت[ترمیم]

سنہ 198ہجری میں پیدا ہوئے۔ بغداد کے مغربی محلہ "حربیہ" کی طرف نسبت کر کے حربی کہا جاتا ہے۔[4]

اساتذہ[ترمیم]

ابو نعیم، عفان اور ان کے طبقات کے محدثین سے روایات لی ہے، امام احمد بن حنبل سے فقہ حاصل کی،

تلامذہ[ترمیم]

  • ابن صاعد
  • نجاد
  • ابو بکر شافعی
  • قطیعی وغیرہ

علما کی آرا[ترمیم]

  • ابو بکر خطیب فرماتے ہیں: « ابراہیم حربی علم کے امام، زہد میں فائق، فقہ اور احکام کے ماہر، حافظ الحدیث، علل کی زبردست تمیز رکھنے والے، ادب اور لغات کو خوب محفوظ رکھنے والے تھے، "غریب الحدیث" کتاب اور دیگر بہت سی کتابوں کے مصنف تھے، اصلاً مرو کے رہنے والے تھے»۔
  • بیان کیا جاتا ہے کہ ابو اسحاق حربی جب اسماعیل قاضی کے پاس آئے تو قاضی ابو عمر محمد بن یوسف ان کے جوتے کی طرف دوڑے پھر اس سے گرد و غبار صاف کیا، ابو اسحاق نے انھیں خوب دعائیں دی اور کہا اللہ آپ کو دین و دنیا کی عزتیں نصیب فرمائے جب ابو عمر کا انتقال ہوا تو انھیں خواب میں دیکھا گیا، پوچھا گیا کہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا: اللہ نے مجھے اس نیک شخص کی دعا کی وجہ سے دنیا و آخرت کی عزت عطا فرمائی»۔
  • ابو عباس ثعلب فرماتے ہیں: «میں ابراہیم حربی کی لغت یا قواعد کی کسی مجلس کو پچاس سالوں سے کبھی ناغہ نہیں کیا»۔

اقوال[ترمیم]

  • محمد بن مخلد عطار فرماتے ہیں: میں نے ابراہیم حربی کو یہ کہتے ہوئے سنا: «محدثین سے زیادہ بہتر کسی جماعت کو میں نہیں جانتا، محدث کی صبح روشنائی اور دوات کے ساتھ ہوتی ہے۔ پھر فرماتے: اہل بدعت کے ساتھ بیٹھنے سے احتراز کیا کرو، اس لیے کہ جب کوئی شخص بدعت کی طرف مائل ہو جائے گا تو وہ کامیاب نہیں ہوگا»۔
  • ابو الحسن بن قریش کہتے ہیں کہ میں ابراہیم حربی کی خدمت میں حاضر ہوا، قاضی یوسف اور ان کے ساتھ ان کے بیٹے ابو عمر بھی تھے، فرمایا: ائے ابو اسحاق اگر ہم آپ کے حق اور آپ کے مرتبہ کے مطابق آپ کے پاس تشریف لاتے تو ہمارا پورا وقت آپ کے لیے وقف ہوتا۔ ابو اسحاق نے فرمایا: ہر غیر حاضری، جرم اور تکلیف دہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر حاضری و ملاقات، محبت اور دوستی ہوتی ہے، اصل تو دلوں کا آپس میں ملنا ہوتا ہے۔
  • ابو الحسن عتکی کہتے ہیں کہ میں نے سنا ابراہیم حربی لوگوں سے فرما رہے تھے « تم لوگ مسافر کسے سمجھتے ہو؟ ایک آدمی نے کہا: جو اپنے وطن سے دور ہو، دوسرے نے کہا: جو دوست و احباب سے الگ ہو، ابراہیم حربی نے فرمایا: ہمارے زمانے کا اصل مسافر وہ نیک شخص ہے جو نیک لوگوں کے رہتا ہو، امر بالمعروف میں اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہو اور نہی عن المنکر میں اس کی مدد کرتے ہوں، اگر کسی دنیوی چیز کی اسے ضرورت ضرورت پڑے تو وہ اسے نہ دیں، پھر سب مر جائیں اور اسے چھوڑ جائیں»۔

وفات[ترمیم]

ابراہیم حربی کی وفات ذی الحجہ کے مہینہ میں سنہ 285 ہجری میں ہوئی، ان کے جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور ان کی قبر بغداد میں زیارت گاہ ہے۔

مسعودی کہتے ہیں: "مشہور محدث اور فقیہ حربی کی وفات بغداد کے مغربی علاقے میں ہوئی، وفات کے وقت ان کی عمر اسّی سال سے زیادہ تھی۔"

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR — مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام —  : اشاعت 15 — جلد: 1 — صفحہ: 32
  2. سير أعلام النبلاء 13/ 356-372
  3. مجلة البحوث الإسلامية
  4. "ترجمة إبراهيم بن إسحاق الحربي"۔ www.alukah.net (بزبان عربی)۔ 2016-11-03۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2019