"روزنامہ مسلمان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار:تبدیلی ربط V3.4
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 88: سطر 88:
== بیرونی روابط ==
== بیرونی روابط ==
* [http://musalman.100hands.net/ آخری خطاط]، پریم جیت راماچندرن کی ایک فلم۔
* [http://musalman.100hands.net/ آخری خطاط]، پریم جیت راماچندرن کی ایک فلم۔
* [http://www.wired.com/culture/lifestyle/multimedia/2007/07/gallery_calligraphers Photos] by [http://www.scottcarneyonline.com/photos/Musalmaan%20Paper%20Photos/album/ Scott Carney]، Wired News.
* [http://www.wired.com/culture/lifestyle/multimedia/2007/07/gallery_calligraphers Photos] by [http://www.scottcarneyonline.com/photos/Musalmaan%20Paper%20Photos/album/ Scott Carney] {{wayback|url=http://www.scottcarneyonline.com/photos/Musalmaan%20Paper%20Photos/album/ |date=20080418112156 }}، Wired News.
*[https://www.youtube.com/watch?v=LUmdx2YHGcA ''The Musalman - Preservation of a Dream''], YouTube
*[https://www.youtube.com/watch?v=LUmdx2YHGcA ''The Musalman - Preservation of a Dream''], YouTube



نسخہ بمطابق 01:02، 30 جون 2021ء

روزنامہ مسلمان - The Musalman
روزنامہ مسلمان
قسمروزنامہ
ہیئتبروڈ شیٹ
مالکسید نصراللہ
آغاز1927ء
زباناردو
صدر دفترچینائی
تعداد اشاعت22,000


مسلمان بیسویں صدی کی تیسری دہائی کا اردو زبان کا روزنامہ، جو بھارت کی ریاست تمل ناڈو کے شہر چینائی سے شائع ہوتا ہے۔[1] یہ ایک شام میں شائع ہونے والا اخبار ہے۔ اس کو کاتب حضرات کتابت کرکے شائع کرتے ہیں۔ چھاپہ خانہ مروج ہونے سے پہلے یہ اخبار کاتب حضرات کی کاوش ہی سے شائع ہوتا آ رہا ہے۔[2] Wired اور ٹائمس آف انڈیا کے مطابق، مسلمان دنیا کا واحد اخبار ہے جو کاتبوں کے خطاطی کی مدد سے شائع ہو رہا ہے۔[1][3]

تاریخ

چینئی کے ٹرپلیکین علاقے میں دی مسلمان کا دفتر۔

اس اخبار کو سید عظمت اللہ نے 1927ء میں قائم کیا۔[1] اور اس کو ڈاکٹر مختاراحمد انصاری، صدر انڈین نیشنل کانگریس مدراس علاقہ سے صدر نے پہلی بار اجرا کیا۔[4] اس اخبار کا دفتر شہر چینائی کے ٹرپلیکین شاہ راہ پر واقع ہے۔

سید عظمت اللہ کی وفات کے بعد اس اخبار کے مدیر سید فضل اللہ بنے، جن کا انتقال 26 اپریل 2008ء کو 78 سال کی عمر میں ہوا۔[1] 2007ء میں فضل اللہ کو اس بات کا خدشہ ہوا کہ خطاطی اور کتابت کا سلسلہ انہیں سے نہ ختم ہو جائے۔ ان کے فرزندان بھی کتابت اور خطاطی کی طرف توجہ نہیں کی۔[5] فضل اللہ کے فرزند سید نصر اللہ نے اس اخبار کو سنبھالتے وقت اس بات کا اعلان کیا کہ ان کا رجحان خطاطی اور کتابت کی طرف نہیں ہے اور تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔[2]

لیکن اس کے مدیر نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، مگر ماضی کی طرح یہ اخبار کتابت ہی کی مدد سے شائع ہو رہا ہے۔

ٹیم

خطاطی کے ماہرین کاتب حضرات کے لیے 800 مربع فٹ کا ایک کمرہ ہے۔ ان کو کوئی دیگر سہولتیں دستیاب نہیں ہیں، صرف دیوار پر لگے دو پنکھے، تین بجلی کے لیمپ اور ایک ٹیوب لائٹ ہے۔[1] 2008 میں ان کاتب حضرات کی ٹیم ایک مرد اور دو خواتین پر مشتمل ہے، جو ہر صفحہ کے لیے تین گھنٹے کام کرتے ہیں۔[1] کتابت کا یہ مسودہ نیگیٹیو فوٹو میں تبدیل ہوتا ہے اور پرنٹنگ کے لیے جاتا ہے۔ 2007ء میں رحمٰن حسینی چیف کاتب رہے۔ یہ پہلے حساب کتاب دیکھنے پر فائض تھے، چیف کاتب صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے کتابت کا ذمہ لیا۔ ان کی تنخواہ 2500 روپیے ماہانہ رہی۔ دیگر کاتبین شبانہ اور خورشید کو ہر صفحہ کے لیے 60 روپیے اجرت دی جاتی تھی، جو ان کی دن کی کمائی تھی۔[4] چیف رپورٹر چناسوامی بالاسبرامنیم، 20 سال سے اس اخبار سے منسلک رہے۔[4] اس اخبار کے لیے نامہ نگار ملک بھر میں ہیں، خاص طور پر دہلی، کولکتہ اور حیدرآباد آندھرا پردیش سے ہیں۔[1] اس اخبار کے دفتر میں اکثر شعرا، ادیب، مذہبی رہنما آیا جایا کرتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر مضامین تحریر کیا کرتے ہیں۔[2]

ترتیب

اس اخبار کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ سر ورق پر قومی اور بین الاقوامی خبریں، دوسرے اور تیسرے صفحوں پر علاقائی خبریں، چوتھے صفحہ پر کھیل کی خبریں۔ پہلے صفحہ کے نیچے بائیں جانب کا ایک کنارہ سرخیوں کے لیے رکھا جاتا رہا۔[1] 2008ء میں اس اخبار کی قیمت 75 پیسے رہی۔ اور اس کا سرکولیشن 22000 تھا۔[1][6]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح Kamini Mathai (2008-04-30)۔ "Each page of this Urdu newspaper is handwritten by 'katibs'"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 04 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2008 
  2. ^ ا ب پ Scott Carney (2007-06-07)۔ "A Handwritten Daily Paper in India Faces the Digital Future"۔ Wired۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2008  (Also on ABC News)
  3. Scott Carney (2007-06-07)۔ "India's News Calligraphers Do It on Deadline"۔ Wired۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2008 
  4. ^ ا ب پ Suganthy Krishnamachari (2007-11-02)۔ "Newspaper nurtures art"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2008 
  5. Image 7 of 22. India's News Calligraphers Do It on Deadline. Wired.
  6. Navmi Krishna (2018-04-14)۔ "The world's only handwritten newspaper is 91 and sells at 75 paise"۔ دی ہندو (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2019 

بیرونی روابط