"حلالہ فقہ حنفیہ کی روشنی میں" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 2 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.3
سطر 10: سطر 10:
اگر دُوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، لیکن اس شخص کا اپنا خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا تو یہ صورت موجبِ لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ دُوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہو جائے گی، تب بھی گناہ نہیں۔<ref>{{Cite web |url=http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1418-talaq-mugalaza |title=طلاقِ مغلّظہ - Shaheed e Islam<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |access-date=2016-07-26 |archive-date=2016-07-14 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160714194926/http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1418-talaq-mugalaza |url-status=dead }}</ref><ref>[http://onlinefatawa.com/ftw-fatwa.php?ftw=2010-11/8389.jpg Onlinefatawa.com<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref><ref>[http://onlinefatawa.com/ftw-fatwa.php?ftw=2010-11/9009.jpg Onlinefatawa.com<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref>
اگر دُوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، لیکن اس شخص کا اپنا خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا تو یہ صورت موجبِ لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ دُوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہو جائے گی، تب بھی گناہ نہیں۔<ref>{{Cite web |url=http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1418-talaq-mugalaza |title=طلاقِ مغلّظہ - Shaheed e Islam<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |access-date=2016-07-26 |archive-date=2016-07-14 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160714194926/http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1418-talaq-mugalaza |url-status=dead }}</ref><ref>[http://onlinefatawa.com/ftw-fatwa.php?ftw=2010-11/8389.jpg Onlinefatawa.com<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref><ref>[http://onlinefatawa.com/ftw-fatwa.php?ftw=2010-11/9009.jpg Onlinefatawa.com<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref>


متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔<ref>[http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Talaq-Divorce/7794 Darul Ifta, Darul Uloom Deoband India<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔<ref>{{Cite web |title=Darul Ifta, Darul Uloom Deoband India<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |url=http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Talaq-Divorce/7794 |access-date=2016-07-26 |archive-date=2018-03-31 |archive-url=https://web.archive.org/web/20180331210012/http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Talaq-Divorce/7794 |url-status=dead }}</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 22:21، 12 مارچ 2023ء

حلالہ کرنے کی شرط پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے اگرچہ بعد عدت ثانی زوج اول کے لیے جائز ہو جائے گی اور اگر شرط نہیں لگائی بس نکاح کر لیا تو چاہے دل میں ایسا ارادہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔[1] حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں،اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا[2]

حلالہ کے بارے میں احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ’’نِکَاح بِشَرْطِ التَّحْلِیْل(یعنی حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا)جس کے بارے میں حدیث میں لعنت آئی، وہ یہ ہے کہ عقد ِ نکاح یعنی ایجاب و قبول میں حلالہ کی شرط لگائی جائے اور یہ نکاح مکروہِ تحریمی ہے، زوجِ اول و ثانی(یعنی پہلا شوہر جس نے طلاق دی اور دوسرا جس سے نکاح کیا) اور عورت تینوں گنہگار ہوں گے مگر عورت اِس نکاح سے بھی بشرائط ِ حلالہ شوہرِ اوّل کے لیے حلال ہو جائے گی اور شرط باطل ہے اور شوہرِ ثانی طلاق دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقد میں شرط نہ ہو اگر چہ نیت میں ہو تو کراہت اصلا ً نہیں بلکہ اگر نیت ِ خیر ہو تو مستحقِ اجر ہے۔‘‘ [3]

عقدنکاح سے پہلے ہی دوسرے شوہرکوسمجھادیاجائے کہ عورت اپنے پہلے شوہرکے پاس جاناچاہتی ہے اوراس کے ہاں پہلے شوہرسے کچھ اولادبھی ہے جن کی تربیت بخیروخوبی پہلے شوہر اوراس کے ذریعے ہی ہوسکےگی اورپہلے شوہرکے نکاح میں جانے اوربچوں کی صحیح تربیت کرنے کاذریعہ شوہَرِثانی سے نکاح اورہمبستری کے سواکچھ نہیں ہے،تواگر ان حالات میں شوہَرِثانی اندونوں(شوہَرِاول اور اس عورت)کی پریشانی کوحل کرنے کی نیت سے اس عورت سے نکاح کرلے اوریہ نکاح حلالہ کی شرط پرنہ کیاجائے(یعنی ایجاب وقبول کے وقت حلالہ کی شرط نہ لگائی جائے بلکہ نارملالفاظ میں ایجاب وقبول ہوں اگرچہ دل میں ارادہ حلالہ کاہو)اورنہ ہی اس پرشوہَرِاَوَّل سے اجرت لی جائے اورپھربعدِنکاح،ہمبستری کرکے اس کوطلاق دے تاکہ وہ عورت عدت گزار کراپنے پہلے شوہرسے نکاح کرلے اوربچوں کی صحیح طورپرپرورش کرسکے تویہ شوہَرِثانی اس طرح کرکے ان دونوں(شوہَرِاَوّل اورعورت)کی خیروبھلائی چاہنے کی وجہ سے ثواب کامستحق قرار پائےگا۔ (دارالافتاء اہلسنت،25ذوالقعدۃ الحرام1433ھ،13اکتوبر2012ء)[4]

اگر دُوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، لیکن اس شخص کا اپنا خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا تو یہ صورت موجبِ لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ دُوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہو جائے گی، تب بھی گناہ نہیں۔[5][6][7]

متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔[8]

حوالہ جات

  1. دار الافتاء دیوبند
  2. فتاوی رضویہ اعلیٰحضرت احمد رضا خان،جلد 12 صفحہ 409 رضا فاؤنڈیشن لاہور
  3. الدرالمختار،کتاب الطلاق،باب الرجعۃ ،ج5،ص51،،
  4. 76 Kabira Gunah
  5. "طلاقِ مغلّظہ - Shaheed e Islam"۔ 14 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2016 
  6. Onlinefatawa.com[مردہ ربط]
  7. Onlinefatawa.com[مردہ ربط]
  8. "Darul Ifta, Darul Uloom Deoband India"۔ 31 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2016