"ولی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''ولی''' ولا اور توالی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو‘ یا نسبی‘ یا دینی‘ یا اعتقادی‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌ سے صفت کا صیغہ ہے‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا‘ دوست‘ مددگار۔
'''ولی''' [[عربی زبان|عربی]] [[لسان|زبان]] کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں، دوست یعنی اللہ کا دوست۔ولا اور توالی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو‘ یا نسبی‘ یا دینی‘ یا اعتقادی‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌ سے صفت کا صیغہ ہے‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا‘ دوست‘ مددگار۔ اس کی جمع اولیاء ہے
انبیا کرام، اصحاب کرام اور تابعین تبع تابعین، خلفائے راشدین کے بعد اشاعت اسلام کی ذمہ داری اولیاء اللہ نے نبھائی۔ ان ہستیوں کے نام اور ان کی بتائی ہوئی تعلیمات دنیا میں (مسلم اور غیر مسلم ممالک سمیت) ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں اور ان کے مزارات آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں لوگوں کو اپنی جانب مائل کیے ہوئے ہیں۔ ان ہستیوں نے تو لوگوں کی بھلائی اور ان کی زندگی سہل بنانے کی کوششیں کیں اور اللہ کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچایا۔ تاریخی اعتبار سے [[تصوف]] کے چار بڑے سلسلے سامنے آتے ہیں جن کا شجرہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں :
* [[قادریہ]]
* [[چشتیہ]]
* [[سلسلہ نقشبندیہ|نقشبندیہ]]
* [[سہروردیہ]]
نقشبندیہ سیدنا ابو بکر صدیق سے ملتا ہے۔<ref>[http://www.naqshbandi.org/about/titlesof.htm نقشبندی سلسلہ حضرت ابوبکر{{رض مذ}} سے چلا]</ref> باقی تین سلسلے حضرت سیدنا علی سے ملتے ہیں
یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جا سکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بے کیف قرب اور بھی حاصل ہے‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بے کیف محبت‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک [[حدیث قدسی]] ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔
یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جا سکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بے کیف قرب اور بھی حاصل ہے‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بے کیف محبت‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک [[حدیث قدسی]] ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔
اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیا کا خصوصی حصہ ہے‘ جن کے سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات ترقی پزیر ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں۔
اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیا کا خصوصی حصہ ہے‘ جن کے سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات ترقی پزیر ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں۔
سطر 12: سطر 18:
[[زمرہ:باطنیت]]
[[زمرہ:باطنیت]]
[[زمرہ:مذہب]]
[[زمرہ:مذہب]]
[[زمرہ:سلاسل تصوف]]

نسخہ بمطابق 02:11، 3 جون 2020ء

ولی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں، دوست یعنی اللہ کا دوست۔ولا اور توالی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو‘ یا نسبی‘ یا دینی‘ یا اعتقادی‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌ سے صفت کا صیغہ ہے‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا‘ دوست‘ مددگار۔ اس کی جمع اولیاء ہے انبیا کرام، اصحاب کرام اور تابعین تبع تابعین، خلفائے راشدین کے بعد اشاعت اسلام کی ذمہ داری اولیاء اللہ نے نبھائی۔ ان ہستیوں کے نام اور ان کی بتائی ہوئی تعلیمات دنیا میں (مسلم اور غیر مسلم ممالک سمیت) ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں اور ان کے مزارات آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں لوگوں کو اپنی جانب مائل کیے ہوئے ہیں۔ ان ہستیوں نے تو لوگوں کی بھلائی اور ان کی زندگی سہل بنانے کی کوششیں کیں اور اللہ کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچایا۔ تاریخی اعتبار سے تصوف کے چار بڑے سلسلے سامنے آتے ہیں جن کا شجرہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں :

نقشبندیہ سیدنا ابو بکر صدیق سے ملتا ہے۔[1] باقی تین سلسلے حضرت سیدنا علی سے ملتے ہیں یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جا سکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بے کیف قرب اور بھی حاصل ہے‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بے کیف محبت‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔ اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیا کا خصوصی حصہ ہے‘ جن کے سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات ترقی پزیر ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں۔ صوفیہ کی اصطلاح میں کم سے کم وہ درجہ جس پر لفظ ولی کا اطلاق ہو سکتا ہے‘ اس شخص کا ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں ہر وقت ڈوبا رہتا ہے۔ وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ کی محبت میں سرشار رہتا ہے۔ کسی اور کی محبت کی اس میں گنجائش نہیں ہوتی خواہ باپ ہو‘ یا بیٹا‘ یا بھائی‘ یا بیوی‘ یا دوسرے کنبہ والے‘ کسی سے اس کو محبت نہیں ہوتی۔ اگر کسی سے محبت ہوتی ہے تو محض اللہ کے لیے اور نفرت ہوتی ہے تب بھی خوشنودئ مولیٰ کے حصول کے لیے۔ وہ کسی کو کچھ دیتا ہے تو صرف اللہ کے لیے اور نہیں دیتا ہے تب بھی اللہ کی مرضی کے لیے۔ اس گروہ کی آپس میں محبت لوجہ اللہ ہوتی ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اس صفت کو فناء قلب کہا جاتا ہے۔ ولی کا ظاہر و باطن تقویٰ سے آراستہ ہوتا ہے۔ جو اعمال و اخلاق اللہ کو ناپسند ہیں‘ ان سے وہ پرہیز رکھتا ہے۔ شرک خفی و جلی سے پاک رہتا ہے‘ بلکہ وہ شرک جو چیونٹی کی رفتار کی آواز سے بھی زیادہ خفی ہوتا ہے‘ اس سے بھی بچتا ہے۔ غرور‘ کینہ‘ حسد‘ حرص اور ہوس سے منزہ ہوتا ہے اور انہی کے ساتھ عمدہ اخلاق و اعمال سے متصف ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کو صوفیہ فناء نفس کا مرتبہ کہتے ہیں۔ صوفیہ کا قول ہے کہ اس درجہ پر جب ولی پہنچ جاتا ہے تو اس کا شیطان اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور فرماں بردار بن جاتا ہے۔[2]

حوالہ جات

  1. نقشبندی سلسلہ حضرت ابوبکررَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے چلا
  2. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی سورہ یونس،62