دکھ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دکھ ایک منفی جذبہ ہے جو ہر انسانی معاشرے میں اور ذی شعور اور ذی عقل انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محسوس ضرور ہوتا ہے۔ یہ خوشی کی عین ضد ہوتا ہے۔ اس جذبے ایک تکلیف اور درد چھپا ہوتا ہے۔ یہ درد کئی وجوہ سے ممکن ہے۔ ایک دکھ تو کسی کی فوری ناکامی کی وجہ سے ہو سکتا ہے، چاہے وہ کسی کوشش کی ناکامی ہو یا کسی امتحان میں ناکامی کی وجہ سے ہو۔ ایک دکھ کسی کو اپنی قسمت اور مقام کے دوسروں کے مقابلے میں ارزاں ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ دکھ کسی بے عزتی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، کسی نا گہانی نقصان یا کسی کی بد زبانی اور بد گوئی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کسی اپنا ذاتی بھی ہو سکتا ہے اور کسی قریبی شخص کا بھی ہو سکتا ہے۔ مثلًا ماں باپ اولاد کے بیمار ہونے کی وجہ سے دکھی ہو سکتے ہیں۔ دکھ کی وجہ کسی سے عارضی یا مستقلًا بچھڑنا بھی ہو سکتی ہے۔ مثلًا ماں باپ اولاد کی شادی کے بعد ان سے الگ ہونے کی وجہ سے دکھی ہو سکتے ہیں۔ مگر دکھ کبھی دیر پا بھی ہو سکتا ہے۔ مثلًا کسی کے رشتے دار کے گذر جانے کا دکھ ایسا ہو سکتا ہے جو کسی شخص کو تا حیات ستا سکتا ہے۔

کچھ دکھ مؤقت ہو سکتے ہیں۔ یہ دکھ بدلتے زمانے کے ساتھ ناپید ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ ایک طالب علم امتحان ناکام ہو کر بہت دکھی ہو سکتا ہے۔ مگر وہی طالب علم اچھے نمبرات سے پاس ہو کر خوش ہو سکتا ہے۔ کچھ دکھ لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں۔ مثلًا کسی کا اپنی دیر پا چلنے والی مرض کا دکھ جو مرض کے ختم تک آدمی میں دکھ کی کیفیت برپا کر سکتا ہے۔ مگر کچھ زندگی بھر رہ سکتے ہیں اور ان سے اوپر اٹھنا انسان کی ہمت اور اندرونی طاقت پر منحصر ہے۔ مثلًا کوئی شخص حادثے میں جسم کا ایک عضو کھو کر دکھی ہو سکتا ہے۔ وہ اگر آگے کی مثبت سوچے تو دکھ سے اوپر بھی اٹھ سکتا ہے اور اگر پوری فکر اسی پر مرکوز کرے تو اسی طرح دکھی رہ سکتا ہے۔ مستقلًا دکھ میں مبتلا ہونا دماغی توازن میں خلل پیدا کر سکتا ہے۔

پیار میں دکھ کا ہونا اور دل کا ٹوٹنا ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ انسانی رشتے میں دراڑ آنے کے سبب سے ہوتا ہے۔ جدید دور میں ایسے کچھ دکھی لوگ اپنے سابق ساتھی کو سماجی میڈیا پر ان فالو کرتے ہیں اور پھر زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی تصویریں یا پیغامات بھی حذف کرنا ہوتا ہے جو لوگوں کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اس سے ان کے زخم مندمل ہونے میں مدد ملتی ہے۔غم کے مختلف مراحل میں غصے کا اپنا کردار ہے۔[1] تاہم صبر اور استقامت قلب ہی آگے کی زندگی کی ضامن ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]