مندرجات کا رخ کریں

سائنس فکشن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایچ جی ویلز کی 1987ء کی ناول دی وار آف دی ورلڈز میں ایک خلائی مخلوقات کے قبضے کی منظر کشی کی گئی ہے۔
خلانوردی کی پیشن گوئی اگست 1958ء میں سائنس فکشن رسالے ایمیجی نیشن میں کی گئی تھی

سائنس فکشن ادب کی وہ صنف ہوتی ہے، جو تجسسی تخیل پر کا کام کرتی ہے۔ اسے دنیائے ادب میں ادب فکرہ یا نئے افکار کا ادب کہا گیا ہے۔ عمومًا اس میں خیالی اور مستقبل پسندانہ تصورات شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ ترقی یافتہ سائنس اور ٹیکنالوجی، بین الادوار سفر، متوازی کائناتیں، تخیلی عالموں کا ذکر، خلانوردی اور ماورائے ارض زندگی۔ اس میں اکثر سائنسی ایجادات کے امکانی عواقب کی منظر کشی کی جاتی ہے۔[1][2]

عام خیال یہ ہے کہ سائنس فکشن بیسویں صدی عیسوی کی جدید (اینگلو امریکن) سائنسی ٹیکنالوجی کو ادب (افسانہ، ناول اور ڈراما) کی ہیئت میں پیش کرنے کا نام ہے۔ قدامت میں اس کے آثار سیموسٹرا کے لوسین (150ء) کے یہاں اس کی حقیقی تاریخ میں ملتے ہیں جو دراصل قدیم مورخین کی تواریخ کی پیروڈی ہے۔ اس کا ہیرو چاند اور سورج تک جا کر بین السیارتی جنگوں میں حصہ لیتا ہے۔ یورپ میں سائنس فکشن کے ابتدائی نمونے کئی زبانوں میں موجود ہیں لیکن جسے واقعی اس اصطلاح کی ذیل میں لینا چاہیے وہ جولز ورن اور ایچ جی ویلز کا فن ہے۔ اول الذکر کا سائنسی ناول ”زمین کے مرکز تک سفر“ (1874ء فرانسیسی میں) ہے جس کا اردو میں ”عالم اسفل“ کے نام سے ترجمہ کیا گیا ہے (مترجم مظہر الحق علوی) ثانی الذکر ناول نگار اپنے کئی محیر العقول افسانوں اور ناولوں کے لیے مشہور ہے مثلاً ”ٹائم مشین“ اور ”ڈاکٹر مارو کا جزیرہ“ (اردو ”پر اسرار جزیره“، مترجم مظہر الحق علوی) اور ”دنیاؤں کی جنگ“ وغیرہ۔ یورپ اور امریکا میں سائنس فکشن کی طویل تاریخ ہے کیونکہ سائنسی ترقیات انھیں خطوں سے مخصوص ہیں۔ اردو میں پیرویِ مغربی میں خان محبوب طرزی (دو دیوانے، زہرہ کا سفر)، اکرم الہٰ آبادی (بحر ظلمات)، ابن صفی (جنگل کی آگ، زیبرا مین و غیر ه)، اظہار اثرؔ (مشینوں کی بغاوت) اور کرشن چندر (مشینوں کا شہر، ستاروں کی سیر [بچوں کے لیے]) نے اس صنف میں قابل قدر کام کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا افسانہ ”روشنی کی رفتار“ بھی ٹائم مشین کے تصور پر مبنی سائنس فکشن ہی ہے۔ اسے میٹا فکشن بھی کہتے ہیں۔[3]

قبل از وقت ایجادات کے تصورات

[ترمیم]

سائنس فکشن کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قبل از وقت تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے کچھ تصورات حقیقی دنیا کی ایک طرح سے پیشن گوئی ہوتے ہیں تو کچھ تصورات کبھی حقیقت کا رخ ہی نہیں کرتے یا پھر بعینہ دنیا میں اسی طرح انجام پزیر نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک تصور اسمارٹ گھروں کا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 1999ء میں ریلیز ہونے والی فلم "اسمارٹ ہاؤس" ہی وہ پہلی فلم تھی جس میں جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس ایک آرام دہ گھر کا تصور پیش کیا گیا تھا لیکن تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گھروں کا تصور اس سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن ہارر فلم "ڈیمون سیڈ" دراصل وہ پہلی فلم تھی جس میں اس طرح کا گھر پیش کیا گیا تھا، اس فلم میں مصنوعی ذہانت کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک اسمارٹ کمپیوٹر دکھایا گیا جو دراصل خون کے سرطان سے حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا مگر پوٹیوز 4 نامی یہ کمپیوٹر اس کو تیار کرنے والے انجینئر کے تضبیط (control) سے باہر ہو گیا کیونکہ وہ اس کی خوبصورت بیوی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے اور گھر کے تمام برقیاتی آلات کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ انجینئر کی بیوی کو ہاتھ ہلائے بغیر کام خود بہ خود کیے ہوئے ملنے لگتے ہیں کیونکہ آلات شمارندے کے زیر اثر ہوجاتے ہیں۔[4]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Marg Gilks; Paula Fleming; Moira Allen (2003). "Science Fiction: The Literature of Ideas" (بزبان انگریزی). WritingWorld.com.
  2. von Thorn, Alexander (Aug 2002). "Aurora Award acceptance speech" (بزبان انگریزی). Calgary, Alberta. {{حوالہ رسالہ}}: الاستشهاد بدورية محكمة يطلب |دورية محكمة= (help)
  3. سلیم شہزاد (1998)۔ فرہنگ ادبیات (پہلا ایڈیشن)۔ مالیگاؤں: منظر نما پبلشرز۔ ص 430-431
  4. صادقہ خان۔ "فلموں کے وہ تصورات جو حقیقت بنے"۔ ڈان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-07-14