سرخ جنگل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سرخ جنگل

یوکرینی: Рудий ліс

روسی: Рыжий лес
سرخ جنگل
جغرافیہ
مقامچرنوبل استثنائی خطہ,  یوکرین
متناسقات51°22′48″N 30°02′57″E / 51.38011°N 30.04908°E / 51.38011; 30.04908متناسقات: 51°22′48″N 30°02′57″E / 51.38011°N 30.04908°E / 51.38011; 30.04908
صورت حالمملکت کے زیر انتظام، رسائی محدود
سیاحت/مشاہدہاجازت سے ہی
ماحولیات
خللکافی مقدار میں اشعاعیاتی آلودگی

سرخ جنگل (یوکرینی: Рудий ліс، Rudyi lis روسی: Рыжий лес Ryzhy les، لفظی معنی "ادرک کے رنگ کا جنگل") 10-کلومربع-میٹر (107,639,104 فٹ مربع) رقبے پر محیط ہے اور یہ چرنوبل نیوکلیائی توانائی پلانٹ کے اطراف ہے جو استثنائی خطے میں آتا ہے۔ سرخ جنگل نام ادرک کے گندمی رنگ سے آتا ہے جو مردہ چیڑ درختوں کا چرنوبل حادثے کے بعد اونچی سطح کی شعاعیں جھیلنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ حادثہ 26 اپریل 1986ء کو پیش آیا تھا۔[1] حادثے کے بعد کی کارروائیویوں میں سرخ جنگل کو زمین دوز کر کے "بے کار قبرستانوں" میں دفن کیا گیا تھا۔[2] سرخ جنگل کا محل وقوع آج بھی دنیا کے آلودہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔[3]

حادثہ اور اس صفائی[ترمیم]

پری پیات کے ویران بلاک جہاں صرف ایک درخت باقی ہے

سرخ جنگل علاحدہ کردہ خطے میں واقع ہے؛ یہ علاقہ چرنوبل حادثے کی سب سے زیادہ شعاعیں اور ان سے نکلنے والے دھوئیں اور گرد جو شعاعوں سے آلودہ تھا، جھیل چکا ہے۔ یہاں کے درخت شعاعوں سے فوت ہو گئے۔ چرنوبل کے ریاکٹر نمبر 4 کا دھماکا اور آگ زمین کی مٹی، پانی اور ماحول کو اشعاعیاتی مادے سے آلودہ کر چکے ہیں، جس کی شدت ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی بمباری سے 20 گنا زیادہ ہے۔[4]

حادثے کی صفائی کی کارروائیوں کے دوران میں زیادہ تر چیڑ کے درخت زمین دوز کیے گئے اور خندقوں میں لیکویڈیٹرز دفنائے گئے۔ ان خندقوں پر ریت کی موٹی پرت بچھادی گئی اور چیڑ کے درخت لگائے گئے۔[5] کئی لوگوں کا ڈر ہے کہ جیسے ہی یہ درخت اُجڑیں گے، اشعاعیاتی آلودہ مادے زمین کے پانی کا حصہ بن جائیں گے۔ لوگ سرخ جنگل کے اطراف کے آلودہ خطوں کو چھوڑ چکے ہیں۔

جنگلی جانوروں کی آماجگاہ[ترمیم]

پری پیات کے نزدیک ایک ویران گاؤں جو چرنوبل کے نزدیک واقع ہے
نقشہ بتا رہا ہے کہ کس طرح بیلاروس، روس اور یوکرین میں کیسیم-137 کی آلودگی موجود ہے جیساکہ 1996ء کی صورت حال تھی۔

اس علاقے سے 1986ء میں انسانوں کے اخراج کے ساتھ ہی جانور داخل ہو گئے حالانکہ شعاعوں کے اثرات کا خطرہ برقرار تھا۔ اس علاقے کے نباتات وحیوانات میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ یہ سمجھا گیا ہے کہ سرخ جنگل کی مختلف النوع حیات میں حادثے کے بعد کے سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔[6] اس علاقے میں مقررہ سے کم قد آور درختوں کے اگنے کی خبریں ہیں۔ 1986ء اور 1988ء کے بیچ جنگلی سور کی آبادی میں آتھ گنا اضافہ ہوا ہے۔[1]

سرخ جنگل کا محل وقوع دنیا کے آلودہ ترین علاقوں سے ایک ہے۔[3] تاہم یہ حیرت انگیز طور پر کئی خطرہ زدہ انواع کا ٹھکانہ بن چکا ہے۔ نیوکلیائی ریاکٹر کے اردگرد لوگوں کا اخراج اسے جنگلی جانوروں کی آماجگاہ بنا چکا ہے۔ 1996ء کا بی بی سی ہوریزن ڈاکیومنٹری "اِنسائڈ چرنوبلز سارکوفاگوس" میں پرندوں کو بڑے سوراخوں کے آگے پیچھے اڑتے دکھایا گیا جو سابقہ نیوکلیائی ریاکٹر سے بنے تھے۔ لمبے عرصے کا اثر نباتات وبناتات پر کیا ہوگا، اس کا پوری طرح سے علم نہیں ہے، کیونکہ درختوں اور جانوری کی اشعاعیاتی قوت برداشت مختلف ہے۔ کچھ پرندوں کے بارے میں اطلاع ملی ہے کہ وہ عام ہیئت سے کم پر رکھتے ہیں (جو افزائش نسل میں رکاوٹ ہے۔ اس علاقے میں سارس، گیدڑ، اودبلاؤ، ہرن اور چیل پائے گئے ہیں۔[7][8]

موجودہ دور میں سرخ جنگل میں اشعاعیاتی سطح ایک روئینٹگین فی گھنٹا تک پہنچتی ہے، مگر دس ملی روئینٹگین فی گھنٹا عام ہے۔ اشعاعیاتی سرگرمی کا 90% مرکز زمین ہے۔[5]

سائنسدانوں کا منصوبہ ہے کہ اردگرد کے ویران چھوٹے شہر پری پیات اور کے نواح کا استعمال ایک منفرد لیباریٹری کے طور پر کریں تاکہ کسی ڈرٹی بم کے پھوٹنے سے ریڈیونیوکلائیڈوں کے بکھراؤ کی نمونہ سازی ہو یا اسی طرح کا مطالعہ کیمیائی یا حیاتیاتی عوامل کا ہو سکے۔ یہ علاقہ اس بات کی سہولت فراہم کرتا ہے کہ اشعاعیاتی طور پر فعال ملبے کا شہری اور دیہی علاقے میں کیسے گذر ہو سکتا ہے۔

اس علاقے کی قدرت نہ صرف بچی رہی ہے بلکہ قابل لحاظ حد تک انسانی اثر میں گراوٹ کی وجہ سے پھل پھول گئی ہے۔ یہ علاقہ "اشعاعیاتی محفوظ علاقہ" بن چکا ہے، جو غیررضاکارانہ پارک کی کلاسیکی مثال سمجھی گئی ہے۔ فی الحال مٹی کے اسٹرونیم-90 اور کیسیم-137 سے آلودہ ہونا موضوع فکر ہے جو 30 تک مقدار میں آدھا ہوگا۔ کیسیم-137 کی سب سے بڑی سطح مٹی کی پرتوں میں پائی جاتی ہے جہاں اسے درخت اور وہاں رہ رہے کیڑے مکوڑے جذب کر رہے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اشعاعیاتی سرگرمی آئندہ کئی نسلوں کو متاثر کرے گی۔[9][10]

اپریل 2015ء میں جنگل کی آگ پھیل کر غیر آباد نیوکلیائی پلانٹ کے 400 ہیکٹیر کے قریب تک پہنچ گئی تھی، جس سے خوف پیدا ہوا کہ آگ کی لپٹیں حادثے کے علاقے کی جھاڑیوں اور سبز علاقے کو ختم کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ماحول میں مزید اشعیاتی سرگرمی والے مادے جاری ہوتے تھے۔[11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب مولوے، اسٹیون (20 اپریل 2006)۔ "جنگلی جانور چرنوبل حادثے کے بعد بھی جی رہے ہیں"۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  2. مولوے، اسٹیون (25 اپریل 2006)۔ "چرنوبل کے جاری خطرات"۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  3. ^ ا ب مولوے، اسٹیون (4 اپریل 2006)۔ "چرنوبل - حصہ اول""۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  4. "جنگل واپس پی ڈی ایف" (PDF)۔ 15 اپریل 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2016 
  5. ^ ا ب Mary Mycio, Wormwood Forest: A Natural History of Chernobyl، ISBN 0-309-09430-5
  6. چرنوبل نیوکلیائی حادثہ اور بعد کے جنگلی جانوروں کی آماجگاہ کی تیاری، مدیر کے نام خط، رابرٹ جے بیکر، ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی اینڈ انٹرنیشنل ریڈیو ای کالوجی لیباریٹری
  7. "IAEA Report"۔ In Focus: Chernobyl۔ 27 مارچ 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2006 
  8. چرنوبل: حادثے کی صحیح پیمائش آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iaea.org (Error: unknown archive URL)، از بین الاقوامی توانائی ایجنسی /عالمی ادارہ صحت/اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام، 5 ستمبر 2005.
  9. Microsoft Word - !!MASTERDOC cesium dr3 mar2 ac.doc
  10. http://ag.arizona.edu/swes/chorover_lab/pdf_papers/Bostick%20et%20al.،[مردہ ربط] %202002.pdf
  11. "چرنوبل کی آگ پر قابو پا لیا گیا ہے"۔ ہیلین ویلیٹس کی رپورٹ برائے بی بی سی ورلڈ نیوز۔ 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2015