سنکیانگ کے حراستی کیمپ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ژنجیانگ حراستی مراکز
ذہن سازی کیمپ، لیبر کیمپ
فائل:Xinjiang Re-education Camp Lop County.jpg
ژنجیانگ کی لوپ کائونٹی کے کیمپ میں زیر حراست ایغور تقریریں سنتے ہوئے۔ اپریل 2017 ء۔
دیگر نام
  • ووکیشنل اور تعلیمی تربیتی مراکز
  • ژنجیانگ تعلیم نو کیمپ
مقامژنجیانگ، چین
تعمیر ازseچینی کمیونسٹ پارٹی
حکومت چین
منتظم ازژنجیانگ ایغور خود مختارعلاقے کی علاقائی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کی علاقائی کمیٹی
فعال2017–present[1]
قیدیوں کی تعدادUp to 1.8 million (2020 Zenz estimate)[2]

1 million – 3 million over a period of several years (2019 Schriver estimate)[3][4]

Plus ~497,000 minors in special boarding schools (2017 government document estimate)[5]
  1. Adrian Zenz (1 July 2020)۔ "China's Own Documents Show Potentially Genocidal Sterilization Plans in Xinjiang"۔ Foreign Policy 
  2. Phil Stewart (4 May 2019)۔ "China putting minority Muslims in 'concentration camps,' U.S. says"۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2019 
  3. Alan Rappeport، Edward Wong (4 May 2018)۔ "In Push for Trade Deal, Trump Administration Shelves Sanctions Over China's Crackdown on Uighurs"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2019 
  4. Amy Qin (2019-12-28)۔ "In China's Crackdown on Muslims, Children Have Not Been Spared"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0362-4331۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2021 
ژنجیانگ حراستی مراکز
ژنجیانگ تعلیم نو مراکز
سادہ چینی 再教育
روایتی چینی 再教育[1]
اویغور نام
اویغور
قايتا تەربىيەلەش لاگېرلىرى
  1. Tung, Li-Wen(董立文) (October 2018)۔ 「再教育營」再現中共新疆 工作的矛盾 [The Reprise of the Contradiction of CCP's Work in Xinjiang Due to "Re-education Camps"] (PDF)۔ 發展與探索 Prospect & Exploration (بزبان چینی)۔ 16 (10)۔ 18 دسمبر 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2019 
فنی تعلیم و تربیت کے مراکز
سادہ چینی 职业技能教育培训中心
روایتی چینی 職業技能教育培訓中心
لغوی معنی فنی مہارت تعلیمی تربیتی مراکز

سنکیانگ کے حراستی کیمپ ، [note 1] جو سرکاری طور پر پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے مراکز کہلاتے ہیں ( چینی: 职业技能教育培训中心 ) حکومت چین،، [6] [7] [8] سنکیانگ کی حکومت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی صوبائی اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیر انتظام چلنے والے حراستی کیمپ ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ انھیں سنہ 2017ء سے ایغوروں اور دوسرے مسلمانوں کو "دہشت گردی کے خلاف عوامی جنگ" کے ایک حصے کے طور ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس کا اعلان سنہ 2014ء میں ایک پالیسی میں کیا تھا۔ [9] کیمپوں پر بہت سے ممالک کی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تنقید کی گئی ہے، جن میں بدسلوکی، عصمت دری اور تشدد شامل ہیں، جبکہ کچھ نے نسل کشی کا الزام بھی لگایا ہے۔ دنیا کے تقریباً 40 ممالک نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایغور برادری کے انسانی حقوق کا احترام کرے، جن میں کینیڈا، جرمنی، ترکی، ہونڈوراس اور جاپان جیسے ممالک شامل ہیں۔ 35 سے زائد ممالک کی حکومتوں نے چین کی حکومت کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ [10] [11] سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کو "اویغوروں کے خلاف چین کی غیر انسانی پالیسیوں کی انتہائی مثال" قرار دیا گیا ہے۔ [5]

یہ کیمپ سنہ 2017ء میں سی سی پی کے جنرل سیکرٹری شی جن پنگ کی انتظامیہ نے قائم کیے تھے۔ سنہ 2017ء اور 2021ء کے درمیان کارروائیوں کی قیادت چن کوانگو کر رہے تھے، جو پہلے سی سی پی پولٹ بیورو کے رکن اور کمیٹی کے سیکرٹری تھے جنھوں نے خطے کی پارٹی کمیٹی اور حکومت کی قیادت کی۔ [12] مبینہ طور پر یہ کیمپ چینی قانونی نظام سے باہر چلائے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر بہت سے اویغوروں کو بغیر کسی مقدمے کے قید کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے (اور انتظامی حراست میں رکھا گیا ہے)۔ [13] [14] مقامی حکام کے مطابق، انھوں نے مبینہ طور پر ان کیمپوں میں لاکھوں اویغوروں کے ساتھ ساتھ چین میں دیگر نسلی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو بھی، [15] انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور سماجی انضمام کو فروغ دینے کے [16] مقصد کے لیے رکھا ہوا ہے۔ [17]

کیمپوں میں اویغوروں اور دیگر ترکستانی مسلمانوں کی نظر بندی دوسری جنگ عظیم کے بعد نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی صوابدیدی حراست ہے۔ بمطابق 2020 ء میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ چینی حکام نے تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگوں کو جو زیادہ تر ایغور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، مگر قازق، کرغیز اور دوسرے ترکستانی نسل کے مسلمانوں اور عیسائیوں اور کچھ غیر ملکی قازقستانی شہریوں کو ان خفیہ حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے جو پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیمپوں کے بارے میں ایک بڑے محقق، ایڈرین زینز کے مطابق، سنہ 2018ء میں قیدیوں کی تعداد عروج پر پہنچ گئی تھی، مگر اب کچھ حد تک کم ہو گئی ہے اور حکام جبری مشقت کے پروگراموں کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں اور امریکی حکام نے بھی کیمپوں سے افراد کی باقاعدہ تعزیری نظام میں منتقلی کو نوٹ کیا ہے۔ [18]

مئی 2018ء میں، رینڈل شریور، امریکی معاون وزیر دفاع برائے ہند-بحرالکاہل سیکورٹی امور نے کہا کہ "کم از کم دس لاکھ لیکن ممکنہ طور پر تیس لاکھ کے قریب شہری" حراستی مراکز میں قید ہیں، جنہیں انھوں نے "نازی ارتکازی کیمپوں" سے تشبیہ دی ہے۔ اگست 2018ء میں، نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں امریکی نمائندے گے میک ڈوگل نے کہا کہ کمیٹی کو بہت سی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ چین میں 10 لاکھ ایغوروں کو "دوبارہ تعلیم کے کیمپوں" میں رکھا گیا ہے۔ سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کا چینی ثقافتی انقلاب کے دوران ہونے والے جبر سے موازنہ کیا گیا ہے۔ [19] [20] [21]

سنہ 2019ء میں اقوام متحدہ میں چین سمیت 54 ممالک نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سنکیانگ میں چینی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کی۔ [22] ایک اور خط میں، 23 ممالک نے کمیٹی کی رپورٹوں پر خدشات کا اظہار کیا اور چین سے انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ [23] ستمبر 2020ء میں، آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ASPI) نے اپنے سنکیانگ ڈیٹا پروجیکٹ میں رپورٹ کیا کہ کیمپوں کی تعمیر حکومتی دعووں کہ ان کا کام ختم ہو رہا ہے، کے باوجود جاری ہے ۔ اکتوبر 2020ء میں، یہ بتایا گیا کہ چین کی مذمت کرنے والے ممالک کی کل تعداد بڑھ کر 39 ہو گئی، جبکہ چین کا دفاع کرنے والے ممالک کی کل تعداد کم ہو کر 45 ہو گئی۔ سنہ 2019ء میں چین کا دفاع کرنے والے سولہ ممالک نے 2020ء میں ایسا نہیں کیا۔ [24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Joanne Smith Finley (2019)۔ "Securitization, insecurity and conflict in contemporary Xinjiang: has PRC counter-terrorism evolved into state terror?"۔ Central Asian Survey (بزبان انگریزی)۔ 38 (1): 1–26۔ ISSN 0263-4937۔ doi:10.1080/02634937.2019.1586348Freely accessible 
  2. Kevin Cirilli (7 September 2020)۔ "U.S. Bars Some China Xinjiang Firms on Alleged Abuse; Plans More"۔ Bloomberg.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2021 
  3. Rayhan Diamond، Yonah Asat (15 July 2020)۔ "The World's Most Technologically Sophisticated Genocide Is Happening in Xinjiang"۔ Foreign Policy (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2021 
  4. "Why Is This Happening? Uncovering China's secret internment camps with Rian Thum"۔ NBC News (بزبان انگریزی)۔ 24 April 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2021 
  5. ^ ا ب Jen Kirby (2020-07-28)۔ "Concentration camps and forced labor: China's repression of the Uighurs, explained"۔ Vox (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2021۔ It is the largest mass internment of an ethnic-religious minority group since World War II. 
  6. 中华人民共和国 国务院新闻办公室 (18 March 2019)۔ "Xinjiang de fankong, qu jiduanhua douzheng yu renquan baozhang" 新疆的反恐、去极端化斗争与人权保障 (بزبان چینی)۔ Xinhua۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2019 
  7. "Xinjiang Weiwuer Zizhiqu qu jiduanhua tiaoli" 新疆维吾尔自治区去极端化条例۔ Xinjiang People's Congress Standing Committee۔ 31 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2019 
  8. "Full Text: Vocational Education and Training in Xinjiang"۔ Xinhua۔ Beijing۔ 16 August 2019۔ 16 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2019 
  9. "China: Free Xinjiang 'Political Education' Detainees"۔ Human Rights Watch۔ 10 September 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2017 
  10. Nick Cumming-Bruce (2019-07-13)۔ "More than 35 countries defend China over mass detention of Uighur Muslims in UN letter"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ 07 مئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2021 
  11. Tom Miles (2019-07-12)۔ "Saudi Arabia and Russia among 37 states backing China's Xinjiang policy"۔ Reuters (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2021 
  12. Amber Wang (2022-06-15)۔ "US-sanctioned hardline Xinjiang chief moves to rural affairs role"۔ South China Morning Post (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2022 
  13. "'Permanent cure': Inside the re-education camps China is using to brainwash Muslims"۔ Business Insider۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2018 
  14. "China: Big Data Fuels Crackdown in Minority Region"۔ Human Rights Watch۔ 26 February 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2018 
  15. "China detains thousands of Muslims in re-education camps"۔ Union of Catholic Asian News۔ 13 September 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017 
  16. Clarke Michael (25 May 2018)۔ "Xinjiang's "transformation through education" camps"۔ The Interpreter۔ Lowy Institute۔ 03 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  17. "Why are Muslim Uyghurs being sent to 're-education' camps"۔ Al Jazeera۔ 8 June 2018۔ 02 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2018 
  18. Alex Willemyns (September 19, 2023)۔ "Uyghur event in NY goes ahead despite Beijing's warning"۔ Radio Free Asia (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2023 
  19. Gerry Shih (18 May 2018)۔ "China's mass indoctrination camps evoke Cultural Revolution"۔ Associated Press۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2019 
  20. Arch Puddington (8 May 2019)۔ "Beijing's Persecution of the Uyghurs is a Modern Take on an Old Theme"۔ The Diplomat۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2020 
  21. Olivia Enos (7 June 2019)۔ "Responding to the Crisis in Xinjiang" (PDF)۔ The Heritage Foundation 
  22. "Joint Statement on Xinjiang at Third Committee" (PDF)۔ unmeetings.org۔ 29 October 2019۔ 20 نومبر 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2022 
  23. "Joint Statement, Delivered by UK Rep to UN, on Xinjiang at the Third Committee Dialogue of the Committee for the Elimination of Racial Discrimination" (بزبان انگریزی)۔ United States Mission to the United Nations۔ 2019-10-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2020 
  24. Zachary Basu (8 October 2020)۔ "More countries join condemnation of China over Xinjiang abuses"۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2020