شیخ نور الدین ولی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ نور الدین نورانی (چرار شریف) بٹکوٹ پہلگام جموں و کشمیر کے بڑے ادیب، شاعر ،عارف اور صوفی ہیں۔

ولادت[ترمیم]

نور الدین ولی آٹھویں صدی ہجری 774ھ مطابق 1377ء میں ان کی ولادت موضع کیموہ گاؤں ضلع اسلام آباد ہوئی ان کی والدہ محترمہ صدرہ ماجی ااور والد بابا سالار الدین ہیں یہ دونوں ایک صوفی بزرگ یاسمین رشی کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک وہاں مشہور مجذوبہ للہ عارفہ بھی تشریف لائیں جن کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پھول تھا یاسمین رشی نے وہ پھول لے کر صدرہ ماجی کو دیا اور فرمایا اسے سونگھ لو تو تمھارے بطن سے ایک برگزیدہ بچہ پیدا ہو گا۔ اس برگزیدہ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سید علی ہمدانی نے بھی دی تھی۔

القابات[ترمیم]

انھیں علمدار کشمیر اور نندہ رشی اور شیخ العالم کے القابات سے یاد کرتے ہیں۔

روحانی پیشوا[ترمیم]

انھیں کشمیریوں کے بہت بڑے روحانی پیشوا کا مقام حاصل ہے۔ آپ اپنے زمانے کے معروف صوفی بزرگ تھے اسی لیے انھیں شیخ العالم کے خطاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی تبلیغ اسلام وشریعت میں گراں قدر خدمات ہیں۔ حضرت شیخ کی باقاعدہ تربیت نہ ہو سکی لیکن آپ کو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے خصوصی فضل سے علم لدنی عطا کیا۔

شاعری[ترمیم]

نور الدین ولی کشمیر زبان کے پہلے نامور اور عظیم شاعر ہیں۔ آپ کا کلام عارفانہ ،مبلغانہ ،واعظانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس توحید پرستی اور حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے۔ اُن کے کلام کو آج بھی لوگ کاشر قرآن کے نام سے پکارتے ہیں۔ صدیاں گذر نے کے بعد لوگ آپ کا کلام روحانی محفلوں ،مسجدوں ،اسکولوں ،کھیتوں اور دیگر جگہوں پر بڑی عقیدت کے ساتھ جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں کیونکہ آپ کاکلام قرآن و سُنت کا ماحصل ،نچوڑ اور خمیر ہے۔ ان کی وفات کے کوئی ایک سواسی سال بعد بابا نصیب الدین غازی نے ایک کتاب ”ریشی نامہ“ تصنیف کی۔ ان کے کلام اور ان کی تعلیمات وہدایات پر محققین نے گراں قدر کام کیا ہے۔ رشی ناصر آپ کی صوفیانہ تعلیمات پر مبنی منظوم تصنیف ہے۔

وفات[ترمیم]

نویں صدی ہجری 837ھ مطابق 1438ء میں وفات پائی،آپ کا مزار چرار شریف میں مرجع خلائق ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]