صارف:ھفت روزہ اھل حدیث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ لاہور (اردو) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا ترجمان اخبار ہے۔ پاکستان میں مجلہ ہذا کی اشاعت 51 سال سے بلا تعطل جاری وساری ہے۔ (والحمد للہ) مجلہ ہذا مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے جاری کردہ ہفت روزہ ’’اخبار اہل حدیث‘‘ کا ہی ایک تسلسل ہے۔ مولانا مرحوم کی نگرانی میں مجلہ مذکور کی اشاعت مسلسل چوالیس سال تک جاری رہی۔ ان کی نگرانی میں مجلہ کی آخری اشاعت 3 اگست 1947ء کوئی ہوئی بعد میں حالات کی بوجوہ اشاعت جاری نہ رہ سکی۔ جس کا دوبارہ اجراء مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے بانی رہنماؤں حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے فرمایا۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا ترجمان ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ اسلامی صحافت میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ بے شمار خوبیوں کا حامل جریدہ ہے‘حالات و واقعات کے عین مطابق جاندار اداریے اور متنوع قسم کے مضامین‘ اکابر اسلاف کے حالات زندگی‘ قائدین کے برمحل سیاسی بیانات‘ حمد و نعت‘ طب و صحت‘ جماعتی خبریں اس کے علاوہ اور بہت کچھ قارئین کو ہر ہفتے باقاعدگی سے پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فی الواقع یہ ایک مفید جریدہ ہے جو قیمتی معلومات اور جماعتی آواز قارئین تک پہنچاتا ہے۔

الحمد للہ! ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ اپنی دینی‘ جماعتی اور ملی خدمت کے پچاس برس مکمل کر کے 51 سال کی تکمیل کے قریب ہے۔ مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کی ترجمانی کے ساتھ مکمل طور پر مسلک اہل حدیث کا داعی ہے۔ جس کا نصب العین کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی دعوت وتبلیغ ہے۔

بحمد اللہ! مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ نے ہر دور میں اپنے نصب العین کی پاسداری کے ساتھ ساتھ حق وصداقت کا پرچار جاری رکھا اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ آپ اس تلخ حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ اس دور پر فتن میں جب کہ لوگ دین ومذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں کسی دینی‘ علمی اور اصلاحی پرچے کا مناسب معیار کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھنا ایک بار عظیم اور اہم ذمہ داری ہے۔ نیز جماعتوں کی زندگی میں اخبار کا بطور ترجمان اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ غیر اسلامی پرچوں کا بڑا دلدادہ ہے۔ ان کی خریداری کے لیے بڑی قیمت ادا کرنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ پھر ایسے رسائل کے لیے بڑے بڑے اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی مراعات مل جاتی ہیں مگر دینی رسائل ایسی سہولتوں اور مراعات سے تہی دامن ہوتے ہیں۔