عبد الرشید جھنگوی
عبد الرشید جھنگوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 فروری 1941ء ضلع جھنگ |
تاریخ وفات | 16 جون 2011ء (70 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد سردار احمد قادری |
پیشہ | عالم |
درستی - ترمیم |
محمد عبد الرشید جھنگوی اہلسنت کے بڑے عالم دین اور مدرس تھے
پیدائش
[ترمیم]ابوالضیاء محمد عبد الرشید بن حکیم قطب الدین ابن مولوی احمد بخش 13؍جمادی الاولیٰ 1338ھ/3؍فروری 1941 ء میں چک 233ضلع جھنگ کے ایک عظیم علمی گھرانے میں تولد ہوئے۔
آپ کے والد محمد قطب الدین (م5 ربیع الثانی1379ھ/ 29؍اکتوبر 1959ء) بہت بڑے مناظر، منفرد انشاء پرداز، صاحبِ قلم اور کامل طبیب تھے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام اور مسلکِ اہل سنّت و جماعت کے تحفظ اور اشاعتِ دین میں بسر کی۔[1]
تعلیم و تربیت
[ترمیم]چونکہ مولانا عبد الرشید کے والد ماجد خود ایک جلیل فاضل تھے، اس لیے آپ نے ابتدائی کتب درسِ نظامی کافیہ تک اپنے والد محترم کے پاس پڑھیں۔ ایک سال مدسہ ریاض الاسلام (جھنگ) میں مولانا غلام فرید قریشی سے اکتسابِ فیض کیا۔ علاوہ ازیں جامعہ محمدیہ جھنگ اور اوچھالہ تحصیل خوشاب (ضلع سرگودھا) میں بھی مولانا احمد شاہ اور مولانا قطب الدین (آپ کے والد نہیں) سے بھی پڑھتے رہے۔
کتب احادیث کا درس لینے کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے اور محدثِ اعظم پاکستان محمد سرار احمد سے دورۂ حدیث کرنے کے بعد 1945ء میں سندِ فراغت و دستارِ فضیلت حاصل کی۔
تدریس
[ترمیم]آپ نے فراغت پاتے ہی تدریسی زندگی کا آغاز فرمایا، چودہ سال تک دار العلوم نقشبندیہ جماعتیہ علی پور شریف (ضلع سیالکوٹ) میں پڑھاتے رہے۔ ایک سال 1958ء کو جامعہ رضویہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کی موجودگی میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض سر انجام دیے۔
1959ء میں آپ کے والد مولانا محمد قطب الدین جھنگوی کا انتقال ہو گیا، جس کی بنا پر آپ کو گھر آنا پڑا۔ جنوری 1960ء میں آپ نے اپنے والد مکرم کی طرف نسبت کرتے ہوئے جامعہ قطبیہ رضویہ کے نام سے ایک دار العلوم قائم کیا اور اس کا انتظام و انصرام (اور تدریس بھی) اپنے ذمہ لیا۔
1972ء سے آپ سنی رضوی جامع مسجد فیصل آباد میں خطابت کے فرائض اسرانجام دے رہے ہیں۔
اہلِ باطل سے مناظرے کی قوت آپ کو اللہ تعالیٰ نے وراثتاً عطا فرمائی ہے، چنانچہ آپ نے شیعہ مکتب فکر کے بہت بڑے مناظر اسماعیل کے تلمیذ تاج حیدری کو موضع سو ہادہ میں مسئلہ خلافت پر مناظرہ کرکے شکست دی۔
اسی طرح اسماعیل کے دیگر شاگردوں سے جامعہ رضویہ میں مسئلہ ماتم پر مناظرہ ہوا اور آپ نے دندان شکن جواب دے کر ان کو مبہوت کیا۔
آپ نے روافض کے ردّ میں کچھ مضامین بھی تحریر کیے جو ابھی تک مسودہ کی شکل میں ہیں اور زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہو سکے۔
بیعت
[ترمیم]آپ کو محدثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد سے شرف بیعت حاصل ہے۔[2]
وفات
[ترمیم]16 جون 2011ء میں وفات ہوئی