عطیہ خلیل عرب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اردو، فارسی اور عربی زبان کی شاعرہ، ادیبہ اور عالمہ

پیدائش[ترمیم]

آپ 27 دسمبر 1935ء کو لکھنو (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔آپ کے والد علامہ خلیل بن محمد عرب ،عربی زبان کے مستند عالم تھے۔آپ علامہ خلیل عرب کی سب سے چھوٹی بیٹی اور معروف عالم محمد ابن خلیل عرب ، معروف مصنفہ رقیہ خلیل عرب کی بہن تھیں ۔

تعلیم[ترمیم]

پانچ سال کی عمر میں والدہ سے ناظرہ قرآن ختم کر لینے کے بعد آپ نے اپنے والد سے قرآن و حدیث اور عربی زبان و ادب کی تعلیم لینا شروع کی ۔ قیام پاکستان کے بعد 13 ، سال کی عمر میں خاندان کے ہمراہ کراچی آ گئیں ۔

تین بچوں کے ہوتے ہوئے عطیہ نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ میٹر ک ،ایف اے اور بی اے آپ نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا، جامعہ کراچی سے ایم اے عربی کیا پھر پی ایچ ڈی بھی یہاں سے کی،

شادی[ترمیم]

آپ کی پہلی شادی افتخار عظیمی (شاعر) سے ہوئی جن سے آپ کی بیٹی نائلہ جعفری (ڈراما نگار) پیدا ہوئی مگر افتخار عظیمی سے زیادہ دیر آپ کا نباہ نہ ہو سکا۔ عطیہ خلیل عرب کی دوسری شادی سید محمد اویس سے ہوئی جو کراچی میں ایڈیشنل کمشنر تھے ۔ سید محمد اویس سے آپ کے دو بیٹے عمران اویس اور حسان اویس پیدا ہوئے ۔

ملازمت[ترمیم]

دوران تعلیم (18 سال کی عمر میں) ریڈیو پاکستان کراچی کی عربی سروس میں کام کرنے لگیں اور 12 سال تک یہ خدمت انجام دیتی رہیں۔ آپ عربی سروس کی پروگرام مینیجر بھی رہیں ۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ کی تقاریر نشر ہوتی رہیں اور آپ نے پی ٹی وی پر بحیثیت میزبان بہت سی علمی شخصیات کے انٹرویوز بھی ریکارڈ کرائے ۔ جامعہ کراچی سے ایم اے عربی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور وہیں بحیثیت لیکچرر اسلامی علوم تعینات ہو گئیں ۔ بعد ازاں سعودی عرب چلی گئیں اور وہاں درس وتدریس سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تحقیقی مقالے پر بھی کام کرتی رہیں۔آپ نے سعودی عرب کے علاوہ مصر ، شام ،اردن اور انگلینڈ کے مطالعاتی دورے بھی کیے۔آپ کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا۔"Role of women in ancient arabic poetry before Islam" سعودی عرب سے واپسی پر جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور اپنے بھائی محمد ابن خلیل عرب اور اپنی بڑی بہن رقیہ خلیل عرب کی طرح عربی زبان پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ جامعہ کراچی میں طویل عرصہ پڑھاتی رہیں اورشعبہ عربی جامعہ کراچی کی سربراہ کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔آپ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں حجرہ کمیٹی کی ممبر بھی رہیں۔جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد 2004 میں دوبئی چلی گئیں۔[1]

تصانیف[ترمیم]

1۔ محمد الرسول اللہ (توفیق الحکیم کی کتاب کا اردو ترجمہ)

2۔راشدالمکتوم کی کتاب پر تبصرہ (عربی زبان میں)

3۔المضلیات (پہلی صدی ہجری کی عربی شاعری کا تحقیقی جائزہ)

4۔سایہ ہے کہ تم ہو (شعری مجموعہ)

وفات[ترمیم]

آپ نے 4 جنوری 2016 کودبئی میں وفات [2] پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔آپ نے کئی علمی موضوعات پر قلم اٹھایا اور کتب تصنیف کیں۔آپ نے پہلا مضمون 13 سال کی عمر میں لکھا جو سید سلمان ندوی کے رسالے " مستقبل " میں شائع ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی
  2. "عطیہ عرب رحلت ، جنگ"