لال حویلی
لال حویلی: راولپنڈی پنجاب پاکستان کی ایک صدی پُرانی تاریخی عمارت ہے۔
داستان محبت
[ترمیم]راولپنڈی میں سہگل حویلی کی مرکزی عمارت، جو اب لال حویلی کے نام سے مشہور ہے، شہر کے بالکل وسط میں بوہڑ بازار میں ایک سو سال سے زائد زیادہ عرصے سے کھڑی ہے۔کبھی یہ حویلی محبت کے علامت ہوا کرتی تھی جو آج کل عوامی مسلم لیگ کا پبلک سیکرٹریٹ ہے اور پارٹی کے سربراہ و وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید احمد کی ملکیت بتائی جاتی ہے اور سیاسی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ اس حویلی کو شاہ راج سہگل نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک جواں سال مسلم رقاصہ باندھ بائی کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مشہور ہے کہ سہگل جو جہلم کے ایک امیر کبیر ہندو خاندان سے تعلق رکھتا تھا سیالکوٹ کی اس رقاصہ سے ایک شادی کی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ پہلی ہی نظر میں سہگل باندھ بائی کو دل دے بیٹھا اور اس کو شادی پر آمادہ کر لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان دونوں کی شادی ہو گئی اور سہگل باندھ بائی کو سیالکوٹ سے راولپنڈی لے آیا اور اس کے لیے ایک حویلی تعمیر کروا ئی۔
تاریخی حیثیت
[ترمیم]راولپنڈی شہر میں اس سے قبل ایسی کوئی عمارت نہ تھی۔ اس عمارت پر لکڑی، پیتل، چاندی اور دیگر دھاتوں کا استعمال کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس عمارت میں ایک کیمیائی لکڑی کا استعمال کیا گیا اور شہر میں یہ عمارت اپنی مثال آپ تھی۔عمارت دو حصوں پر مشتمل تھی جس کا ایک حصہ مردوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ مرکزی اپارٹمنٹ اور پیچھے سے ایک حصہ خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔حویلی میں سہگل اور باندھ بائی کے چیمبروں کو اعلیٰ پودوں اور پھولوں سے مزین کیا گیا تھا جو بوہڑ بازار میں کھلے بازاروں سے منسلک تھے۔ بھاندھ بائی نے لال حویلی میں منتقل ہونے کے بعد رقص چھوڑ دیا تھا۔راج سہگل نے حویلی کے اندر باندھ بائی کے لیے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جبکہ اپنی عبادت کے لیے ایک مندر تعمیر کرایا تھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ حویلی ایک مہاجر کشمیری خاندان کو الاٹ کی گئی اور شیخ رشید کے بقول اس کو ان کے خاندان نے پانچ لاکھ روپے میں خرید لیا تھا۔شیخ رشید احمد کے بقول حویلی 1985ء سے ان کی ملکیت اور۔سیاسی مرکز ہے [1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 14 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2019