محمد جہانگیر وارثی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


محمد جہانگیر وارثی
معلومات شخصیت
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت مشی گن یونیورسٹی ،  جامعہ واشنگٹن، سینٹ لوئس   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پروفیسر محمد جہانگیر وارثی ضلع دربھنگہ، بلاک کوشیشور استھان کے سیلاب زدہ چھوٹے سے گائوں ’’بَرّا‘‘ میں متوسط کاشتکار اور پرائمری ٹیچر الحاج محمد اظہار الحق کے یہاں پیدا ہوئے۔ گائوں میں رہ کر ہی اسکولی تعلیم 1985ء میں مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ غیر معروف علم اللسان میں دلچسپی لی۔ بیچلر کورس تک امتیازی پوزیشن اور ماسٹر ڈگری میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1996ء میں سنٹر فار ڈیولپمنٹ آف اڈوانس کمپیوٹنگ، پونے کے مشین ٹرانسلیشن پروجیکٹ پر کام کرکے اپنے تجربے کو صیقل کیا۔ 1998ء میں ’’سائیکو لنگوئسٹک‘‘ کے موضوع پر پی ایچ۔ڈی مکمل کی اور بطور ماہر لسانیات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی سے باقاعدہ وابستہ ہو گئے۔ بعہدہ ریسرچ اسسٹنٹ/ کوآرڈنیٹر، مدارس کے لیے کمپیوٹر کورس کا نصاب تیار کرنے میں اپنی استعداد کا نمایاں مظاہرہ کیا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی سے اردو زبان کو مربوط کرنے میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ اس موضوع پر 1999ء میں ’’ڈپلوما اِن کمپیوٹر اپیلی کیشن اینڈ ملٹی لنگول ڈی۔ ٹی۔پی‘‘ اور 2000ء میں ’’اردو سافٹ ویئر‘‘ نامی دو کتابیں لکھیں۔ اول الذکر کتاب کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے ایوارڈ سے نوازا۔ مدارس اسلامیہ اور اردو اکادمیوں کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کمپیوٹر سنٹرس سے جوڑ نے میں اہم کردار ادا کیا اور اس واسطے سے ملک بھر میں اپنی سرگرمیوں کی بدولت مقتدر حلقے میں پہچان بنائی۔ یہی پہچان اُن کے مستقبل کی راہ نما بنی۔ خوب سے خوب ترکی جستجو جذبہ و عمل میں پیدا ہو جائے تو عملی زندگی کی جدوجہد کے آغاز میں ’’پرِ پرواز‘‘ کھل ہی جایا کرتا ہے مگر بقول راحت اندوری: پائوں پتھر کر کے چھوڑے گی اگر رک جایئے چلتے رہئے تو زمیں بھی ہم سفر ہو جائے گی سو ڈاکٹر وارثی گائوں سے پُر عزم چلے تو چلتے رہے، راستے بنتے گئے اور زمین بھی ان کی ہم سفر ہو گئی، کیونکہ انھیں جو مل گیا اسی کو اپنی جستجو کا حاصل مان کر ’’پرواز میں کوتاہی‘‘ نہیں کی، اپنے بازو نہیں سمیٹے۔ لہٰذا ستمبر 2001ء میں امریکا پرواز کر گئے۔ وہاں مشیگن یونیورسٹی کے شعبہ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر میںلکچرر کی جگہ مل گئی۔ کچھ ہی عرصے میں ان کا تدریسی عمل، لسانیاتی علم، تراجم کی مہارت، طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کرلینے کا ہنر اور ان کی فعالیت رنگ لائی۔ ان کی پوچھ ہونے لگی۔ 2002ء میں ایک پروجیکٹ کے لیے یونیورسٹی سے ’’فری مین فائونڈیشن گرانٹ‘‘مل گئی۔ امریکی اور یورپی رسائل میں تحقیقی مضامین آنے لگے۔ واشنگٹن ڈی۔سی کے نیشنل فارن لینگویج سنٹر نے بطور ’’سبجکٹ ایکسپرٹ ‘‘ ان کی عارضی خدمت حاصل کی۔ 2003ء میں ان کی کتاب ’’لینگویج اینڈ کمیونیکیشن‘‘ منظر عام پر آگئی، جو خاصے چرچے میں رہی۔ ان کی پرواز کو اوراڑان ملی۔ اگست 2003ء میں مشیگن یونیورسٹی سے کیلفورنیا یونیورسٹی، برکلے چلے گئے۔ اسی سال اپنے ملک ہندوستان کی انڈین اکیڈمی آف سوشل سائنس نے بھی ان کی تحقیقی اور لسانیاتی مہارت کا فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی ریسرچ کمیٹی برائے لسانیات کا سہ سالہ ممبر بنا لیا۔ انھیں دیش، بدیش میں خصوصی لکچرس کے لیے مدعو کیا جانے لگا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں امریکیوں کو اردو سیکھنے کی طرف راغب کرنے کی کاوشیں کئی سطوں پر کیں اور اردو کے سفیر بن کر ابھرے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی نے انھیں قابل تحسین تدریسی خدمات کے لیے 2005ء میں ’’Unsung Hero‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے،

2006ء میں واشنگٹن یونیورسٹی، سینٹ لوئیس کے شعبہ ’’ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘‘ سے وابستہ ہو گئے اور یہاں 2016ء تک رہے۔ اس دور میں ان کی جہد مسلسل خوب رنگ لائی۔ موصوف لیاقت پر مبنی استفادہ کا موقع جس حال میں ملے چھوڑتے نہیں اور اس کی ترغیب نئی نسل کو بھی دینے سے کبھی نہیں چوکے۔ اسی روش نے انھیں انسپائریشنل شخصیت بنایا اور ان کی قدر بڑھائی۔ انڈین انٹرنیشنل فرینڈشپ سوسائٹی نے انھیں 2007ء کے ’’گلوری آف انڈیا ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ ان کی درج ذیل تحقیقی کتابیں اور کئی مقالات نے خوب توجہ بٹوری:

1. Linguistic Dynamism in South Asia, Gyan Publications, New Delhi-2008

2. Evaluation of Media Reach and Effectiveness: A Linguistic Exercise, Lincom Europa, Germany, 2009.

3. Mithlanchal Urdu: The Newly Discovered Dialect of Bihar, Lincom Europa, Germany, 2014.

4. Zaban-o-Tarseel, New Delhi, 2015.

امیریکیوں کو سہل اسلوب میں ثانوی سطح تک اردو سیکھانے کے لیے اپنے شعبہ سے خط نستعلیق فونٹ پر مبنی ویب گاہ 13؍ اپریل 2011ء کو جاری کیا۔ جو اپنی نوعیت کی پہلی اردو ویب گاہ قرار پائی اور جلد مقبولیت کو چھو گئی۔واشنگٹن یونیورسٹی نے 2011-12ء کے گراں قدر ’’جیمس ای۔ میکلیاڈ فیکلٹی ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا۔ پھر تو بطور ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات ان کی منفرد شناخت اور شہرت کو پَر لگ گئے۔ 2013ء میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، نئی دہلی نے چیف الیکشن کمیشنر ایچ۔ایس برہما اور کرکٹ اسٹار شری کانت کے ہاتھوں ’’انسپائریشنل لیڈر شپ ایوارڈ‘‘ عطا کیا اسی سال بہار سرکار نے ’’ریاستی تعلیمی مشاورتی کمیٹی‘‘ کا رکن نامزد کیا اور 9 اگست 2015ء کو وزیر اعلیٰ نیش کمار نے انھیں ’’پرواسی بہاری سمان پرسکار‘‘ سے نوازا۔