میاں نور احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا میاں نور احمد سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔


میاں نور احمد
ذاتی
پیدائش(1267ھ بمطابق 1851ء)
وفات
مذہباسلام
والدین
  • میاں فضل احمد (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامغور غشتی چھچھ اٹک
پیشروشمس العارفین
جانشینمیاں عبد الحق


ولادت[ترمیم]

میاں نور احمد کی ولادت 1267ھ بمطابق 1851ء کو غور غشی چھچھ ضلع اٹک میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام میاں فضل احمد تھا۔ آپ کا تعلق قریش خاندان سے تھا۔

تعلیم[ترمیم]

میاں نور احمد نے ابتدائی کتب والد ماجد سے پڑھیں۔ اس کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا۔ طب و حکمت کے شغل میں مصروف رہتے تھے۔ فارسی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ جب فیضی میاں بیمار ہوئے تو آپ کو بہت فکر لاحق ہو گئی کہ اگر فیضی میاں فوت ہو گئے تو ہمارا علمی گھرانہ تباہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالی نے فیضی میاں کو صحت عطا کی۔ فیضی میاں بہت بڑے عالم تھے۔ چنانچہ ان کے پاس پڑھنا شروع کیا اور دو تین سالوں میں عمدہ کتابوں پر عبور حاصل کر لیا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

میاں نور احمد خواجہ شمس العارفین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ ریاضت و مجاہدے اور منازل سلوک طے کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا۔

شیخ سے عقیدت[ترمیم]

مولانا میاں نور احمد کو اپنے مرشد کامل سے بے حد محبت اور ارادت تھی۔ ہر سال سیال شریف جاتے تھے اور یہ سفر پاپیادہ طے کرتے تھے۔

درس و تدریس[ترمیم]

میاں نور احمد اپنے علوم متداولہ سے فراغت کے بعد غور غشتوی میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔

تلامذہ[ترمیم]

میاں نور احمد کے بے شمار شاگردوں میں سے چند نام یہ ہیں جو علمی دنیا میں بہت مشہور ہوئے۔

  1. مولانا غلام خان ساکن بره زئی ضلع اٹک
  2. مولانا عبد القدیر ساکن بہبودی ضلع اٹک
  3. مولانا سمندر ساکن بہبودی ضلع اٹک
  4. مولانا فضل احمد ساکن غازی پور ضلع اٹک
  5. مولانا سید حبیب شاه قاضی پوری ضلع اٹک
  6. مولانا شاہ منصور المعروف مولوی منطقی ضلع مردان
  7. مولانا عبد الرحمن سلیم خانوی

علمی مقام[ترمیم]

مولانا میاں نور احمد غور غشتوی بہت بڑے عالم و فاضل استاذ العلماء اور صاحببولایت تھے۔ منطق و نحو میں گویا بوعلی سینا اور سیبویہ تھے۔

معاصرین[ترمیم]

معاصرین میں سے میاں نور احمد کے پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے خصومی مراسم تھے۔ علاقہ چھچھ کے علما و مشایخ برادران طریقت سے بھی گہرے مراسم تھے جن میں مولانا سید امیر شاہ گیلانی نور پوری، قاضی فیض احمد چھاچھی اور میر احمد شاہ نواحی شمس آباد وغیرہ شامل ہیں۔

مریدین[ترمیم]

میاں نور احمد کو لوگ بہت مانتے تھے۔ غور غشتوی علاقہ کے تمام لوگ آپ کے معتقد تھے۔ بڑے بڑے روسا اور امرا آپ کے حلقہ مریدین میں شامل تھے۔ مثلاً

  1. سردار محمد حیات خان والد ماجد سکندر حیات خان وزیر اعظم و گورنر پنجاب رئیس اعظم واہ ضلع راولپنڈی
  2. میرداد خان آف ملک مالہ ضلع اٹک

سیرت[ترمیم]

میاں نور احمد مجمع الکمالات بزرگ تھے۔ آپ خلوت پسند تھے۔ غورغشتوی میں محلہ باطورے میں ایک مسجد میں رہتے تھے جو گھر سے تقریبا دو فرلانگ کے فاصلے پر تھی۔ ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ نہایت ذہین و فطین تھے۔ آپ بہت بڑے حکیم تھے۔ نہایت ہی با اخلاق انسان تھے۔ بہت سخی تھے۔ اپنے شیخ کے عاشق تھے۔ اپنے دو یتیم بھتیجوں کی پرورش بوجود ان کی جائداد ہونے کے اپنے مال سے کی جن کے نام مولانا عبد الحئی اور علامہ میاں عبد الحق ہیں اور ابتدائی تعلیم بھی خود ہی دی۔ حدیث شریف کے سوا باقی علوم و فنون میں فارغ تھے۔ آپ بہت ذہین اور بڑے عالم تھے۔

وصال[ترمیم]

میاں نور احمد کا وصال غور غشتوی میں ہوا۔ آپ کا مزار غور غشتوی کے قبرستان میں ایک چار دیواری میں مرجع خلائق ہے۔ مولانا میاں نور احمد کا جانشین مولانا میاں عبد الحق ہوئے جو آپ کے بھتیجے تھے لیکن یتیم ہو جانے کی وجہ سے پرورش آپ نے کی تھی۔

اولاد[ترمیم]

مولانا میاں نور احمد کا صرف ایک بیٹا تھا۔

  1. میاں عبد الرحمن

میاں صاحب ایک زندہ اور چلتے پھرتے ولی تھے۔ مسلمان تو مسلمان ہندو بھی ان کی بزرگی کے قائل تھے۔ خواجہ سید مہر علی شاہ گولڑوی کے مرید تھے۔ لاولد فوت ہو گئے تھے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 510 تا 515