نسیم علی پوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نسیم علی پوری
ادیب
پیدائشی نامغلام اکبر خان گبول
قلمی نامنسیم علی پوری
تخلصنسیم علی پوری
ولادت1945ء علی پور
ابتدامظفر گڑھ، پاکستان
وفاتمظفر گڑھ (پنجاب)
اصناف ادبشاعری
ذیلی اصنافغزل، نعت
ویب سائٹ/ آفیشل ویب گاہ

اصل نام غلام اکبر خان گبول ہے لیکن تحصیل علی پور کی نسبت سے نسیمؔ علی پوری کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ نسیمؔ علی پوری 1945ء میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے ایک چھوٹے سے قصبے حسن والا میں پیدا ہوئے۔ وہیں پلے بڑھے اور تا حال ان کے خاندان کا مسکن حسن والا ہی ہے۔ غلام اکبر خان نے اُس دَور اور وقت کی ضرورت کے مطابق مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ اُن کے مزید تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ تعلیمی رُجحان کا نہ ہونا،پسماندگی اور نظر کا کمزور ہونا تھا۔ اُن کی بصارت بچپن سے کمزور تھی جس سے پڑھنے لکھنے میں دُشواری پیش آئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں نے آج تک کھیتی باڑی بھی اِس لیے نہیں کی کہ میری نظر بچپن سے کمزور تھی۔[1]

غلام اکبر نسیم ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہوئے شاعری سے اپنا رشتہ قائم کیا جو اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ اِن مضافات میں اہم شعرا کرام موجود ہیں لیکن اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا یہی وجہ ہے کہ نسیمؔ علی پوری جیسے معروف شاعر پہ توجہ نہ دینے سے اُن کی کوئی کتاب منظر عام پر نہ آسکی۔ بڑی شاعری کاتعلق ضروری نہیں کہ بڑے علاقے سے ہو بلکہ ہمارے مضافات میں غلام اکبر نسیمؔ جیسے کئی شعرا ملیں گے جن کی شاعری کووہ اہمیت نہیں ملی جو اُن کا حق تھا۔ اِس کی ایک وجہ اُن کے معاشی مسائل اور پسماندگی بھی ہے ۔

غلام اکبر خان کا تعلق گبول قبیلہ کے ایک مذہبی خاندان سے تھا۔ یہ ایک ایسا خاندان ہے جس کے بزرگوں میں قدرت کی دی ہوئی بے پناہ صلاحیتیں تھیں، مگر آہستہ آہستہ نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم سے کنارہ کشی کر لی۔

غلام اکبر خان کے خاندان میں اُن سے پہلے بھی شعر و سخن کی روایت ملتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ میرے دادا جان مولانا غلام محمد خان گبول جو سرائیکی کے شاعر تھے اُن کی ایک کتاب’’نظارے‘‘ کا قلمی نسخہ موجود تھا جس میں متفرق کلام شامل تھا۔ اِس کے علاوہ اُن کا بہت سارا کلام مختلف لوگوں اور دوستوں کے ہاتھوں ضائع ہو گیا۔ اُن کی شاعری کا رنگ زیادہ تر صوفیانہ تھا اور وہ خواجہ غلام فریدؒ کے ہم عصر تھے اور اُن سے بے حد متاثر بھی۔

اعزازت[ترمیم]

2006ء میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہء اردو نے ایم-اے اردو کی ڈگری کے لیے ان کی شاعری پر خصوصی تحقیقی مقالہ بعنوان نسیم علی پوری کے اُردو کلیات کی تدوین مع مقدمہ بھی مرتب کیا ہے۔[2]

ان کا ایک اہم معرکہ بزم فیض میں بیس سال تک کام کرنا ہے۔ وہ صوفی دلچسپ کی بزم فیض میں بیس سال تک شریک ہوتے رہے مگر پھر نظر کی کمزوری آڑے آ گئی۔

اَساتذہ کرام[ترمیم]

نسیمؔ علی پوری شاعری کے حوالے سے دو شعرا کرام کو اپنا استاد تصور کرتے ہیں۔ اردو میں فقیر اللہ بخش جو کشفی ملتانی کے نام سے شہرت یافتہ ہیں۔ استاد فقیر اللہ بخش کشفی مظفرگڑھ سے ایک ہفت روزہ اخباربشارت بھی نکالتے تھے۔

بقول نسیم علی پوری :

میرے استاد فقیر اللہ بخش کشفی کی وجہ سے میری شاعری میں پختگی آئی، وہ باتیں کرتے تو میں غور سے سنتا مگر کبھی بھی انہوں نے میری شاعری کی اصلاح نہیں کی۔

دوسرے استاد سرائیکی کے مشہور شاعر جانباز جتوئی ہیں جن سے نسیم علی پوری نے شاعری کی اصلاح کروائی۔

بقول نسیم علی پوری :

استاد جانباز خان جتوئی سرائیکی کے بہت اچھے شاعر تھے میں ان سے بہت متاثر ہوں۔

نسیم صاحب کے اردو کے پسندیدہ شعرا میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، محسن نقوی، احمد فراز، میر انیس، میر دبیر، علامہ اقبال، کشفی ملتانی، ارشد ملتانی اور ابوالاثر حفیظ جالندھری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پسندیدہ گلوکاروں میں استاد مہدی حسن، لتا منگیشکر اور نور جہاں شامل ہیں۔

حلقۂ احباب[ترمیم]

نسیم علی پوری کے دوستوں میں زیادہ تر سرائیکی شعراء کرام شامل تھے جن میں صوفی فیض محمد دلچسپ جندو پیر کمال،تحصیل لیاقت پور کے رہنے والے تھے۔ وہ بھی جانباز خان جتوئی کے شاگرد اور سرائیکی شاعر تھے۔ اقبال سوکڑی تونسہ شریف کے رہنے والے سرائیکی شاعر ہیں، سرور خان کربلائی جو جانباز خان جتوئی کے پہلے شاگرد تھے، طالب حسین غریب جن کی ایک کتاب نظارے کی کتابت اور دیباچہ دونوں انھوں نے لکھے تھے اور عطا محمد کوثر جو جھگی والا کے رہائشی تھے، شامل ہیں۔

شاگرد[ترمیم]

نسیم علی پوری کہتے تھے:

میرے شاگردوں میں سید اوصاف علی نقوی بہت اچھے شاعر ہیں، جو اردو کے شاعر ہیں لیکن سرائیکی شاعری بھی کرتے ہیں۔ الطاف علی شاہ ذہین واسطی بھی بہت اچھے شاعر ہیں اور ان کے والد فاتح واسطی اردو کے بہت اچھے شاعر تھے۔

وہ مزید کہتے ہیں:

اوصاف علی نقوی میرا ایسا شاگرد ہے جو میرے سب سے زیادہ قریب رہا، غزل اور نظم تقریباً ہر صنف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

آغاز شاعری[ترمیم]

غلام اکبر خان نے با قاعدہ طور پر شاعری کا آغاز 1965ء میں کیا، اُن کا بہت سارا ایسا کلام بھی ہے جو ضائع ہو چکا ہے مگر 1970ء میں اُنھوں نے اپنا کلام اکٹھا کرنے کی طرف توجہ دی اور اَپنی ذاتی ڈائریوں میں اپنے کلام کو لکھتے گئے۔ وہ اپنے اردو مجموعہ کلام کوآبشار اور آبگینہ کے نام سے شائع کروانا چاہتے تھے مگر حالات کے پیشِ نظر وہ اپنا کلام شائع نہ کروا سکے۔

اُن کی شاعری میں غزل، مذہبی موضوعات، قومی، ملی شاعری،سماجی معاشرتی سیاسی اور کچھ متفرق موضوعات کے علاوہ ان کی شاعری میں رومان کی جھلک بھی ملتی ہے مگر ان کے بقول :

غزل میں میری شاعری سیاسی و سماجی حالات کا احاطہ کرتی ہے۔

نسیم صاحب ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اردو اور سرائیکی کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا اور علی پور میں ان کا شمار سینئر ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ سٹیج کے بہترین شاعر تھے۔ نسیم علی پوری فطری لحاظ سے اردو کے شاعر ہیں، سرائیکی چونکہ ان کی مادری زبان ہے اس لیے وہ سرائیکی کے بھی بہت اچھے شاع رہیں۔ بہت سے رسائل میں اُن کا کلام چھپا۔ عطااللہ نیازی ،نسیم اختر، سخاوت حسین، صغیر سانول ان کی شاعری گا چکے ہیں۔ انھوں نے میر انیس کے مرثیوں اور علامہ اقبال کی نظموں و قطعات کا سرائیکی میں منظوم ترجمہ بھی کیا ۔[3]

نمونہ کلام[ترمیم]

اُردو غزل (1)

جو لمحہ میرے تخیُّل کی حد میں آئے گا

مجھے یقیں ہے قلم کی بھی زد میں آئے گا!

کہاں کہاں سے ہٹاتے پھرو گے آئینے

وہ ایک عکس ہر اِک خال و خد میں آئے گا !

سمیٹ لوں گا می ں سَر سے تَمازتو ں کی رِدا

سمٹ کے سایہ بھی جب اپنے قَد میں آئے گا!

دُعا تو مانگ رہے ہو تم آندھیوں کی، مگر

تمھارا گھر بھی بگُولوں کی زد میں آئے گا!

جلا کے رکھنا لبوں پر ’’چراغِ اسم‘‘ سدا

تمھارے کام یہ ’’کُنجِ لحد‘‘ میں آئے گا!

سنبھل سنبھل کے بَرَتنا ہر ایک لفظ نسیمؔ

اگر وہ آج نہیں، کل سَنَد میں آئے گا! [4]

اُردو غزل (2)

غمِ جہان سلامت، مگر حقیقت ہے

کہ زندگی کو غمِ دل کی بھی ضرورت ہے

تمھارے بعد میں تنہا نہیں کہ میرے ساتھ

اَلم ہے، یاس ہے، تنہائیاں ہیں، حسرت ہے

نہیں، نہیں ! ترے تیرِ نظر کا جرم نہیں

مجھے ہی چشمِ فُسُوں گر سے کچھ عقیدت ہے

یہ بے رُخی، یہ تغافل، یہ خامشی توبہ !

نئی اَدا ہے جفا کی یا تری عادت ہے؟

تری نگاہ سے بچنا خطا سہی، لیکن

تری نگاہ میں آنا بھی اِک قیامت ہے

نسیمؔ ! کو ن یہ آیا ہے آج شام ڈھلے

کہ نور سا ہے فضا میں، ہوا میں نَکہت ہے [5]

سرائیکی غزل (1)

کہیں پئی ہے دلِ رنجور دیاں قسماں ودا کھاواں

میں خود مختار کیوں مجبور دیاں قسماں ودا کھاواں

میکوں خود حسن مرضی نال آپڑاں راز داں جوڑیے

میں کیوں جنت خریداں، حور دیاں قسماں ودا کھاواں

میڈا خود قلب کعبہ ہے، جِتھاں جلوے ہی جلوے ہِن

میں کیوں گولاں بہانے، طور دیاں قسماں ودا کھاواں

نظر منظور کیتے، میں چُنڑیے، دل کوں پسند آ گے

میں کیوں کہیں دے نظر منظور دیاں قسما ں ودا کھاواں

اَنا الحَق آکھ گن جو آکھ گن، میں زندگی چَہنداں

ودا پھاسیاں چڑھاں منصور دیاں قسماں ودا کھاواں

نسیم ؔ آخر کڈاھیں تاں کھیڈ دنیا دی ختم تھیسی

ہُنڑیں لا راز کھولاں، دُور دیاں قسماں ودا کھاواں [6]

سرائیکی رُباعی (2)

نہ میں کنوں کئی سوال بنڑ دے، نہ تئیں کنوں کئی جواب تھیندے

نہ جانڑ بجھ تے اے فیصلے ڈے، حجاب آخر حجاب تھیندے

میں ’’ بند بوتل‘‘ شراب پینداں، توں حیکوں واعظ حرام آہدیں

مہوڑ مر جے پسند کینے، پلا تاں بیٹھا ثواب تھیندے [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قابل خانی گبول، صفحہ 279 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور۔
  2. گبول قبیلہ کی ادبی شخصیات، صفحہ 311 ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔
  3. نسیم علی پوری کے اُردو کلیات کی تدوین مع مقدمہ ناشر: شعبہ اردو، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان (2006)۔
  4. گبول قبیلہ، صفحہ 314 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔
  5. گبول قبیلہ، صفحہ 317 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔
  6. گبول قبیلہ، صفحہ 315 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔
  7. گبول قبیلہ، صفحہ 316 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔

دیگر ماخذ[ترمیم]

  • مہماتِ بلوچستان، ضمیمہ اول از: کامل القادری ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ
  • بلوچ تاریخ کے آئینے میں از: مظہر علی خان لاشاری ناشر: علم و عرفان پبلشرز لاہور۔
  • پنجاب کی ذاتیں از: ڈینزل ابسٹن ترجمہ: یاسر جواد ناشر: بک ہوم، 26- مزنگ روڈ لاہور۔

بیرونی روابط[ترمیم]