احمد فراز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد فرازؔ
احمد فرازؔ، ٹورنٹو 2005ء
پیدائشسید احمد شاہ علی
12 جنوری 1931(1931-01-12)ء
کوہاٹ، خیبر پختونخوا، پاکستان
وفاتاگست 25، 2008(2008-80-25) (عمر  77 سال)
اسلام آباد، پاکستان
قلمی نامفرازؔ
پیشہاردو شاعر، لیکچرر
قومیتپاکستانی
نسلہندکووان سید
شہریتپاکستانی
تعلیمایم اے اردو، ایم اے فارسی
مادر علمیپشاور ماڈل اسکول
جامعہ پشاور
دور1950–2008
اصنافاردو غزل
موضوععشق ، تحریک مزاحمت
ادبی تحریکپروگریسو رائٹرز موومنٹ/ڈیموکریٹک موومنٹ
اہم اعزازاتہلال امتیاز
ستارہ امتیاز
نگار ایوارڈ
اولاد3 بیٹے: سعدی، شبلی فراز اور سرمد فراز
رشتہ دارسید محمد شاہ برق (والد)
سید مسعود کوثر (بھائی)

[1]جدید لہجے کے اردو شاعر۔

پیدائش[ترمیم]

احمد فراز ( یوم پیدائش 12 جنوری، 1931ء - یوم وفات 25 اگست، 2008ء) میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ' تھا۔

احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہو گیا۔

خاندان[ترمیم]

بیٹے:

دیگر رشتہ دار

تعلیم[ترمیم]

اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "" تنہا تنہا "" شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔

عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علاحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "" درد آشوب ""چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے " آدم جی ادبی ایوارڈ "" عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انھیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انھیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ 1989ء سے 1990ء چیرمین اکادمی پاکستان، 1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک "" نیشنل بک فاؤنڈیشن ""کے سربراہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انھیں "" نیشنل بک فاؤنڈیش "" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ ۔

احتجاجی روش[ترمیم]

احمد فراز جنھوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انھوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انھیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔

2004ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انھیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔

شعری مجموعے[ترمیم]

  • تنہا تنہا
  • دردِ آشوب
  • شب خون
  • نایافت
  • میرے خواب ریزہ ریزہ
  • بے آواز گلی کوچوں میں
  • نابینا شہر میں آئینہ
  • پسِ اندازِ موسم
  • سب آوازیں میری ہیں
  • خوابِ گُل پریشاں ہے
  • بودلک
  • غزل بہانہ کروں
  • جاناں جاناں
  • اے عشق جنوں پیشہ

اعزازات[ترمیم]

احمد فراز نے 1966ء میں "" آدم جی ادبی ایوارڈ "" اور 1990ء میں "" اباسین ایوارڈ "" حاصل کیا۔ 1988 ء میں انھیں بھارت میں "" فراق گورکھ پوری ایوارڈ "" سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انھیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جب کہ بھارت میں انھیں 1992ء میں ""ٹاٹا ایوارڈ "" ملا۔

2004ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انھیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا

انھوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "" احمد فراز کی غزل "" ہے۔ بہاولپور میں بھی "" احمد فراز۔ فن اور شخصیت "" کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی ،ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں

وفات[ترمیم]

25 اگست 2008ء کو احمد فراز اسلام آباد میں وفات پا گئے۔ احمد فراز اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں،

نمونہ کلام[ترمیم]

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتی
يہ خزینے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غمِ يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں، نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں ملیں

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گذر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی

تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں

میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا

تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں


یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں ،
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں

جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی روز یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں

مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے، یہ جانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے، یہ جانتا ہوں
مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ،
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول،
یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے، یہ سکھ کے نغمے ،
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت، تری جدائی میں
کٹ گئے روز و شب ترے ہیں

وہ تیرا شاعر، ترا مغنی،
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے

َ

شکوہَ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
َ

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
َیاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

َیونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. استشهاد فارغ (معاونت) 

بیرونی روابط[ترمیم]