مندرجات کا رخ کریں

کوہاٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شہر
ملکپاکستان
صوبہخیبر پختونخوا
حکومت
 • MNA (NA-14)Sheryar Afridi
 • MPA (PK-37 Kohat-1)Amjid Khan Afridi
 • MPA (PK-39 Kohat-3)Imtiaz Qureshi
 • MPA (PK-38 Kohat-2)Zia Ullah Bangash
بلندی489 میل (1,604 فٹ)
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
کالنگ کوڈ+92 922
قومی شاہراہیں این-55
این-80
یونین کونسلیں31
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع کوہاٹ کا محل وقوع

خیبر پختونخوا پاکستان کا ایک شہر جو ضلع کوہاٹ میں واقع ہے۔ کوہاٹ (انگریزی: Kohat) اپنے ضلعی صدر مقام کوہاٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ برِصغير کا ايک پرانا ضلع ہے جس کا ذکر بدھ مت کی قديم کتابوں ميں بھی ملتا ہے۔ عصرحاضر ميں بھی، پاکستان کی سب سے پرانی چھاؤنی، ائیربیس (جنگی اڈا زیر تعمیر)، گھنڈیالی اور تانڈا بند ، انڈس ہائی وے، فرینڈشپ ٹنل ، پاک فضائیہ اور سگنل تربیتی مرکز کی وجہ سے اس ضلع کو دفاعی اور جغرافیاعی لحاظ سے اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی سرحديں صوبہ پنجاب ، ضلع نوشہرہ ، ضلع ہنگو، ضلع اپر اورکزئی اور ضلع کرک سے ملتی ہیں۔ کوہاٹ شہر کے اندر جرما کے مقام پر ایک گورنمنٹ یونیورسٹی بھی قائم ہے۔ کوہاٹ شہر کی مشہور چیزوں میں یہاں کا مقامی امرود کا پھل ہے جو اپنے منفرد ذائقے کے لیے پورے ملک میں مشہور ہے۔

فصلیں اور اجناس

[ترمیم]

سارا سال رواں چشموں کی یہ سرزمین مختلف اجناس اور پھلوں کے لیے کافی زرخیز ہے۔ امرود کا پھل یہاں کی خصوصی پیدوار میں شامل ہے۔ کوھاٹ روایتی لحاظ سے ایک تجارتی مرکز ہے جو قبائلی علاقہ جات اور پنجاب کيلیے ايک اہم منڈی کی حيثيت رکھتا ہے۔ اکثریتی بنگش قبائل کے یہ محنتی، بہادر اور ذہین لوگ ملازمت، ذرائع آمدورفت، کاروبار اور دفاعی امور میں کافی ماہر ہیں۔ اردو کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔ کوہاٹ میں ہندکو اور پشتو زبان بولی جاتی ہے۔

تانڈا جھیل کوہاٹ
سیلاب میں تانڈا جھیل کوہاٹ

سید آدم بنوری اور حضرت حاجی بہادر بابا کا شمار روحانی شخصيات میں ہوتا ہے۔

آزادی کے ہیرو عجب خان آفریدی کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔

زبانیں

[ترمیم]

کوہاٹ میں بنیادی اور مقامی طور پر دو بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 1. پشتو کوہاٹ کی پہلی بڑی زبان ہے جو شہری علاقہ جنگل خیل میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ مغرب میں (محمدزئی سے رئیسان)، مشرق میں (توغ پایاں، پشتو گھنڈیالی، تولج)،جنوب میں (تپئی جرمااور مسلم آباد سے لے کر شکردرہ تک) اور شمال کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ افغان مہاجرین اور قبائلی لوگوں کے آمد سے حالیہ دہائیوں میں آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے بعد، پشتو زبان بولنے والے اکثریت میں ہیں۔

2. ہندکو تاریخی اعتبار سے یہ پنجابی زبان کی ایک شاخ ہے جو پوٹھواری اور سرائیکی زبانوں سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے کوہاٹ کے مقامی باشندگان آپسی بول چال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ زبان تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پشاور، ہری پور، ہزارہ، ایبٹ آباد اور مانسہرا کے علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ کوہاٹ کے شہری علاقوں کے علاوہ مغرب میں (شاہ پور، بڈھ اور جبی تک) جنوب میں (قمر ڈھنڈ، سورگل تک)، جنوب مشرق میں (خیرماتو، کوٹ، سیاب) اور مکمل مشرقی علاقوں (توغ،بلی ٹنگ سے خوش حال گڑھ) میں بولی جاتی ہے۔

اردو"' قومی زبان ہونے کی وجہ سے اردو میں بھی بات کی جاتی ہے اور سمجھی جاتی ہے۔ سرکاری کالونیوں کے علاوہ شہر میں بھی بعض گھرانوں میں بولی جاتی ہے۔ ایک طرح سے اردو یہاں کی تیسری بڑی زبان ہے۔

مرکزی نمایاں اقوام

[ترمیم]

کوہاٹ کی مرکزی نمایاں اقوام میں، پراچہ ,بنوری میانخیل ,گیلانی ، عزت خیل ،اعوان ,پراچہ نواب ،بنی خیل، سید ، گڑھی وال، شینواری, اورکم ابادی میں غیر نمایاں وغیر مقامی بنگش ,آفریدی اقوام کے لوگ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اورکزئی قوم کے بھی بہت سارے منتقل شدہ لوگ کوہاٹ کے مختلف علاقوں میں نو آباد ھو گئے

ہیں۔
ریلوے اسٹیشن 1900ء
تحصیل گیٹ 1919ء

ذرائع نقل و حمل

[ترمیم]

ریلوے

[ترمیم]

کوہاٹ ریلوے اسٹیشن اور ٹریک کی تعمیر کا کام 1897ء میں شروع ہو کر 1902ء میں مکمل ہوا۔

چھوٹی لائن جو کوہاٹ سے ٹل (براستہ ھنگو ) بچھائی گئی تھی وہ 1991ء سے بند ہو گئی ہے۔ اس ٹریک کی تو پٹڑی تک اکھاڑی جا چکی ہے۔

بڑی ریلوے لائن کوہاٹ سے راولپنڈی (براستہ جنڈ ) جاتی ہے۔ اس ٹریک پر مسافر گاڑی چلتی ہے جو 2013ء سے بند ہو گئی تھی۔ مگر اب 24 جنوری 2018 سے کوہاٹ کی نامور سماجی تنظیم "کاروانِ عمل کوہاٹ" کے صدر جناب سلیم الطاف ایڈووکیٹ کی تاریخ ساز جدوجہد اور بھر پور کاوشوں کی بدولت کوہاٹ ریل سروس پھر سے بحال کر دی گئی ہے جس سے نہ صرف کوہاٹ کی عوام بلکہ کوہاٹ ریلوے منافع بحش ریونیو پیدا کر کے پاکستان ریلوے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔


ہوائی اڈا

[ترمیم]

کوہاٹ میں برطانوی دور کا ایک ہوائی اڈا موجود ہے جو اس وقت کی برطانوی فوج کی نقل و حمل کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ہوائی اڈے کا کنٹرول آج بھی پاکستان ایئر فورس کے پاس ہے۔


سڑکیں

[ترمیم]
  • کوہاٹ اپنے چاروں اطراف سے سڑک کے ذریعے سے ملک کے باقی علاقوں سے جڑا ہوا ہے۔ انڈس ہائی وے(پشاور کراچی ہائی وے ) کی بدولت اس علاقے کی کافی ترقی ہوئی ہے۔ اس شاہراہ پر واقع ہوٹلز اور بس اسٹینڈ ز اور ان سے جڑے ہوئے کاموں کی وجہ سے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے۔ کوہاٹ یونیورسٹی کے پاس انڈس ہائی وے پر بہت سے کاروبار کھلے ہیں۔
  • " راولپنڈی روڈ پر بھی کافی ترقیاتی کام شروع ہیں خوش حال گڑھ کے مقام پر پل بھی مکمل ہو گیا ہے جس سے اس علاقے میں ترقی کے وسیع مواقع پیدا ہونے کی امید ہے اور یہی سڑک آگے پاڑہ چنار تک جانی ہے جس کا کوہاٹ ھنگو حصہ بھی مکمل ہونے والا ہے۔ جبکہ ٹل پاراچنار حصہ پہلے ہی مکمل ہے۔ ھنگو پھاٹک کے مقام سے اسی سڑک کو ھنگو روڈ کہا جاتا ہے۔ یہ پورا روڈ دراصلRCD روڈ کا حصہ ہے جو GT روڈ پر ترنول کے مقام سے الگ ہو کر پاراچنار تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
  • وزیرِ اعظم نے اپنے دورہء کوہاٹ میں راولپنڈی روڈ کو ڈبل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے -شہر کے اندر بھی موجود سڑکوں کی جانب کافی توجہ دی گئی ہے۔ اور ان کی حالت بھی پہلے سے کافی بہتر ہو گئی ہے۔

کوہاٹ سرنگ

[ترمیم]

کوہاٹ ٹنل( پاک جاپان فرینڈشپ ٹنل ) جنوبی اضلاع کے لوگوں کا حکومت سے ایک بہت دیرینہ مطالبہ، جس پر 1999ء میں جاپان کے تعاون سے کام شروع ہوا۔

1.89 کلومیٹر طویل اس ٹنل منصوبے کو 2003ء جون میں مکمل کر کے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سے جہاں کوہاٹ سمیت باقی جنوبی اضلاع کا پشاور سے فاصلہ کم ہوا وہیں بڑی گاڑیوں کو بھی سہولتیں ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے کوتل بائی پاس پر ان گاڑیوں کے لیے بہت مشکل حالات ہوتے تھے۔ اس ٹنل کی وجہ سے وقت اور جان ومال کی بھی بچت ہوئی ہے۔

24 فروری، 2008ء کو دہشت گردوں نے اس ٹنل کے راستے سیکیورٹی فورسز کے لیے سپلائی لے کر جانے والے ٹرکوں کے ایک قافلے پر حملہ کر دیا۔ یہ سپلائی جنوبی وزیرستان جا رہی تھی۔ 27 فروری کو فوج نے آرٹلری، ہیلی کاپٹرز اور ہیوی مشین گنوں کی مدد سے 24 دہشت گردوں کو مار کر ٹرکوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس کے بعد سے ٹنل کا کنٹرول فوج کے پاس ہے۔

یہ ٹنل انڈس ہائی وے کا ایک اہم حصہ ہے جو کوتل بائی پاس کا متبادل اور شہروں کے درمیان میں فاصلے کم کرنے کا ذریعہ ،علاقے کی معیشت اور ٹریفک صورت حال کی بہتری میں بھی مددگار ہے۔

اس ٹنل پر 6626.75 ملین روپے لاگت آئی اور یہ منصوبہ 48 ماہ میں مکمل ہوا۔

ٹنل کی دونوں جانب ٹنل تک رسائی کے روڈ کی ٹوٹل لمبائی 29.8 کلومیٹر ( شمالی حصہ 7.7 کلومیٹر جبکہ جنوبی حصہ 22.1 کلومیٹر ) ہے۔

ٹنل کی لمبائی 1.89 کلومیٹر جبکہ چوڑائی 10.3 میٹر ( بلیک ٹاپ 7.3 میٹر اور کارنر 3 میٹر ) ہے۔

اہم مقامات(پکنک پوائینٹ)

[ترمیم]
  • تانڈا جھیل ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ ہے، جو تاندہ ڈیم کنارے قدرتی ماحول اور حالت میں لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہے۔ عید اور دوسری تعطیلات بالخصوص موسم گرما میں لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ مغرب میں کوئی 10کلومیٹر پر واقع شہرسے اس جھیل تک دو راستے آتے ہیں۔ ایک شاھپور گاؤں سے، جبکہ دوسرا ھنگو بائی پاس (کالوخان بانڈہ) سے ھوکرآتاھے۔ دوسرا راستہ اپنے حسین مناظرکی بدولت بہت دلفریب ہے۔ (وادی، ندی، ندی کاپل،پہاڑ اور اس پر بل کھاتی سڑک) بہت ہی سرسبز علاقہ ہے۔ یہ دنیاکاواحد ڈیم ہے جوصرف600میٹر بند (جنوبی طرف)لگا کر بنایاگیاھے۔ باقی سب اطراف پہاڑ ہیں۔ جھیل سے نکلی نہروں کے ذریعے شاہپور، قمر ڈھنڈ، سورگل، چمبئی، جرما، تپی، میروزئی، ڈھوڈہ، کوٹ، خیرماتو، غلام بانڈہ، توغ، بہادرکوٹ، کالوچنہ اور شیخان سمیت کوئی 30فیصد دیہات کوسیراب کیا جاتا ہے۔
  • کے ڈی اے پارک شہرسے متصل ترقیاتی اور انتظامی محکموں،اداروں کے دفاتر کے لیے مختص یہ (سرخ مٹی اور پتھروں کا تہ درتہ پہاڑی) علاقہ، ضلعی حکومت، ایکسائز آفس، بیت المال، پاسپورٹ آفس اور نادرا آفس سمیت ڈسٹرکٹ ہسپتال،کئی بینکوں اور ملٹی نیشن کمپنیوں کے دفاتر اور پرائیوٹ اسکولوں کی وجہ سے ماڈرن سٹی کا منظرپیش کرتاہے، جو انتظامی طور پر کوئی14سیکٹرزمیں تقسیم ہے۔ سکیٹر9میں بچوں اور خواتیں کے لیے دو بہت خوبصورت (کے ڈی اے)پارک بنائے گئے ہیں۔ جہاں موجود بچوں کے جھولے، گھاس کے قطعے اور پھول خوبصورتی کودوبالا کرتے ہیں۔ پارک کے مغرب سے شہرکا نظارہ کیاجاسکتاھے۔ یہ منظر شام(غروب آفتاب) یا رات کو بہت حسین ہوتا ہے۔ یہاں سے نیچے والی پہاڑی پربنی بھورے رنگ کی ٹائلوں اور شیشے سے مزئین مسجد (گولڈن ماسق)کا نظارہ بھی دیدنی ہوتا ہے۔ صحن میں لگے فواروں، گھاس اور گارڈینا کی جھاڑیوں اور اردگرد بنے چھوٹے پارکوں نے مسجدکے حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ مسجد کے شمالی جانب والے دروازے سے وادی کا نظارہ بہت سحرانگیز ہے۔

ہرسیکٹر میں کھیلوں کے میدان ہیں۔ جن میں سیکٹر 6 کا کرکٹ گراؤنڈ، سیکٹر 8 کا فٹ بال گراؤنڈ اور سیکٹر 10 کا ہاکی گراؤنڈ بہت مشہور ہیں۔ ھر سیکٹر کی اپنی شاپنگ مارکیٹ ہے۔ جہاں ضرورت کی اشیاء باآسانی ملتی ہیں۔

  • چشمہ جات یہ جگہ پرانے بس سٹینڈ کے پاس ہی ہے۔ ٹھنڈے، میٹھے پانی کے چشموں پر نہانے کا الگ مزہ ہے۔ ان چشموں کے علاوہ جنگل خیل گاؤں کے شمال میں زیارت(بینے بابا) کے دو مزید چشمے ہیں جن کاپانی بہت ہی ٹھنڈا ہے۔ کیونکہ اس جگہ درختوں کی بہتات ہے۔
  • جوزارہ یہ جگہ شہر کے مغرب میں ھنگو روڈ پر کوئی 25کلومیٹر پر واقع ہے۔ یہاں کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے انسان پر الگ ہی طرح کا سرور طاری کر دیتے ہیں۔ گرمی کی دوپہر میں یہاں آ کر ایک عجیب سا نشہ چھا جاتا ہے۔ اس جگہ کا اصل حسن پاس سے گزرنے والی بل کھاتی سڑک سے دکھائی دیتا ہے۔ گھاس کے میدان، ریلوے لائن، چشموں کا شفاف پانی۔ اور درختوں کے جھنڈ۔.۔.۔. اور یہ سب کچھ ایک دوسرے کے متوازی۔
  • ڈھوڈہ شریف شہر سے جنوب مشرقی طرف کوئی 22 کلومیٹر دور، یہ ایک بزرگ اور ولی اللہ کا مزار ہے، اس مزار کے پاس سے کوہاٹ توئی کا پانی ایک دریا کی صورت میں گزرتا ہے۔ اس مقام سے پہلے گودی بانڈہ کے مقام پر کوہاٹ توئی میں ،کوہاٹ کے چشموں کا پانی شامل ہونے کی وجہ سے دریا کچھ تیز ہوجاتاہے۔ مرزا پر موجود درختوں اور دریا کی وجہ سے کچھ رونق ہوتی ہے۔
  • بادو زیارت یہ بھی چشموں اور دریا پر مشتمل پکنک پوائنٹس والی ایک جگہ ہے جو شہر سے تقریباً 35 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ کوہاٹ توئی جو ڈھوڈہ شریف کے پاس سے ہو کر گزرتی ہے اس جگہ پر موجود چشموں کے پانی سے اور بھی تند وتیز ہو جاتی ہے۔ چشموں کے اردگرد درختوں کے جھنڈ اور گھاس کے میدانوں پر لوگوں کے گروپ اپنے شغل میں مصروف ہوتے ہیں۔ اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان سے پکوان تیار کر رہے ہوتے ہیں تو کوئی دریا یا چشموں سے شکار کی ہوئی مچھلی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مارچونگی گاؤں کے پار اس دریا کا نظارہ بہت دلفریب ہے۔ مگر یہ کنارہ صرف مچھلی کے شکاریوں کے لیے بہتر ہے کیونکہ یہاں پر کوئی سایہ دار درخت نہیں ہے۔ صرف سردیوں میں کچھ گروپ یہاں آتے ہیں۔ یا پھر شام کے وقت کچھ چہل پہل ہوتی ہے۔
  • 1924ء کے کوہاٹ فسادات یہ فسادات اپنی نوعیت کے بڑے سکھ ہندو مخالف فسادات تھے جو برطانوی ہند کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں کوہاٹ شہر میں، 1924ء میں برپا ہوئے۔ فسادات کے تین دنوں (9–11 ستمبر) میں، 155 ہندو اور سکھ ہلاک ہوئے۔ ہندو اور سکھ آبادی کو جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ موہن داس گاندھی نے اکتوبر 1924ء میں 21 دنوں تک ہندو مسلم اتحاد کے لیے روزہ رکھا۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]