چمن
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
چمن | |
متناسقات: 30°55′20″N 66°26′41″E / 30.92222°N 66.44472°Eمتناسقات: 30°55′20″N 66°26′41″E / 30.92222°N 66.44472°E | |
ملک | پاکستان |
پاکستان کی انتظامی تقسیم | بلوچستان |
پاکستان کی انتظامی تقسیم | ضلع چمن |
بلندی | 1,338 میل (4,390 فٹ) |
آبادی (2015) | |
• کل | 180,161 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
یونین کونسلوں کی تعداد | 13 |
چمن، صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ سرحد کی دوسری طرف افغانستان میں سپن بولدک کا شہر ہے۔ روس کے افغانستان پر حملے کے موقع پر بہت سے پناہ گزین چمن میں پناہ گزیر ہوئے جس کی وجہ یہاں کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا۔
چمن شہر کے مشرق میں تاریخی پہاڑ کوژک واقع ہے جس کی شروعات افغانستان میں خوست اور پاکستان میں وزیرستان سے ہوتا ہے جبکہ مغرب کی طرف ریگستان ہے جوافغانستان کے ملحقہ علاقہ سپین بولدک سے لیکر پاکستان کے نوشکی تک ہے۔ چمن ایک تجارتی عالمی منڈی ہے جس میں جاپان، امریکا، روس، چین اور دیگر ملکوں کے تجارتی اشیاء درآمد کی جاتی ہیں، چمن مشہور شخصیات کے حوالے سے بھی ایک زرخیز شہر ہے یہاں کے مشہور شخصیات میں حاجی خدائے میر ملیزئی حاجی جیلانی خان عشے زئی حاجی حبیب جان علیزئی قاری ولی محمد نورزئی مولوی محمد حنیف عشے زئی ملک غلام محمد عشے زئی جیلانی ادوزئی حاجی بور کاکڑ حاجی مولا داد میرالزئی حاجی محمد علی ادرکزئی فاضل دیوبند مولوی محمد نور،پشتو شاعر قاضی ملاعبدالسلام اور 2011 میں وفات پانے والے حضرت مولانا حاجی عبد الغنی حافظ حمداللہ نورزئی اصغر خان عشے زئی کیپٹن عبد الخالق علیزئی حاجی فیض اللہ نورزئی حافظ حبیب اللہ نورزئی ہے جو افغانستان اور پاکستان میں بہت مشہور ہے۔ چمن ایک تاریخی شہر ہے۔جب انگریز نے1838 میں پہلی بار افغانستان انگریز جنگ میں اس علاقے پر قبضہ کرکے بہت سے قبائل کو بے دخل کرکے یہاں فوجی چھاؤنی بنائی جسکے ساتھ چمن داس نامی ھندو کی دکانیں بھی تھی بعد میں آھستہ آھستہ آبادی بڑھتی گئی۔پہلے پہل چمن کانام پڑاؤ تھا اور انگریز فوج کی پہلی فوجی چوکی لشکر ڈنڈ تھی آج پاک افغان بارڈر پر اس کو کوٹی بولا جاتا ہے۔انگریز فوج نے چھاؤنی سرکاری عمارات تعمیر کیلئے زمینیں نورزئی قبائل سے خریدی جسکے حوالے انگریز کے شروعاتی بندوبستی ریکارڈ 1921 میں جابجا موجود ہے اور پینے کی پانی کیلئے نورزئی قبائل سے ایک کاریز بھی خرید لیا۔اورکچھ کاریزوں سے نورزئی قبائل کو زور زبردستی بےدخل کردیا۔انگریز کی کالونیل آبادیوں میں مردہ کاریز،رحمان کاریز،غازی کاریز قابل ذکر ہے ۔یہ قبائل شاہ شجاع کے حمایتی بن گئے اور نورزئی ادوزئی قبائل امیر دوست محمد خان کے اتحادی بن گئے۔چمن کا علاقہ بنیادی طور پر احمد شاھی میں نورزئی اور اچکزئی کے عشے زئی قوم کو بطور جاگیر دی گئی تھی،بعد میں پہلی افغانستان انگریز جنگ کے دوران نورزئی قوم کے 4 شاخیں کرے زئی ،سامیزئی،در زئی سلطان زئی انگریزوں سے جنگ لڑنے کیلئے افغانستان کی طرف ھجرت کی تھی جنگ جیتنے کے بعد امیر دوست محمد نے سپین بولدک کا علاقہ نورزئی اور اچکزئی کے ادوزئی قوم کو بطور جاگیر عطا کی۔چمن کی پہلا دینی تعلیمی ادارہ مدرسہ تعلیم القرآن مال روڈ پر واقع ہے۔یہ ادارہ 1958 میں انگریز کے وقت کے پرانا گھوڑا ہسپتال میں قائم کیا گیا اور 1963 میں بلوچستان میں رجسٹرڈ نمبر 1 ہوئی۔ چمن شہر کے بازاروں میں مال روڈ، تاج روڈ، ٹرنچ روڈ، کندہاری بازار، مرغی بازار،رام چند روڈ،پاور ھاؤس روڈ بغرہ روڈ بائی پاس روڈ اور رحمان کہول روڈ اور مردہ کاریز روڈ قابل ذکر ہیں۔