نواب امیرخان آف کالا باغ
نواب امیرخان آف کالا باغ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
Governor of West پاکستان تیسرے | |||||||
مدت منصب 12 اپریل 1960 – 18 ستمبر 1966 | |||||||
صدر | ایوب خان | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
درستی - ترمیم |
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان، 20 جون 1910 کو کالا باغ کے سردار اعوان خاندان میں پیدا ہوئے۔[1] آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ ان کا شمار ملک کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے زرعی پیدوار بڑھانے کے سلسلے میں کاشت کاری کے جدید طریقوں اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم سے فائدہ اٹھایا۔ نواب آف کالا باغ میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جاگیردارنہ رعونت کے مالک تھے ۔ ان کا ایڈمسٹریشن انتا کمال کا تھا کہ اس ریاست کا نظم و نسق ملکہ برطانیہ الزبتھ بھی مانتی تھیں ۔ انھوں نے ایک دفعہ کہا نواب امیر محمد کی ایڈمسٹریشن کا یہ عالم ہے کہ جنگل کے شیر بھی ان کی مانتا ہے ۔ لیکن اب شہر کے باسی اس ایڈمسٹریشن کے باغی ہو چکے ہیں ۔ ان کے جیتے جی کسی نے ان کے گھر سے جنازہ اٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔ کیوں کہ نواب صاحب نے یہ تاثر دے رکھا تھا کہ موت آتے آتے ان کے گھر کی راہ بھول جاتی ہے ۔ نواب صاحب کی والدہ کا انتقال ہوا تو کالا باغ کے شہری نواب سے تعزیت کرنے گئے مگر کسی نے اظہار افسوس کی جرت نہیں کی ۔
حکمرانی
[ترمیم]ملک عطا محمد کے بعد 1924 جب نواب امیر محمد رئیس کالا باغ نامزد ہوئے تو چوری ، ڈاکہ ، زنا اور دیگر جرائم کے فیصلے بوہڑ والے بنگلے میں ہونے لگے ۔ قصبہ میں سیکڑوں مکان بیک قلم جنبش ملک امیر محمد کی ذاتی جائداد قرار دے دیے گئے ۔ تمام دکان دار نواب کے کرایہ دار بنادیئے گئے ۔ شہر بازار میں کوئی شخص میں ذاتی مکان تعمیر نہیں کرسکتا تھا اور نہ جائداد کی خرید و فرخت کا مجاز تھا ۔ لوگ لاکھوں روپیہ رکھنے کے باوجود کالا باغ میں سرمایا کاری نہیں کرسکتے تھے ۔ شادی بیاہ کے معاملات میں خاندانوں اور جانبین کی مرضی کی بجائے ملک امیر محمد کی اطلاع کے بغیر کوئی رشتہ مناکحت انجام نہیں پاسکتا تھا ۔ کالا باغ سے باہر کے لوگ عارضی یا مستقل طور پر مقیم نہیں رہ سکتے تھے ۔ اس کے لیے نواب سے اجازت ضروری تھی اور شہر کا کوئی باسی اپنے کسی رشتہ دار کو نواب کی اجازت کے بغیر مستقل رہائش پزیر نہیں کرسکتا تھا ۔ ۔ کالا باغ کے شہری زرعی اجناس شہر یا شہر کے باہر آزادانہ طور پر فروخت کرسکتے تھے ۔ اس کے لیے یہ اصول تھا پہلے نواب کی ملکیت زرعی اجناس فروخت ہوتی تھی اور اس کے بعد عام آدمیوں کی پیداوار غلہ منڈیوں اور سبزی منڈیوں کی راہ لیتی تھی ۔ کالا باغ کے کسی شہری کو کسی بھی حالت میں نواب کی ملکیت ٹرانسپورٹ کے علاوہ کوئی شہری ذاتی ٹرک یا بس خرید نہیں سکتا تھا ۔
انٹیلی جنس
[ترمیم]یہاں باقیدہ انٹیلی جنس فورس کام کرتی تھی ۔ نواب آف کالا باغ کی زندگی میں کوئی سیاست دان اس شہر میں قدم نہ جماسکا ۔ مقامی طور پر سیاسی جماعت سازی یا کسی سیاسی جماعت کی حمایت سنگین جرم تھا ۔ جنھوں نے سیاسی یا احتجاجی آواز بلند کرنے کی کوشش کی اس کی بھاری قیمت ادا کی ۔
رعونت
[ترمیم]جب بھٹو نے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا تو ان کا بہت سا علاقہ زرعی اصلاحات کی زد میں آگیا ۔ اینواں کے ہاریوں نے کہا کہ وہ زمین نہیں مانگتے مگر زمین کی پیداوار میں سے اپنا جائز حصہ مانگتے ہیں ۔ اس گستاخی پر120 خاندانوں اینواں سے نکال کر ان کے گھروں پر ایک ہی رات میں بلڈوزر چلا دیا گیا ۔ یہ بے سہارا خاندان داوَد خیل کے ریلوے اسٹیشن پر مقیم ہو گئے اور ایک دن ریلوے لائن پر لیٹ کر ریلیں روک لیں ۔ ریاست کے قانون کے مطابق تعلیم ممنوع تھی ۔ ان کے علاقہ میں اسکول منظور ہوجاتا تو یہ فوراً منسوخ کرایتے تھے ۔ لوگ چوری چھپے اپنے بچوں کا تعلیم دیتے تھے ۔ اگر کوئی پکڑا جاتا تو اسے سزا ملتی تھی ۔ قاضی عبد اللہ نے جدوجہد شروع کی تو ان کے بیس سالہ بھائی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کی پولیس میں رپورٹ تک درج نہیں ہو سکی ۔
طبعیت
[ترمیم]نواب آف کالا باغ اگرچہ ایک بڑے جاگیر دار تھے مگر دوسرے روایتی جاگیر داروں کی طرح انھیں شکار ، پینے پلانے یہاں تک کہ سگریٹ تک نہیں پیتے تھے ۔ وہ ایک نمونہ تھے نوابی ٹھاٹھ بھاٹھ کا مگر ان کی نجی زندگی صاف سھتری تھی ۔ وہ گھوڑے پالتے بھیڑوں کے گلے رکھتے ڈیڑی فارم کے مویشی تھے اور اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ۔ وہ شلوار قمیض اچکن اور پگڑی استعمال کرتے اور ان کے بیٹے بھی یہی لباس پہنتے تھے ۔ وہ ایک قبیلے کے سرادر کی طرح تھے اور ان کا ہر لفظ ایک قانون تھا ۔ ان کے دور گورنری میں میانوالی میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا ، انھوں نے سیاسی مخالفین کو ابھر نے نہیں دیا انھیں دبایا جو دبائے جا نہیں سکے انھیں مرات دے کر قابو میں کر لیا ۔ نواب آف کالا باغ جاگیرادری نظام کے حامی تھے اور انھوں نے ہاریوں میں زمین کی تقسیم کی مخالفت کی ۔
جب نواب آف کالا باغ کی بیگمات بازار سے گزرتی تھیں تو یہ حکم جاری ہوتا تھا کہ بازار کی بتیاں گل کردی جائیں ۔ اس کے بعد مسلح آدمی آتے اور جو مرد گزرگاہ میں مل جاتا اس کی ہنٹروں سے پٹائی کی جاتی تھی ۔ ان کی زندگی میں یہ شہر ان کی ریاست بنا رہا ۔
سیاست
[ترمیم]نواب امیر محمد خان کالا باغ کبھی اسمبلیوں کی سیاست سے دلچسپی نہیں رہی ۔ انھوں نے 1946ء کے الیکشن میں یونسٹ پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگی امیدوار مولانا عبد الستار خان نیازی کی حمایت کی ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جو ایک مزدور تھے، کی مدد کی وہ ایک مزدور سے اتفاق فاونڈری کے مالک بن گئے، میاں شریف نواب صاحب کی زرعی مشینری کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، انھوں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر انھیں ڈھرے بندیوں اور جوڑ ٹور میں حصہ نہیں لیا ۔ ان کے پر وقار طریقہ کی وجہ سے انھیں کئی دفعہ گورنری کی پیش کش ہوئی مگر انھوں نے معذرت کرلی ۔ ایوب خان نے جب مارشل لا نافذ کیا تو انھوں نے چاہا کہ نواب آف کالا باغ کو کابینہ میں شامل کر لیں اور ان سے کئی دفعہ رابطہ کیا مگر نواب کالا باغ نے ہر دفعہ انکار کر دیا ۔ جب ایوب خان نے انکار کی وجہ پوچھی تو نواب آف کالا باغ نے جواب دیا کہ کیا میں دو دو ٹکے کے ارکان اسمبلی کا ایوان میں سوالوں کا جواب دوں گا ۔ پھر ایوب خان کی پیش کش قبول کرتے ہوئے گورنر بننا قبول کیا ۔
نواب آف کالا باغ کسی قسم کی بد انتظامی پسند نہیں کرتے تھے ۔ وہ گورنری کے دوران کراچی سے لاہور پہنچے تو ایک افسر نے کہا آپ راستہ بدل لیں تو بہتر ہوگا ۔ راستہ میں طلبہ کی ایک ٹولی ہنگامہ کرنے والی ہے ۔ نواب آف کالا باغ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دبدے سے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ اگر طلبہ کی ٹولی ہنگامہ کرنے والی ہے تو آپ کا یہاں کیا کام ۔ اگر ڈیوٹی افسر پر متعین افسر اس ہنگامہ کو روک نہیں سکیں تو خود فارغ سمجھیں ۔ نواب کالا باغ اسی راستہ سے گئے ۔ انھوں نے اسی افسر کو وارنگ دیتے ہوئے کہا پولس خود کو عوام کا خادم سمجھے تو حالات بگڑنے کی نوبت نہیں آتی ۔
ایڈمسٹریشن
[ترمیم]کشمنرقلات کے گھر چوری ہوئی تو نواب آف کالا باغ غصہ سے لال پیلے ہو گئے اور انھوں نے متعلقہ ڈپٹی کشمنر کو معطل کرد یا ۔ ان کے نذدیک جو دویژن کا حاکم وہ اپنے گھر کی حفاظت نہیں کرسکتا ہے تو وہ عام لوگوں کے گھر کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے ۔ وہ سیاست دانوں کو بھی نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کے دور میں شیخ مسعود صادق وزیر تھے ۔ جب وہ راولپبڈی کے دورے پر گئے تو کنونشن مسلم لیگ کے کارکنوں نے مقامی انتظامیہ کے روئیہ کی شکایت کی ۔ شیخ مسعود صادق نے نے نوٹس لیا اور متعلقہ افسروں کو ریسٹ ہاءوس طلب کیا انھیں تنبیہ کے ساتھ ڈانٹا بھی ۔ نواب آف کالا باغ کو اطلاع ملی کے سیاسی کارکنون کا روئیہ غیر مناسب تھا ، انھوں نے شیخ مسعود صادق کو ڈانٹتا کہ آپ سرکاری پارٹی کے ارکان ہیں ۔ آپ پارٹی سے زیادہ خدا کے سامنے جواب دہ ہیں اور انھوں نے سرکاری افسروں سے کہا کہ آپ کسی کارکن کا ناجائز کام مت کریں اور نہ ہیو انھیں اپنے دفتروں میں گھسنے کی اجازت دیں ۔ ان کے دور میں کسی اعلیٰ شخصیت کو اجازت تھی کہ وہ سرکاری رہاہش گاہوں پر شراب ، رقص و سرور کی محفل سجائیں ۔ انھوں نے ایک مرکزی وزیر کا سرکاری رہاہش گاہوں میں داخلہ بند کر رکھا تھا ۔ یہ ان کی سیرت کے ایسے رخ ہیں جو ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں
وفات
[ترمیم]جب نواب آف کالا باغ گورنری سے الگ ہوئے تو میانوالی کا نظام اسی طرح قائم رکھا ۔ بعد ازاں جو نواب امیر محمد کو پرسرار طور پر 1968 قتل کر دیا گیا تو قتل کے بعد کچھ آدمیوں نے ان کی لاش بیٹوں کی اجازت سے اسپتال پہنچائی اور گنتی کے آدمیوں نے جنازہ پڑھا ۔ اس قتل کا الزام ان کے بیٹے اسد پر لگا جو بعد ازاں بری ہو گئے ۔
ماخذ
[ترمیم]وکیل انجم ، سیاست کے فرعون