وادی سندھ کے اوزان اور پیمانے
اس مضمون یا قطعے کو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
وادی سندھ کی تہذیب میں وزن اور پیمائش کا ایک صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا، جو علاقے کے طول و عرض میں رائج تھا۔ مختلف اوزان کے لاتعداد باٹ مختلف شہروں سے کھود کر نکالے گئے ہیں۔ ہڑپہ، موہنجودڑو، چنھودڑو، میہی اور ستکگن دڑو سے باٹ ملے ہیں۔ جو وزن کے ایک متعین اور سخت گیر نظام کی ترجمانی کرتے ہیں ۔
یہ اوزان تمام شہروں سے بھاری تعداد میں ملے ہیں۔ بعض جگہ یہ نیم تیار حالت میں تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر جگہ مقامی طور پر تیار کیے جاتے تھے۔ مگر معیاری اوزان سے سرمو انحراف نہیں ہوتا تھا۔ یہ باٹ مختلف اقسام کے پتھروں سے تراشے جاتے تھے۔ جن میں ناقص عقیق، چونا پتھر، سلپہ پتھر، سفید عقیق، ورقی پتھر اور سنگ سیاہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض سوراخ دار ہوتے تھے اور بہت سارے چھوٹے بڑے باٹوں کا ایک سیٹ تار میں پرویا ہوتا تھا۔ نہایت چھوٹے باٹ بھی تھے۔ جو سناروں کے کام آتے تھے ۔
عموماً ترازو کی ڈنڈی اور دونوں پلڑے لکڑے ہوتے تھے۔ جو دھاگے سے بندھے ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے ترازو کی زیادہ باقیات نہیں ملیں۔ بعض صورتوں میں ڈنڈی تانبے اور اس کے علاوہ پختہ مٹی کے بنی ہوتی تھی۔ ان میں سے کچھ نمونے محفوظ ملے ہیں۔ موہنجودڑو سے سات اوزان ایسے ملے ہیں۔ جو معیاری اوزان سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کا اپنا ایک اندرونی تناسب ہے۔ لیکن اور کہیں سے دستیاب نہ ہونے کے باعث انھیں غیر ملکی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔
وادئِ سندھ کے معیاری اوزان کا نظام قدیم دنیا کے کسی دوسرے نظام سے میل نہیں کھاتا
ا جلتا ہے۔ ان اوزان کا اندرونی تناسب اس طرح ہے ۔
1، 2، 4، 8، 16، 32، 64، 160، 200، 320، 640
ان میں وہ وزن جس کو 16 کہا گیا ہے بنیادی اکائی کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کا وزن 13.64 گرام تھا۔ موجودہ تولہ 11.66 گرام کا ہے۔ اسے ہم پکا تولہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بنیادی وزن یعنی پکا تولہ جب اوپر کو جاتا تھا تو اعشاری ترتیب سے بڑھتا تھا۔ جب نیچے جاتا تھا تو 2 سے تقسیم ہوتے ہوئے چلتا تھا۔ سولہ کا یہ نظام پاکستان میں اعشاری نظام سے پہلے رائج تھا۔ پاکستان میں ناپ تول کا اعشاری نظام یکم جولائی 1974ء کو نافذ کیا گیا۔
ان میں چھوٹے اوزان کو یقیناً صرف سنار، منکا ساز، طبیب اور دوا ساز استعمال کرتے ہوں گے۔ یہ اوزان چنھودڑو میں ایک منکہ ساز کی ورکشاپ سے ملے ہیں ۔
اوزان کی طرح ناپ کا نہایت صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا۔ موہنجودڑو سے گھونگے سے بنایا گیا ایک پیمانہ ملا ہے جو ذرا سا ٹوٹا ہوا ہے۔ اس پر برابری کے نشانات لگے ہیں۔ ہر حصہ11.32 انچ یا 33 سینٹی میٹر کے برابر ہے ۔
موہجودڑو سے ملنے والا گھونگے کا پیمانہ جو بنیادی اکائی 11,32 کے برابر دیکھاتا ہے۔ اس میں ہر اکائی کے بعد ایک دائرے کا نشان بنایا گیا ہے۔ اس بنیادی اکائی کی ضمنی تقسیم بھی کی گئی ہے۔ جو پانچ حصوں ( سوتروں ) میں ہے۔ ہر حصے کو الگ کرنے کے لیے کھڑی لکیر لگائی گئی ہے۔ اس طرح پانچ سوتر کی پور اور دس پور کا ایک پاؤں ہوتا ہوگا۔ اس پیمانے کو موہنجودڑو اور ہڑپہ میں 150 مختلف عمارتوں کی پیمائش کرکے رکھا گیا تو اس میں دو پیمائش نظر آئیں۔ ایک کے مطابق بیس انچ کا ہاتھ ہوتا ملتا ہے ( 20.03 انچ سے لے کر 20.08 انچ تک ) دوسری پیمائش کے مطابق اس کی صحیح پیمائش 13 انچ سے لے کر 13.2 انچ تک۔ تمام عمارتوں کی لمبائی چوڑائی سختی سے دو میں سے کسی ایک پیمانے پر اترتی ہے۔ مثلاً اشنان گھر کا تالاب اسی پاؤں کے حساب سے 36 * 21 پاؤں ہے۔ جب کہ یہ پاؤں 13.1 انچ کا ہے۔ ہڑپہ کی چکیوں میں سے ہر چکی کا قطر دس پاؤں ہے جب کہ یہاں پاؤں 13..2 انچ کا ہے ۔
موہنجودڑو کے پیمانے پر جو ضمنی تقسیم کی گئی تھی وہ تمام پیمانوں پر 99.97 فیصد تک درست تھی۔ یعنی غلطی زیادہ سے زیادہ 0.03 فیصد کی ہے ۔
چند عمارتوں کی پیمائش یوں تھی
[ترمیم]ہڑپہ کے اناج گھر کی بڑی دیواریں : 30 ہاتھ = 51 فٹ 9 انچ
ہڑپہ کے اناج گھر کے بڑے ہال کی دیواریں : 10 ہاتھ = 17 فٹ 3 انچ
ہڑپہ کی چکیوں کا قطر : 10 پاؤں = 11 فٹ
ہڑپہ سے تانبے کی ایک سلاخ ملی ہے۔ جس پر نشانات لگے ہوئے ہیں۔ اس میں ہر اکائی 0.467 انچ کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے یہ دوسرا پیمانہ تھا۔ یہ دونوں پیمانے جن میں سے اک ہاتھ اور پاؤں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہوگا۔ غالباً بیک وقت رہے ہوں گے۔ البتہ ان کے دائرہ اطلاق الگ الگ ہوں گے ۔
کچھ بھی ہو ان اوزان پیمائش کی تفصیل اور صحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جیومیٹری کا علم کافی ترقی کرچکا تھا اور اس کی تعلیم کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا ۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم