پانی پت کی جنگیں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد شاہ اور نادر شاہ کے درمیان میں جنگ 1739ء میں کرنال کے مقام پر ہوئی جو دلی کے شمال میں تقریباً 110 کلومیٹر پر واقع ہے۔

پانی پت اور کرنال دونوں قریب ہیں ان کے درمیان 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے

محمد شاہ کی 100،000 سے زائد فوج نادر شاہ کی 55000 فوج کا مقابلہ نہ کر سکی۔

پانی پت کا علاقہ تو جنگوں کی وجہ سے زمانہ قدیم سے مشہور ہے۔ قبل از مسیح دور میں کورو اور پانڈو قبائل میں لڑی جانے والی تاریخی لڑائی بھی کوروکشیتر میں ہوئی تھی جو پانی پت کے بازو میں ہے۔ صدیوں سے پانی پت کا علاقہ پنجاب ہی کا ایک مقام تھا اور تقسیمِ پنجاب 1947ء کے بعد بھارتی صوبہ مشرقی پنجاب کا حصہ بنا۔ تاہم 1966ء میں جب بھارتی حکومت نے پنجاب کو 3 حصوں میں منقسم کیا تو پانی پت نئے صوبہ ہریانہ شامل ہو گیا۔

پانی پت کی تین جنگوں کی مختصر تاریخ

پہلی جنگ[ترمیم]

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان میدان جنگ میں ناکام ہوا۔ اور فوج تتر بتر ہو گئی۔ پانی پت کی جنگ کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔

دوسری جنگ[ترمیم]

ہمایوں کی وفات کے بعد اکبر اعظم کی تخت نشینی کا اعلان ہوا تو ہیموں بقال نے جو عادل شاہ کا وزیر اور بڑا صحب قوت و اقتدار تھا نے دہلی پر قبضہ کرنا چاہا۔ بیرم خان نے اس کی مزاحمت کی۔ نومبر 1556ء میں پانی پت کے میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ خون ریز معرکے کے بعد بیرم خاں کو فتح ہوئی اور ہیموں بقال زخمی ہو کر گرفتار ہو گیا۔

تیسری جنگ[ترمیم]

یہ جنگ احمد شاہ ابدالی اور مراٹھیوں کے سداشو راؤ بھاؤ کے درمیان 1761ء میں ہوئی۔ اس وقت تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ ان کے سردار رگوناتھ نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر لاہور پر قبضہ کرکے اٹک کا علاقہ بھی فتح کر لیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے مقبوضات واپس لینے کے لیے چوتھی مرتبہ برصغیر پر حملہ کیا۔ 14 جون 1761ء کو پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ جس میں مرہٹوں نے شکست کھائی۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا اور دو ماہ بعد واپس چلا گیا۔ پانی پت Paanipat

محمد شاہ اور نادر شاہ کے درمیان میں جنگ 1739ء میں کرنال کے مقام پر ہوئی جو دلی کے شمال میں تقریباً 110 کلومیٹر پر واقع ہے۔

پانی پت اور کرنال دونوں قریب ہیں ان کے درمیان 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے

محمد شاہ کی 100،000 سے زائد فوج نادر شاہ کی 55،000 فوج کا مقابلہ نہ کر سکی۔

پانی پت کا علاقہ تو جنگوں کی وجہ سے زمانہ قدیم سے مشہور ہے۔ قبل از مسیح دور میں کورو اور پانڈو قبائل میں لڑی جانے والی تاریخی لڑائی بھی کوروکشیتر میں ہوئی تھی جو پانی پت کے بازو میں ہے۔ صدیوں سے پانی پت کا علاقہ پنجاب ہی کا ایک مقام تھا اور تقسیمِ پنجاب 1947ء کے بعد بھارتی صوبہ مشرقی پنجاب کا حصہ بنا۔ تاہم 1966ء میں جب بھارتی حکومت نے پنجاب کو 3 حصوں میں منقسم کیا تو پانی پت نئے صوبہ ہریانہ میں شامل ہو گیا۔

پانی پت کی تین جنگوں کی مختصر تاریخ

پہلی جنگ

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان میدانِ جنگ میں ناکام ہوا۔ اور فوج تتر بتر ہو گئی۔ پانی پت کی جنگ کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔

دوسری جنگ

ہمایوں کی وفات کے بعد اکبر اعظم کی تخت نشینی کا اعلان ہوا تو ہیموں بقال نے جو عادل شاہ کا وزیر اور بڑا صحب قوت و اقتدار تھا نے دہلی پر قبضہ کرنا چاہا۔ بیرم خان نے اس کی مزاحمت کی۔ نومبر 1556ء میں پانی پت کے میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ خون ریز معرکے کے بعد بیرم خاں کو فتح ہوئی اور ہیموں بقال زخمی ہو کر گرفتار ہو گیا۔

تیسری جنگ

یہ جنگ احمد شاہ ابدالی اور مراٹھیوں کے سداشو راؤ بھاؤ درمیان 1761ء میں ہوئی۔ اس وقت تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ ان کے سردار رگوناتھ نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا۔ پھر لاہور پر قبضہ کرکے اٹک کا علاقہ فتح کر لیا۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے مقبوضات واپس لینے کے لیے چوتھی مرتبہ برصغیر پر حملہ کیا۔ 14 جون 1761ء کو پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ جس میں مرہٹوں نے شکست کھائی۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا اور دو ماہ بعد واپس چلا گیا.