مندرجات کا رخ کریں

کشمیر زلزلہ، 2005ء

متناسقات: 34°27′N 73°39′E / 34.45°N 73.65°E / 34.45; 73.65
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کشمیر زلزلہ، 2005ء is located in پاکستان
کشمیر زلزلہ، 2005ء
یو ٹی سی وقت??
تاریخ *8 اکتوبر 2005
3 رمضان 1426 ہجری
اصل وقت *03:50:39 UTC [1]
شدت7.6 Mw [1]
گہرائی15 کلومیٹر (49,000 فٹ) [1]
مرکز34°27′N 73°39′E / 34.45°N 73.65°E / 34.45; 73.65 [1]
قسمOblique-slip
متاثرہ علاقےPakistan, India, Afghanistan
ز س ز. شدتVIII (Severe) [2]
زمین بوسیجی ہاں [3]
پس زلزلہ5.9 MW Oct 8 at 03:57 [4]
5.8 MW Oct 8 at 03:58 [5]
6.4 MW Oct 8 at 10:46 [6]
اموات86,000 – 87,351 ہلاک [7]
69,000 – 75,266 زخمی [7]
2.8 ملین بے گھر [7]
فرسودہ دستاویز دیکھیے.
پاکستان کے زلزلہ والے علاقے

صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔ جب کہ اس سے قبل دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003ء میں زلزلے سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی شدت 6.7تھی۔ جنوری 2001میں بھارتی صوبے گجرات میں 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جون 1990ء میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ جولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ 1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہفتہ کے روز آنے والا شدید زلزلہ مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ 120 سال کے دوران آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔

انسانی اثرات

[ترمیم]

زلزلہ 2005ء تمام ادوار میں ہونے والے زلزلوں میں المیے کے لحاظ سے چودھواں بڑا زلزلہ تصور کیا جاتا ہے۔ صرف پاکستان میں 3.3 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ پہاڑی علاقے میں آنے والے زلزلے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کی جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق 8 ملین سے زیادہ آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان ہوا، جو تقریباً 400 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کو پانچ مختلف جگہوں سے تاریخ میں پہلی بار کھول دیا گیا، تاکہ لوگوں کو بآسانی صحت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچائی جا سکے۔ اسی تناظر میں دنیا بھر سے امدادی ادارے اور کارکن ابتدائی امداد پہنچانے یہاں پہنچے۔

مقام اموات زخمی
صوبہ خیبر پختونخوا و آزادکشمیر 73338 ایک لاکھ سے زائد
بھارتی کشمیر 1360 6266
افغانستان 4 14
کل 74500+ 106000+

ہلاکتیں

[ترمیم]

شدید زلزلے کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں آزاد کشمیر اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوئیں، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل ہلاکتیں 74,698 تھیں۔ یہ ہلاکتیں 1935 میں ہونے والے کوئٹہ میں ذلزلے سے کہیں زیادہ تھیں۔ بھارتی جموں و کشمیر میں کل 1400 لوگ ہلاک ہوئے، جس کی تصدیق بھارتی حکومت نے کی۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اس زلزلے میں کل 86,000 لوگ جاں بحق ہوئے لیکن اس کی تصدیق پاکستانی حکومت نے نہیں کی۔
یہ زلزلہ بروز ہفتہ پیش آیا، جو علاقہ میں عام دن تھا اور تقریباً اسکول اس دوران کام کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے یہاں زیادہ ہلاکتیں اسکولوں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بتائی جاتی ہے۔ زیادہ تر بچے منہدم ہونے والی اسکول کی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے۔ تفصیلی رپورٹوں کے مطابق شمالی پاکستان میں جہاں یہ زلزلہ رونما ہوا، تقریباً قصبے اور گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جبکہ مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان نے 20 اکتوبر 2005 کو ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،

؀ایک دوسرا اور بڑے پیمانے پر المیہ رونما ہو سکتا ہے، اگر ابھی سے ہم نے اپنی تمام تر توانائیاں بچ جانے والوں پر مرکوز نہ کیں۔

وزیر اعظم جناب شوکت عزیز اور وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤنے متاثرین سے سرد موسم کی آمد سے پہلے ہی پہاڑی علاقوں سے نیچے میدانی علاقوں میں منتقل ہونے کی اپیل کی، کیونکہ بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے مواصلات کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا اور بگڑتے موسم کی وجہ سے امدادی اداروں اور کارکنوں کو متاثرین تک پہنچنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رھا تھا۔

مزید پڑھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]

بیرونی روابط

[ترمیم]