ہیپاٹائٹس بی
ہیپاٹائٹس بی
[ترمیم]
ہیپاٹائٹس بی
[ترمیم]ہیپاٹائٹس بی ایک وائرس کا نام ہے اور اس بیماری کا نام ہے جو اس کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔یہ بیماری جگر کے انفیکشن کی ایک قسم ہے جو كہ ہیپاٹائٹس بی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ خون اور جسم کے سیال سے منتقل ہوتا ہے ہیپاٹائٹس بی ہیپاٹائٹس اے سے زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔ یہ خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی جگر کی دائمی سوزش سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس مرض پر قابو نہ پایا جائے تو مریض جگر کے سرطان کے علاوہ جگر کے کئی اور شدید ترین امراض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر انفیکشن ختم بھی ہو جاتاہے ۔ تاہم، کچھ لوگ دائمی حامل بن سكتے ہیں، جنھیں بالآخر دائمی جگر کی بیماریاں ، جیسا كہ جگر کی سروسس اور جگر كا کینسر ہوسكتی ہیں۔یہ مرض موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ۔[1]
ہیپاٹائیٹس بی کو بعض اوقات ”ہیپ بی“ بھی کہتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی کا پھیلاؤ
[ترمیم]دنیا بھرمیں ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ تشویش ناک تک بڑھ چکا ہے۔ پاکستان میں دیگر اقسام کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی کے مرض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اورحفاظتی ٹیکوں کی موجودگی کے باوجود لوگوں میں اس سلسلے میں زیادہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس پر قابو پانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں اس' خاموش طوفان ' سے کم ازکم 10 ملین افراد ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہو چکے ہیں۔[2]
2018ء میں نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں تپ دق کی شرح میں سرفہرست جب کہ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ میں دوسرے نمبر پر ہے۔[3]
وجوہات
[ترمیم]ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی استعمال شدہ سرنج,اٌستراء یا ناخن تراش کا استعمال, مریض کے تھوک، کُھلے زخموں کے ساتھ رابطہ میں آنے اور اس کے استعمال شدہ ریزر بلیڈ / استرا اور ٹوتھ برش کے اشتراک ، مرد و عورت کے جسم سے نکلنے والی مخصوص رطوبتوں سے صحت مند افراد میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اور اگر حاملہ عورت ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہو تو یہ مرض بچے میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ہیپاٹائٹس بی وائرس انفیکشن شدہ جسم کے سیال کے ساتھ رابطے میں آنے سے پھیلتا ہے۔ [4]
علامات
[ترمیم]شدید ہیپاٹائٹس کی علامات میں انتہائی تھکاوٹ، بھوک میں کمی، قے، اسہال ,جگر میں درد ( دائیں جانب پسلیوں کے نیچے)، جوڑوں میں درد، پیشاب کا پیلا ہونا اور جلد اور آنکھوں کی سفیدی كا بے رنگ ہو كر پیلا پڑ جانا شامل ہے ۔[1]
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں کوئی علامت یا نشانی نہیں ہوتی اور وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے۔ چناں چہ خون کا ٹیسٹ یہ معلوم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جسم میں ہیپٹائٹس بی کا وائرس متحرک ہے یا نہیں۔
جسم پر اثرات
[ترمیم]ہیپاٹائیٹس بی وائرس جگر کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے اور جگر کو بیمار کر دیتا ہے۔ جسم جگر کے خلیوں میں موجود وائرس سے لڑنے کے لیے بہت زور لگاتا ہے۔ اس لڑائی سے جگر کو نقصان پہنچتا ہے اور ، کئی سال یہ سلسلہ چلتے رہنے پر، جگر کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔
زیادہ تر بالغوں میں ، جسم ہیپاٹائیٹس بی لگنے کے بعد 6 ماہ کے اندر اس سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور پھر جسم میں مدافعتی خلیے پیدا ہونے کی وجہ سے یہ دوبارہ نہیں ہو سکتا۔
لیکن چھوٹے بچوں اور کچھ بالغوں میں بعض اوقات جسم اس سے نہیں لڑ سکتا اور ہیپاٹائیٹس بیوائرس جسم میں زندگی بھر کے لیے رہتا ہے۔ اسے ‘دائمی ہیپاٹائیٹس بی’ کہتے ہیں۔ اس صورت میں وائرس جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے ، جگر پر کھرونچے پیدا کرسکتا ہے (cirrhosis، سیروسس) اور جگر کےکینسر کا موجب بن سکتا ہے۔ ادویات لے کر جگر کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے اور جگر کے کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔
بچاؤ
[ترمیم]ہیپاٹائیٹس بی کے مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
ہیپاٹائٹس بی ویكسین (HBV)۔ ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ ہیپٹائٹس بی سے اور جگر کے کینسر جیسی اس کی پیچیدگیوں سے مؤثر طور پر حفاظت کرسکتا ہے۔یہ 95% سے زیادہ کیسوں میں انسان کو اس بیماری سے بچاتا ہے۔ یہ بچپن كے معمول كے حفاظتی ٹیكوں كے پروگرام میں شامل كیا جاتا ہے اور پہلے چھ ماہ میں لگائے جاتے ہیں۔ اگر کسی بچے کی ماں کو یہ مرض لاحق ہو تو نومولود بچے کو پیدائش کے فوراً بعد یہ ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی نے بچپن میں یہ ٹیکہ نہیں لگوایا تو بعد میں اسے لگوانا ضروری ہے۔ زمانہ طفلی میں لی گئی ویکسین کے بارے میں خیا ل کیا جاتا ہے کہ یہ کم از کم 30 سال تک جسم کی اس وائرس سے حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ اس کے بعد اس کے مؤثر ہونے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بہتر سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بعد ہر دس سال کے بعدجسم میں ہیپاٹائٹس بی کی مدافعتی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے اور اگر ضرورت ہو تو حفاظتی ٹیکہ دوبارہ لگوایا جائے۔ تاہم ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اگر ایک بار جسم میں ہیپاٹائٹس کا وائرس متحرک ہو گیا اور بیماری شروع ہو گئی تو حفاظتی ٹیکہ نہیں لگایا جا سکتا۔
حفاظتی ٹیکے کے علاوہ بچاؤ کی دیگر ہدایات کچھ یوں ہیں۔
- استعمال شدہ سرنج کا استعمال مت کریں ۔
- معالجین اور دیگر ایسی جگہوں پر جہاں لوہے کے آلاتِ جراحی کا استعمال ہوتا ہے مثلاً دندان ساز ، حجام، بیوٹی پارلر، ناک کان چھیدنے والے وغیرہ۔ اس بات پر اصرار کرنا چاہیے کہ دوسروں پر استعمال کردہ آلات کو استعمال نہ کیا جائے بلکہ سرنج کی صورت میں نئی سرنج اور دیگر آلات کو جراثیم کش آلات و طریقے کی مدد سے جراثیم سے پاک کر کے استعمال کیا جائے۔
- اگر خون کا عطیہ لیا جائے تو پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے تا کہ اس بات کو یقینی کیا جائے کہ دیے جانے والے خون میں وائرس موجود نہیں ہے۔
- قربت کے تعلقات میں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ فریقین میں سے کوئی اس مرض کا شکار نہیں ہے۔ اور ہونے کی صورت میں حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔
علاج
[ترمیم]ہیپاٹائیٹس بی کے وائرس کے متحرک اور مرض لگنے کے بعد بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن چند ادویات کے استعمال اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ایک نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
ادویات سے ہیپاٹائیٹس بی سے مکمل شفایاب تو ممکن نہیں ہوتی لیکن اس سے جگر کو ہونے والے نقصان پر قابو پایا جا سکتا ہے، جگر کے کینسر کا امکان کم کیا جا سکتا ہے اور جگر کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔[5]
ایک بار خون میں وائرس کی تشخیص ہونے کے بعد معالج سے مشورہ بہت ضروری ہے۔ خون کے ٹیسٹوں کے ساتھ ساتھ معالج ایک فائبرو سکین بھی کر سکتا ہے۔ فائبرو سکین جگر کا سکین ہے جو بتاتا ہے کہ آیا جگر کوکوئی نقصان ہو ا ہے یا جگر پر کھرونچے ہیں (سیروسس) اور کس قدر نقصان ہو چکا ہے۔اس کے بعد معالج فیصلہ کرتا ہے کہ صرف ادویات کا استعمال کروایا جائے یا جگر کے مخصوص ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے۔
- لازماً اپنے معالج کو چھ سے بارہ ماہ کے بعد دکھایا جائے ، چاہے بظاہر بیماری کے اثرات محسوس نہ ہو رہے ہوں۔
- متوازن، صحت افزا غذا لی جائے۔ تلی ہوئی، تلی ہوئی، مرغن کھانوں سے پرہیز کیا جائے۔ بیکری کی چیزوں اور مصنوعی طریقے سے محفوظ کردہ گوشت اور ذبہ بند مشروبات و کھانوں سے پرہیز کیا جائے۔
- پانی اور تازہ مشروبات زیادہ سے زیادہ لیے جائیں۔
- تمباکو نوشی ترک کر دی جائے یا بہت کم کر دی جائے۔ الکوحل کا استعمال ترک کر دیا جائے۔
- باقاعدگی سے ورزش کی جائے ۔
- ذہنی دباؤ پر قابو رکھا جائے اور مثبت طرزِ زندگی اپنایا جائے۔
- کوئی بھی دوا چاہے وہ ایلوپیتھی کی ہو یا ہومیو پیتھی و حکیمانہ، استعمال کرتے ہوئے اپنے معالج سے مشورہ کیا جائے ورنہ ان کا زیادہ استعمال جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
- اپنے آپ کو دوسری چھوتی بیماریوں سے بچائیں کیونکہ یہ آپ کی صحت کو شدید طور پر متاثر کر سکتی ہیں اور جگر کے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ جن بیماریوں کے لیے حفاظتی ٹیکے موجود ہیں ان کے ٹیکے لگوائے جائیں۔[5]
مزید اہم معلومات
[ترمیم]Hepatitis B - World Health Organization
Hepatitis B Questions and Answers for the Public - Centers for Disease Control and Prevention - CDC
پاورہاوس (جگر) کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟
جگر کے امراض سے بچانے میں مددگار سبزیاں
جگر کے لیے فائدہ مند اور نقصان دہ غذائیں
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب Family Health Service Deptt of Health (جولائی 2017ء)۔ "ہیپٹائٹس بی ویکسین"۔ Family Health Service۔ Department of Health- The Govt of Hong Kong Special Administrative Region۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2020ء
- ↑ Organization World Health (@2020)۔ "Hepatitis"۔ World Health Organization۔ WHO۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2020ء
- ↑ ویب ڈیسک (17 جون 2020ء)۔ "ہیپاٹائٹس پاکستان میں تیزی سے پنچے گاڑنے لگا"۔ جیو نیوز۔ صحت و سائنس۔ Geo News Pakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2020ء
- ↑ "ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس بی"۔ ویکسین کی تاریخ۔ The College of Physicians of Philadelphia۔ 20 مارچ 2017ء۔ 26 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2020ء
- ^ ا ب good All (5 نومبر 2020ء)۔ "ہیپاٹائیٹس بی کیا ہے؟"۔ All good۔ Australasian Society for HIV, Viral Hepatitis and Sexual Health Medicine۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2020ء
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2011/05/110516_pakistan_hepatitis_ha
https://www.dawnnews.tv/news/1106562
https://www.bbc.com/urdu/science/2013/07/130728_hepatitis_day_mb