الجہشیاری
ابو عبد اللہ محمد الجہشیاری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | خلافت عباسیہ |
وفات | 17 ذو القعدہ 321ھ، 23 جولائی 942ء بغداد، خلافت عباسیہ |
دیگر نام | محمد، ابو عبد اللہ |
والد | عبدوس |
عملی زندگی | |
پیشہ | عباسیوں کے بیوروکریٹ، مؤرخ |
دور فعالیت | 908ء – 940ء |
وجہ شہرت | کتاب الوزراء و الکُتّاب کے مصنّف |
درستی - ترمیم |
ابو عبد الله محمد بن عبدوس بن عبدالله الکوفی الجهشیاری خلافت عباسیہ کے ایک ممتاز سرکاری اہلکار، مؤرخ اور ادیب تھے۔
سوانحی حالات
[ترمیم]الجہشیاری کی پیدائش کوفہ میں ہوئی جو تب اِسلامی دُنیا کے بڑے علمی مراکز میں سے ایک شمار ہوتا تھا۔[1] ان کے والد عبدوس نائب السلطنت اور سپہ سالار الموفق باللہ (دورِ حکومت: 870ء تا 891ء) کے محل دار (حاجب) ابو الحسن علی بن جہشیار کے ملازم تھے اس نسبت سے یہ الجہشیاری کہلائے۔[2] ابتدا میں ایک معمولی کاتب تھے[3] مگر ترقی کرتے ہوئے عباسی انتظامیہ کے اعلیٰ سطحی اہل کار ہوئے۔[4] 913ء میں والد کی وفات پر اُنھیں المقتدر باللہ کے وزیر علی بن عیسیٰ کی حجابت کا فریضہ سونپا گیا۔ وہ اس اہم عہدہ پر 917ء تک قائم رہے۔ 918ء میں وہ علی بن عیسیٰ کے ذاتی محافظوں کے دستہ کی سالاری پر متعین ہوئے اور پھر حامد بن عباس کے حاجب تعینات ہوئے جو علی بن عیسیٰ کے بعد وزارت پر مقرر ہوئے تھے۔[5]
ابن مقلہ حامد بن عباس کا سیاسی حریف تھا اور چاہتا تھا کہ حامد کو ہٹا کر خود وزارت پا لے۔ الجہشیاری چوں کہ ابن مقلہ کا حامی تھا، اس بنا پر حامد بن عباس سے اُس کی ان بن شروع ہو گئی اور الجہشیاری اُس کی ملازمت سے علیحدہ ہو گیا۔ ابن مقلہ بعد ازاں وزیر بنے اور تین دفعہ اس اہم عہدے پر فائز رہے، تیسری وزارت کے خاتمہ پر جب ابن مقلہ خلیفہ کے عتاب کا نشانہ بنے تب الجہشیاری ہی تھے جنھوں نے ابن مقلہ کی حفاظت کی۔[1] 930ء میں دورانِ حج ابن مقلہ نے الجہشیاری کو اس اعزاز سے نوازا کہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف کو عراق سے مکہ لائے۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ 935ء یا 936ء میں ابن مقلہ نے الجہشیاری کو دو لاکھ دینار بطور تحفہ، عطا کیے۔[6] درباری سازشوں میں مسلسل شراکت کے سبب مخالف وزراء اور امراء الامراء ابن رائق اور بجكم (دورِ امیر الامرائی: 938ء تا 941ء) کی جانب سے اُنھیں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور جرمانے بھی ادا کرنے پڑے۔[1] آخری ایام میں وہ مکمل طور پر سیاسی گمنامی میں چلے گئے تھے اور اسی حالتِ گمنامی میں اُن کی وفات ہوئی۔[2]
علمی کارنامے، کُتب
[ترمیم]الجہشیاری نے تین کُتب تصنیف کیں۔
- الوزراء و الکُتّاب: اس کتاب میں عباسی دور کے وزراء اور کاتبوں کے حالات کا بیان ہے۔ یہ کتاب ایک لحاظ سے خلافتِ عباسیہ کی انتظامی تاریخ بھی ہے۔ الجہشیاری نے اس کتاب میں عباسی حکومت کی ابتدا سے لے کر 908ء تک کے حالات درج کیے تھے مگر آج اس کتاب کا جو نسخہ محفوظ ہے اس میں یہ حالات المہدی (دور: 775ء - 785ء) کے دور تک درج ملتے ہیں۔[7]
- اخبار المقتدر العباسي: اس کتاب میں المقتدر (دور: 908ء - 932ء) کے دورِ حکومت کے حالات درج تھے، یہ کتاب اب نایاب ہو کر ضائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب میں عمالِ خلافت کی توصیف بھی درج ہے بالخصوص برامکہ کی خصوصی طور پر تعریف اور اُن کے سیاسی مخالف بنو الفرات پر سخت تنقید کی گئی ہے۔
- اسمار العرب والعجم والروم وغيرهم[8]
- ایک کتاب الف لیلہ و لیلہ کی طرز پر بصورت نظم لکھی جا رہی تھی مگر ابھی 480 اشعار ہی ہو پائے تھے کہ موت نے الجہشیاری کو آ لیا اور یہ کتاب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔[9]
انگریز مؤرخ ہیو این۔ کینیڈی کا بیان ہے کہ عباسی خلافت کی پہلی صدی (750ء - 850ء) کے تاریخی حالات کے بیان میں الجہشیاری کا نکتہ نظر یہ رہا کہ یہ صدی درباری سازشوں سے مملو ہے اور اس زمانہ کے اکثر اہم تاریخی کردار دوستی، نفرت اور حسد کے جذبات سے مغلوب تھے۔[4]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ دسویں صدی کا ایک عالم تاریخ کے تناظر میں: الجہشیاری اور برامکہ، ماریہ جیووانا اسٹاسولا، رسالہ: یوریشین اسٹڈیز، جلد 10، شمارہ: 1-2، صفحات: 221-223، 2012ء
- ^ ا ب دسویں صدی کا ایک عالم تاریخ کے تناظر میں: الجہشیاری اور برامکہ، ماریہ جیووانا اسٹاسولا، رسالہ: یوریشین اسٹڈیز، جلد 10، شمارہ: 1-2، صفحات: 226، 2012ء
- ↑ مائیکے وان برکل، نادیہ ماریہ الشیخ، ہیو کینیڈی، لیٹیزیا اوسٹی (2013-07-11)۔ عباسی دربار میں بحران اور تسلسل: المقتدر باللہ کی خلافت میں رسمی و غیر رسمی سیاست (295-320ھ / 908-932ء) (بزبان انگریزی)۔ لائیڈن: BRILL۔ صفحہ: 197۔ ISBN 978-90-04-25270-7
- ^ ا ب ہیو کینیڈی (2016-03-17)۔ عباسی خلافت کا ابتدائی زمانہ: سیاسی تاریخ (بزبان انگریزی)۔ ابنگڈن: روٹلیج پبلشر۔ صفحہ: 217۔ ISBN 978-1-317-35807-7
- ↑ دسویں صدی کا ایک عالم تاریخ کے تناظر میں: الجہشیاری اور برامکہ، ماریہ جیووانا اسٹاسولا، رسالہ: یوریشین اسٹڈیز، جلد 10، شمارہ: 1-2، صفحات: 223-224، 2012ء
- ↑ دسویں صدی کا ایک عالم تاریخ کے تناظر میں: الجہشیاری اور برامکہ، ماریہ جیووانا اسٹاسولا، رسالہ: یوریشین اسٹڈیز، جلد 10، شمارہ: 1-2، صفحات: 225، 2012ء
- ↑ المحسن بن علی التنوخی (2019-05-07)۔ تقویٰ اور عبادات کی داستانیں، بعد از مصیبت نجات (بزبان انگریزی)۔ نیو یارک (امریکا): نیو یارک یونی ورسٹی پریس۔ صفحہ: 286۔ ISBN 978-1-4798-5024-2
- ↑ موسوعة الاعلام، عنوان: ابن عَبْدوس الجهشياری، خير الدين الزركلي (1980)
- ↑ كتاب ظهر الاسلام، احمد امین، صفحہ 100، مكتبة النهضة المصرية، تیسرا ایڈیشن