بکواس
بکواس (انگریزی: Nonsense) گفت و شنید کی وہ کیفیت ہے جو تقریر، تحریر یا کسی علامتی نظام میں ہوتی ہے۔ اس میں کوئی قابل فہم معانی یا تُک نہیں ہوتے۔ ایک معمولی سطح پر بکواس بالکل ہی بھدا اور بے معنی ہوتا ہے۔ تاہم شاعروں، ناول نگاروں، نغمہ نگاروں نے اپنے کاموں میں اکثر بکواس یا بے معنی تصورات سے کسی سوچ کا آغاز کیا اور پھر اس سے مزاحیہ مواد، دل چسپ واقعات، ظرافت یا زبان کے استعمالات اور توجیہات کے فرق کو سمجھایا۔ زبان اور سائنس کے فلسفے میں بکواس عقل مندی کی ضد کی طرح ہے اور اسے آغاز کر کے مربوط اور مستقل طور پر تصورات کی معنویت اور ان کے فرق کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس شعبے کا مطالعہ رمز نگاری میں اہم سمجھا گیا ہے جہاں کسی اشارے کو خلل سے الگ کر کے دکھایا گیا ہے۔
ادب میں استعمال
[ترمیم]ایلس ایڈونچر ان ونڈر لینڈ یا مختصرا ایلس ان ونڈر لینڈ ایک ناول ہے جسے 1865ء میں لویس کارول ایک انگریز مصنف نے لکھا۔ اس میں ایک بچی جس کا نام ایلس ہے کی کہانی بیان ک گئی ہے جو خرگوشوں نے کھودے ہوئے ایک سوراخ میں گر جاتی ہے جہاں اس بچی کا سامنا ایک نئی عجیب دنیا سے ہوتی ہے۔ یہ کہانی برطانیہ سمیت کئی ممالک کے بچوں بڑوں میں اب بھی یکساں مقبول ہے حالاں کہ بہت سے واقعات عام حواس کے حساب سے بکواس ہیں۔
اندھیری نگری چوپٹ راجا
[ترمیم]قدیم دور سے ایک عجیب سی کہاوت ایک کہانی پر مبنی ہو کر اردو زبان میں رائج رہی ہے۔ وہ ایک عام اصول و ضوابط سے دور حکمرانی اور نااہل حکمران یا راجا سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کہانی تمام ماورائے حقیقت بیانیوں سے قطع نظر سیاق و سباق کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور ہو چکی ہے۔ جدید طور میں بھی حکومتوں کی بد نظمی اور چوپٹ انتظامیے کے لیے کہ یہ کہانی کا عنوان ضرب المثل کے طور پر مستعمل ہے۔[1] [2]