"بادشاہی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ ترمیم: eu:Burujabetzaeu:Burujabetasun
م r2.7.3) (روبالہ ترمیم: la:Maiestas (ius constitutionale)
سطر 18: سطر 18:
[[bn:সার্বভৌমত্ব]]
[[bn:সার্বভৌমত্ব]]
[[be:Суверэнітэт]]
[[be:Суверэнітэт]]
[[bg:Суверенитет]]
[[bs:Suverenitet]]
[[bs:Suverenitet]]
[[br:Riegezh]]
[[br:Riegezh]]
[[bg:Суверенитет]]
[[ca:Sobirania]]
[[ca:Sobirania]]
[[cs:Svrchovanost]]
[[cs:Svrchovanost]]
سطر 46: سطر 46:
[[ka:სუვერენიტეტი]]
[[ka:სუვერენიტეტი]]
[[kk:Егемендік]]
[[kk:Егемендік]]
[[la:Maiestas (Ius constitutionale)]]
[[la:Maiestas (ius constitutionale)]]
[[lv:Suverenitāte]]
[[lv:Suverenitāte]]
[[lb:Staatsgewalt]]
[[lb:Staatsgewalt]]

نسخہ بمطابق 01:09، 30 اگست 2012ء

اصطلاح term
بادشاہی Sovereignty

بادشاہی سے مراد قانون بنانے کی آزادی ہے، جس کو یہ آزادی ہو وہ بادشاہی کا مالک اور جس پر قانون لاگو ہوں وہ محکوم کہلاتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق بادشاہی صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے، یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے قانون (بذریعہ پیغمبر) ہی زمین پر لاگو ہونے کے اہل ہیں۔ خلافت کے زریعہ یہ قوانین نافذ ہونا مسلمانوں کی سوچ ہے۔ دنیا میں گزرے اکثر بادشاہ اس بادشاہی کے دعوٰی دار رہے ہیں اور انہی معنوں میں خدائی کے دعوی دار بھی تھے [1]۔ عیسائیوں میں بادشاہ کی بادشاہی اسی معنی میں قابل قبول تھی جس معنوں میں مسلمان خلیفہ کی سربراہی قبول کرتے ہیں۔ اس طرح اب تک بیشتر یورپی ممالک میں بادشاہت کا تخت قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں جمہوریت کے نظام کے تحت یہ سوچ مروج ہو گئ ہے کہ پارلیمنٹ کو بادشاہی حاصل ہے، یعنی جو قانون چاہے بنانے میں آزاد ہے۔ کچھ ممالک میں اس قانونی آزادی پر کچھ قدغنیں بتائی جاتی ہیں۔ مثلاً کینیڈا کے قانون میں پارلیمنٹ "چارٹر آف فریڈم" کے خلاف قانون بنائے تو اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں "بل آف رائٹس" کا نام لیا جاتا ہے۔ اکثر اسلامی ممالک کے آئین (جیسا کہ پاکستان) میں یہ شق شامل ہے کہ پارلیمنٹ قرآن اور سنت نبویﷺ سے متصادم کوئ قانون نہیں بنائے گی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بادشاہی صرف اللہ کی ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے ٹھکیداروں کو البتہ یہ صورت گوارا نہیں اور وہ دنیا بھر مٰیں جب جمہوریت پھیلانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں تو اس میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انسان (یعنی پارلیمنٹ) کی بادشاہی دنیا کے ہر ملک میں قبول کی جائے۔

حوالہ جات

  1. مولانا مودودی،تفہیم القران