"دہشت گردی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.2+) (روبالہ جمع: tt:Террорчылык
م r2.7.2) (روبالہ جمع: sco:Terrorism
سطر 272: سطر 272:
[[ru:Терроризм]]
[[ru:Терроризм]]
[[sah:Терроризм]]
[[sah:Терроризм]]
[[sco:Terrorism]]
[[sq:Terrorizmi]]
[[sq:Terrorizmi]]
[[scn:Tirrurìsimu]]
[[scn:Tirrurìsimu]]

نسخہ بمطابق 09:51، 6 مارچ 2013ء

دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کرنا کہ جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائےسے لاگو کی جاسکے ، اگر ناممکن نہیں تو کم ازکم بحرامکان لاپذیر کے ساحل پر پیادہ رو ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور اس معاشرے کے حالات کو یکسر نظر انداز کردیا جائے تو پھر اس لفظ کی لـغـوی تـشریـح یوں ہو سکتی ہے کہ؛ خوف اور ہراس پیدا کر کے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسے نپے تلے طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا کہ جس سے قصور وار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر، (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ حدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب (جسمانی نہ سہی نفسیاتی) پھیلایا جائے۔

دہشت گردی کامرکز پاکستان اور افغانستان

استعمار کو خوف

ذاوالفقار علی بھٹو کا دورئہ سعودی عرب تھا ، شاہ فیصل مرحوم شہنشاہ تھے ۔ طے یہ پا یا کہ بھٹو سعودیہ کی آ ئل ریفا ئنر ی کا معا ئنہ کر یں گے بھٹو نے شر ط لگائی کہ جب وہ ریفا ئنر ی کا دورہ کر یں تو اسے بند کر دیا جائے جب ریفائنر وں کے انجنیرز تک خبر پہنچی تو انہوں نے اسے نا ممکن قرار دے دیا کیونکہ ریفا ئنر ی کے بند ہو نے سے دنیا میں ہلچل مچ جا نی تھی ۔ بھٹو کے اصرار پر ریفا ئنری بند کر دی گئی بھٹو نے کئی گھنٹوں تک ریفائنری کے مختلف شعبوں کا بغور جا ئزہ لیا دوسری جا نب مغربی دنیا اس اچا نک تیل کی ترسیل کے بند ہو نے پر سیخ پا ہو گئی ۔ ٹیلی فونوں کا لا متنا ہی سلسلہ شروع ہو ا تو عرب ممالک کے سربراہان سے بھٹو نے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ تیل کی طا قت تمہیں دنیا پر حکمر انی کیلئے کا فی ہے کیونکہ تیل کے ہتھیا ر کا سوئچ مسلم دنیا کے پا س ہے۔ لیکن جب ہنودویہود نے دیکھا کہ پا کستا ن جیسے ایک چھوٹے ملک میں ایسا شخص پو ری دنیا کی قیا دت کیلئے آ ٹھ رہاہے تو پاکستا ن کے ہی ایک غدار اور آ مر(ضیاءالحق) کے ذریعے انکا عدالتی قتل کرا دیا گیا بھٹو آ تی دنیا تک امر ہو چکا۔ لیکن اب بھی قیا دت کا فقدان نہیں کمی ہے تو سو چ جذبے اور امتِ مسلمہ کی یکجہتی کی۔ [1]

دہشت گردی کی بنیاد

دہشت گردی کی پہلی اینٹ خود برطانیہ کی رکھی ہوئی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور اسلام میں فرقہ بندی کی دراڑ پیداکرنا ۔اسکو سمجھنے کے لئے برطانوی جاسوس ہمفر کی یادداشتیں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کس طرح برطانیہ نے خطہ عرب میں اپنے من پسند خاندانوں کو حاکم بنایا۔ اور کس طرح اسلام میں نئے فرقوں کی بنیاد رکھی۔ بر طانیہ کے زوال کے بعد اس کی جگہ امریکہ نے لی۔ برطانیہ نے شیعہ مسلمانوں میں فرقہ شیخیہ کے نام سے ایک فقہ متعارف کرایا جسکا بانی شیخ احمد احسایی تھا۔اور سنی مسلمانوں میں فرقہ وہابیہ کے نام سے ایک فقہ متعارف کرایا۔ جسکا بانی شیخ محمد بن عبدالواہاب تھا۔ [2] [3]

جس وقت عراق، حوزہ ھای علمیہ کا مرکز تھا، استعمار اپنے برے اہداف کو تکمیل کرنے کیلئے فرقہ سازی کیلئے مصمم ہوجاتا ھے۔ دو کٹّر مخالف گروہ تشکیل پاتے ہیں ایک عراق میں کٹّر شیعہ اور دوسرا سعودی عرب میں کٹّر سنی (وہابی)،چنانچہ عراق کٹّرشیعہ کا نام ” شیخیہ “ پڑا، جس کا بانی ”شیخ احمد احسایی“ اور اس کا شاگرد ”سید کاظم رشتی“ تھا۔ اس فرقہ نے آئمہ علیھم السلام کے مقام و عظمت کو اس قدر بڑھا یا کہ خدائی حد تک پہنچا دیا، اور اس طرح کے بہت سے مسائل میں بہت زیادہ غلوسے کام لیا۔ شیخ احمد احسایی نے منطق اور فلسفہ نھیں پڑھا تھا لیکن پھر بھی فلسفہ اور عرفان اسلامی میں آگاہ ہونا چاہا، بغیر کسی استاد کے خود شخصی مطالعہ کرنا شروع کردیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ہی حکمت اور فلسفہ کو لمس کرسکا اور نہ ھی عرفان کی بوسونگھ سکا ، لیکن پھر بھی اپنے کو اس فن کا مجتہد گمان کرنے لگا، اور کچھ عقائد کی بنا گذاری کی ۔ [4]

دوسری طرف عربوں میں انگلینڈ کے جاسوسوں نے وہابی فرقہ کی بنیاد رکھی۔ اس فرقہ نے آئمہ علیھم السلام کے مقام و عظمت کو اس قدرگھٹایا کہ ان کے نام لینے والوں کو مشرک کہنا شروع کیا۔ اس فرقہ نے کٹّروھابیت کے ذریعہ شیعوں کے خلاف تہمتیں اور ان کے کفر کے فتووں کا راستہ ھموار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ، خشک اور دل خراش طریقوں اسلامی کتب کے دفاع اور علم منطق اور فلسفہ سے جنگ کی غرض سے بہت سے بڑے بڑے شیعہ عالموں کو کافر کھناشروع کر دیا۔ اس فرقہ کی آبیاری میں سعودبن عبدالعزیزکا خاص کردار رہا۔ ماضی کی یہی فرقہ سازی آج کے دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ [5]

دہشت گردی کا مرکز

دہشت گردی کامرکز پاکستان اور افغانستان یا سعودی عرب؟ یہ سوال خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ جہاد کے نام پہ جنگ کی ابتداء تحریک جہاد جو تحریک محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سید احمد شہید جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں وہ بھی وہابی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی بھی کوشش کی تھی وہ بھی وہابی نقطہ نظر کے حامی تھی اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے ان کا علاقے میں کافی اثر رسوخ تھا اور لوگ ان سے متاثر تھے۔فریضہ حج سے واپسی کے بعد سید احمد شہید نے جہاد کا آغاز کیا ۔انکا جہاد صرف سکھوں کے خلاف تھا اور انگریزوں سے کوئی سرو کار نہیں رکھا۔اور یہ اس علاقہ میں جہاد کی بنیاد بنی۔ [6]

دہشت گردی کی چنگاری بر طانیہ دور میں سلگائی گئی اور شیعہ سنی اختلافات کو سازش کے تحت واضع کیا گیا۔اس چنگاری کو تیل کی دولت نے شعلے میں تبدیل کیا۔ جس وقت عرب اور ایران میں تیل پیدا ہوا تو دونوں ملکوں نے اپنے فقوں پر دل کھول کر دولت خرچ کرنا شروع کیا۔اور استعمار کی سازشوں نے بھی اپنا کام شروع کیا۔ ایران عراق جنگ اسکی روشن مثال ہے۔ ایران اور عراق کی اس جنگ میں تباہی و بربادی کا حشر دیکھ کر عربوں نے جنگ کے لئے دوسروں کی زمین اور دوسروں کی افرادی قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے دو بد نصیب غریب مسلمان ملکوں کا انتخاب کیا گیا جو افغانستان اور پاکستان منتخب ہوئے۔ کیونکہ افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں شیعہ ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ عربوں نے اپنی فقہ وہابیہ کی تبلغ کے لئے دونوں ممالک میں خزانوں کے منہ کھول دیئے۔جس کا مقصد دوسروں کی سر زمین پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک فوج کھڑی کرنا تھا۔ اس کے لئے دونوں ممالک کے ذرپرست ملاوں اور جرنیلوں نے اپنے خدمات پیش کئے۔ روس کی شکست کے بعد افغانستان ایک لاوارث سرزمیں بن گیا۔ اور امریکہ نے اسکو ملاوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیامگر پاکستانی جرنیلوں نے جان بوجھ کرمفت تیل درہم دینار اور ڈالرز کی لالچ میں ملک کو اس آگ میں جھونک دیا۔ اور عربی اونٹ کو اپنے خیمے میں سر ڈالنے کی اجازت دے دی۔ آج پاکستان اور افغانستان میں عربوں کی غیر عرب فوج تیار ہے ۔ جس میں جانیں بھی عجمیوں کی ہیں اور سرزمین بھی عجمیوں کی صرف دولت عربیوں کی ہے۔ [7]

دہشت گردی عالمی راۓ

سعودی عرب، خلیجی ممالک دہشت گردوں کی مالی معاونت کررہے ہیں، ویکی لیکس

ویکی لیکس کی جانب سے سامنے آنے والے نئے انکشافات میں کہا گہا ہے کہ سعودی عرب اوربعض خلیجی ممالک متعدد دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت کررہے ہیں۔ ویکی لیکس نے یہ انکشافات امریکی سفارت خانوں کی جانب سے واشنگٹن بھیجے جانے والے تاروں کے حوالے سے کئے ہیں۔

قاہرہ میں وائس آف امریکا کے نمائندے ایڈورڈ یرانین کے مطابق واشنگٹن روانہ کئے جانے والے مراسلات میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر مالی معاونت حج کے دوران دی جاتی ہے کیوں کہ ان دنوں مالی معاملات پر نظر رکھنا نہایت مشکل امر ہے۔

ویکی لیکس کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو سب سے زیادہ مالی معاونت سعودی عرب سے ملتی ہے۔ ویکی لیکس نے اخباری اطلاعات کے حوالے سے کہا ہے کہ خفیہ دستاویزات میں اس معاملے پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے کہ متعدد خلیجی ریاستیں جن میں قطر اور کویت بھی شامل ہیں، دہشت گرد گروپوں کو رقم فراہم کرنے والوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی عرب القاعدہ، طالبان اور حماس سمیت دیگر دہشت گردگروپو ں کی مالی معاونت کررہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ رمضان اور حج کے دنوں میں سالانہ لاکھوں ڈالر امداد جمع ہوتی ہے جو دہشت گرد گروپو ں کو پہنچا دی جاتی ہے۔

برطانیہ کی ایسیٹر یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر عمر اشور کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی حمایت کے سلسلے میں سعودی حکومت کی پوزیشن بالکل واضح ہے۔ [8]

دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی سزا

ویکی لیکس:سعودی عرب نے پاکستان کوتیل میں دی گئی رعایت ختم کردی اسلام آباد: سعودی عرب نے پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے گزشتہ ڈھائی سال میں بار بار کی درخواستوں کے باوجود پاکستان کو تیل کی فراہمی کے حوالے سے ادائیگی میں دی گئی سہولت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ انکشاف ویکی لیکس نے ریاض میں امریکی سفارتخانے کی دستاویزات کے حوالے سے کیا ہے۔ ویکی لیکس نے امریکی سفارت خانے کی خفیہ مراسلات سے یہ نقل کیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی پیشکش کو قیمتوں میں کمی تک زیرالتواء رکھا گیا تاکہ سعودی وزارت پیٹرولیم کی طرف سے اس پر عملدرآمد میں آسانی پیدا ہو جائے۔ جولائی 2008ء میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے سعودی حکام کے الفاظ کوڈ کئے گئے ہیں کہ قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی پر ہی پاکستان کو تیل کی مد میں سہولت بہم پہنچائی جائے گی مگر گزشتہ ڈھائی سال میں قیمتوں میں معقول کمی کے باوجود یہ سہولت نہیں دی گئی ہے۔ جب پاکستان نے سعودی عرب سے تیل کی فراہمی میں رعایت حاصل کی تو اس وقت خام تیل کی قیمت 147 ڈالر فی بیرل تھی مگر اب جبکہ تیل کے نرخ عالمی سطح پر 85 سے 90 ڈالر کے درمیان ہیں۔ تیل کی فراہمی میں رعایت نہیں دی گئی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے نومبر 2008ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس سے چار ماہ قبل امریکی سفارت خانہ نے تیل کی پاکستان کو رعایت کی سہولت ختم ہونے کے حوالے سے رپورٹ واشنگٹن بھیج دی تھی۔ پاکستانی وفد نے جس میں شوکت ترین بھی شامل تھے جو بعدازاں وزیر خزانہ بنے۔ سعودی حکومت کو تیل کی فراہمی میں رعایت کی درخواست کی مگر وہاں سے اسے کچھ نہ ملا [9]

پا کستان میں سعودی مداخلت

پاکستان کے اندرونی معاملات میں سعودی مداخلت دنیا کی تاریخ کا بھیانک واقعہ ہے ، چوہدری نثار،نواز شریف کے اغوا میں جتنا ہاتھ حکومت پاکستان کا ہے اتنا ہی سعودی حکومت کا ہے ، سعودی حکومت کے اس اقدام سے دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید دھچکا لگا ،برطانوی خبررساں ادارے کو انٹرویو: لندن [10] پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر و سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں سعودی مداخلت دنیا کی تاریخ کا بھیانک واقعہ ہے، نواز شریف کے اغوا میں جتنا ہاتھ حکومت پاکستان کا ہے اتنا ہی سعودی حکومت کا بھی ہے ، سعودی حکومت کے اس اقدام سے دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایک برطانوی خبر رساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جس انداز سے سعودی حکومت نے پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی ہے وہ دنیا کی تاریخ میں ایک بہت ہی بھیانک واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ایک شخص کی حمایت میں کیا گیا ہے، ایک ایسا شخص جو پاکستان میں زور بازو اور زور بندوق کے عوض حکمرانی کر رہا ہے۔چودھری نثار علی خان نے کہا کہ سعد حریری نے میاں نواز شریف سے لندن میں جو بات چیت کی اس کا جو بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ واپس جا سکتے ہیں مگر آپ ایک مہینے کے بعد جائیں جب جنرل مشرف کا الیکشن ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ سعد حریری اور میاں نواز شریف کے مابین چار ملاقاتیں ہوئیں اور اس حد تک کہا گیا کہ آپ دس تاریخ کو نہ جائیں اور بہت ہی مجبوری ہے تو آپ میاں شہباز شریف صاحب کو دس تاریخ کو بھیج دیں اور آپ صدارتی الیکشن کے بعد جائیں تو تمام راہیں آپ کے لیے کھلی ہیں۔چودھری نثار علی خان نے مزید کہا کہ امریکہ نے جب کبھی دخل اندازی کی ہے تو اس کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ یہ بیک چینلز میں رہے، اس کا سامنے اظہار نہ ہو مگر جس دیدہ دلیری سے سعودی انٹیلی جنس چیف یہاں آئے ہیں، ایک تیسرے ملک کا ایک نام نہاد گواہ وہ ساتھ لے کر آئے ہیں جس انداز سے انہوں نے وہ ایک کاغذ لہرایا ہے اور جس انداز سے انہوں نے یہاں باتیں کی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے جو عوامی تعلقات ہیں، جو ایک بہت بڑا احترام کا رشتہ ہے، اس کو ایک ایسا دھچکا لگا ہے جس کے بڑے دور رس اثرات ہوں گے۔ [11]

سعودی میں پاکستا نی سفیرسے سعودی عرب اورپاکستان کے تعلقات کے بارے میں استفسار کیاگیاتوعلی شیرزئی نے اعتراف کیاکہ آصف علی زرداری کے منتخب ہونے کے بعدباہمی رابطوں میں تناؤ ہے۔علی شیرزئی نے سعودی نظریے کوقصوروارٹھراتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب یہ سمجھتاہے کہ زرداری ایران اورشیعہ کمیونٹی کے حامی ہیں ۔علی شیرزئی کے مطابق سعودی عرب کے سخت برتاؤ کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے صدرایرانیوں سے بات چیت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کی سعودی قیادت تک اچھی رسائی ہے اوروہ باہمی تعلقات میں بہتری کیلئے کام کرتے رہیں گے‘‘۔ گویاپاکستانی سفیربھی پاک سعودیہ تعلقات کی کشیدگی کااعتراف کرتے ہوئے اپنی مجبوریوں کااظہارکررہے ہیں [12]

عید کا چاند

صدیوں سے مسلم دنیا میں عید کا چاند علاقے کے حساب سے دیکھا جاتا رہا اور اسی لحاظ سے عید منائی جاتی رہی۔ مگر اب ایک نئی بدعت کا اضافہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اپنے علاقے کے چاند واند کو بھول جاؤ اور سعودیہ کے چاند کے حساب سے روزے رکھو اور عید مناؤ۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کو ہر طریقے سے بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ اور خاص طور پر قبائلی علاقے والے ملا حضرات تو خاص طور پر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائیں۔ مگر اب یہ بیماری بقیہ ملک میں بھی پھیل گئی ہے اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کو اس حد تک بدنام کر دیا جائے کہ لوگ اس سے بیزار ہو کر سعودیہ کے ساتھ عید منانا شروع کر دیں۔

آپ کو شاید معلوم نہيں کہ مرکزی رويتِ ہلال کميٹی کوسپارکو اور نيوی کے نيويگيشن ونگ کی مکمل معاونت حاصل ہوتی ہے اور سپارکو کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کی شب ملک کے کسی حصے ميں چاند نظر آنےکا کوئی امکان نہيں تھا۔ پچھلے پندرہ سال کی عیدیں مجھے یاد ہیں اور ميرے ذاتی مشاہدے ميں کبھی ايسا نہيں ہوا کہ اتفاقاً ہی سہی مگر کبھی مسجد قاسم علی خان (صوبہ سرحد) کا چاند سعوديہ کی بجائے رويتِ حلال کميٹی کے ساتھ نکل آيا ہو۔ لہذا اصل مسئلہ سب کےسامنے ہے۔ [13]

بندر بن خالد کا خط

سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے چیف جسٹس کو بھیجے گیا خط اسکی حقیقت کیا ہے اللہ جانتا ہے لیکن [14] قریباً پچیس ہزار پاکستانی حاجیوں کے لیے منیٰ میں پانچ مکاتب حاصل کیے گئے تھے جہاں بقول ان کے بجلی، پانی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات کا صحیح انتظام نہیں تھا۔

سعودی وزیر نے کہا کہ وہ یہ رقم اس لیے بھی ادا کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری اور پاکستان کے عوام میں اپنی اچھی شبیہہ کو بگڑنے نہیں دینا چاہتے۔ [15]

سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے چیف جسٹس کو بھیجے گیا خط آج زرداری حکومت گرانے کی وجہ بن رہا ہے مولانا فضل الرحمٰن کااستعفٰی اور اسکے بعد سعودی عرب جانے کا ارادہ سمجھ سے بالاتر ہے حقیقت کیا ہے واللہ عالم

اس سے یہ بات سو فیصد ثابت ہوتا ہے کہ سعودیہ پاکستان کی سیاست میں صرف ایک تماشائی نہیں بلکہ ایک کھلاڑی ہے۔یہ ڈھکی چپی بات نہیں ما ضی میں ضیاءالحق کے خدمات کے عیوض مفت سعودی تیل اور دیگر مراعات جس نے مدارس کو بیس ہزار کی تعداد تک پہنچایا اور مستقبل میں نواز شریف کے اوپر سعودی احسانات اس فرقے کے لئے مزید ترقی کا با عث ہونگے۔ جیسا کہ سعودیہ پاکستان میں شیعہ ایران کے خلاف ایک مخالف قوت پیدا کررہاہے تاکہ ایران کے خلاف اسطرف سے ایک محاز قائم ہو۔افغا نستان اور پاکستان کے صوبہ سرحد ،بلوچستان اور ایران کے اپنے بلوچستان میں بھی اس مقصد کے لئے مدارس میں شب و روز کام ہو رہا ہے۔جن کے نتائج پاکستان کے لئے مزید تبا کن ثابت ہونگے۔اور دہشت گردی مین اضافہ ہوگا

انسدادہشت گردی

ہشت گردی موجودہ زمانے کا سب سے بڑ ا مسئلہ ہے ،لیکن یہ کسی خاص ملک یا قوم کا مسئلہ نہیں ہے مگر جس انداز سے اس مسئلے کو دنیا کے سامنے رکھا جا رہاہے اُ س سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں دہشت گردی کی آڑ میں ہی پھل پھول رہی ہیں اسی لیے وہ لوگ جو دہشت گردی کو سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں وہی لوگ اس کو درِ پردہ زندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اُ ن کی دکانیں چلتی رہیں ۔اگر عالمی سطح پر اُن کوششوں کا جائزہ لیں جو اس کے انسداد کے حوالے سے کی جارہی ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مسئلہ تو اپنی جگہ پر ہے مگر اسے ختم کرنے اور جڑ سے مٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ،وہ خود ایک نئے مسئلے کو جنم دے رہی ہیں ۔ایک مشہور مصرعے :

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ،جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

کواگرمعمولی تحریف کے ساتھ اس طرح پڑھیں کہ:

دہشت تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ،دہشت کیا مسئلوں کا حل دے گی

تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج دہشت کے نام پر ایک مختلف انداز کی دہشت گردی ہورہی ہے۔اس میں ممالک کے علاوہ عالمی میڈیا بھی شامل ہے۔دہشت گردی کا جو مفہوم عالمی بالخصوص مغربی میڈیا نے عوامی سطح پر عام کیاہے وہ سراسر غلط اورتعصب پر مبنی ہے تعصب اس لیے کہ اس لفظ کے اندر بھرے زہر اور نفرت کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا یاجا رہا ہے اسی لیے اس لفظ کا مفہوم اور اس کی تعبیر وتشریح بھی اس انداز سے کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔حالانکہ مسلمان بھی یہ مانتے ہیں کہ دہشت گردی کسی بھی طرح روا نہیں ہے یہاں تک کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی دہشت گردی کو کسی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دنیا کے تمام مسلمان اس معاملے میں یک زبان اور ہم خیال ہیں ۔اس لیے کہنا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دہشت کرنے والا کوئی بھی شخص کسی مذہب کا سچا پیرو کار بھی نہیں ہوسکتا۔مسلمانوں نے ہر طرح سے اس کی مخالفت کی ہے با وجود اس کے ابھی تک عالمی میڈیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور اسلام دہشت گردی کو ہوا نہیں دیتا ۔نتیجہ یہ ہے کہ عالمی میڈیا کے اس رویے سے وہ لوگ بھی جو دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں اب بد ظن ہو کر کنارہ کش ہو رہے ہیں ۔اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ دہشت گردی کی تعبیر و تشریح چاہے جس انداز سے کریں ،اس میں مذہب اور کسی قوم کو نشانہ بنانا سراسر غلط ہوگا۔

اس حوالے سے اکثر پاکستان کا نام لیا جاتاہے کہ وہاں کی تمام حکومتیں دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے اور وہی وہ ملک ہے جہاں دہشت گردتربیت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ بات کلی طور پر درست تو نہیں مگر اتنی تو سچائی ہے کہ اسلام کے ماننے والے ہی پاکستان میں اپنے حقو ق کو حاصل کرنے کے لیے دہشت اور انتہا پسندی کا سہارا لے رہے ہیں ۔لیکن پاکستان میں کوئی ایسی مذہبی شخصیت نہیں جو ان کی حمایت اسلامی قوانین کے مطابق کرتی ہو۔یا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں جو انھیں درست جانتا ہو۔ متفقہ طور پر علما نے دہشت گردی کے خلاف فتوےجاری کیے ہیں ۔مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جو یقیناشرمناک ہیں ۔جیسے جنازے کے قافلے پر حملہ ، مدرسے اور اسکول کی عمارت پر حملہ اور لال مسجد کا واقعہ یہ ایسے واقعات ہیں جو عالمی میڈیا کو اس اعتبار سے گمراہ کرتے ہیں کہ یہا ں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمام مسلمانوں کی ذہنیت سے قریب ہے۔لیکن ایسا بالکل نہیں ہے ۔پاکستان کی اکثریت اس کی مخالف ہے مگر بات یہ ہے کہ جو حکومت اس کی مذمت کرتی ہے وہی حکومت اسے پناہ بھی دیتی ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا کبھی عوام کو ڈرانے کے لیے اور کبھی امریکہ کو یہ بتانے کے لیے پاکستان میں دہشت گرد موجود ہیں انھیں ختم کرنا ضروری ہے ، یہ کہہ کر مشرف حکومت نے امریکہ سے مالی امداد طلب کی ہے۔جب یہ صورت حال ہوگی تو نہ تو اس ملک سے دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ پاکستان انسداد دہشت گردی میں صف اول میں کھڑے ہونے کا حق ادا کر سکتا ہے ۔اسی طرح پاکستان نے کشمیر کے معاملے کو اتنا جذباتی اور مذہبی بنا دیا ہے کہ اس سے دہشت گردی کو ہوا مل رہی ہے۔اگر آج کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا نظریہ بدل جائے تو بہت کچھ مسائل یوں ہی طے ہو سکتے ہیں ۔اور پڑوسی ملک سے امن و امان کے ساتھ دوستی کا سفر آگے بڑھ سکتاہے۔ ان تفصیلات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ پاکستان کی غلطیوں سے بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہے خاص طور پر مدارس اور مساجد کے تقدس کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اس سے دنیا کے تمام مسلمانوں کا کو دلی صدمہ پہنچا ہے۔ اس لیے آج بھی اگر پاکستان اپنی شبیہ بدل لے تو صورت حال میں بڑی خوش آئند تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔لیکن صرف پاکستان کو مثا ل میں پیش کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا بالکل مناسب نہیں ۔

عالمی میڈیانے دہشت گردی کو جس طرح ہوّابنارکھا ہے جیسے یہ صرف مسلمانوں کی پیدا کردہ مصیبت ہے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی کی ابتدا حکمرانوں سے ہوتی ہے۔ لیکن تشدد پر مبنی اقدامات اور احکامات کو نائن الیون سے پہلے نہ تو امریکہ اور نہ ماضی کے سُپر پاور روس نے اس طرح کے واقعات کو دہشت گردی کا نام دیا۔ افغانستان میں جب روس اپنی بر بریت کاثبوت دے رہا تھا تو کیاوہ دہشت گردی نہیں تھی ؟یا امریکہ ویتنام اور ہیرو شیما پر بم برسا رہا تھا تو کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی۔اگر ماضی کی بات نہ بھی کریں تو ابھی امریکہ اور اتحادی افواج عراق اور افغانستان میں جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے؟ بالکل ہے اور اس سے بڑی کوئی دہشت گرد ی ہوہی نہیں سکتی کہ کسی ملک پر قابض ہو جائیں اور عوام کے لیے عرصہ حیات تنگ کردیں۔لیکن آ ج کی میڈیا دہشت گردی کرنے والے کو دہشت گرد نہیں کہتی بلکہ جو دہشت گردی کے شکار اور مظلوم ہیں وہ دہشت گرد ہیں ۔دہشت گردی تو یہ ہے کہ کوئی اپنی ذاتی ،ملکی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کامنفی استعما ل اس طرح کرے کہ اخلاقی،قانونی اور آئینی اعتبار سے غلط ہو ۔

ہیلری کلنٹن نے اپنے انتخابی مہم کے دوران یہ کہا تھاکہ اگر میں منتخب ہوتی ہوں اور ایران نے اپنا جوہری پروگرام بند نہ کیا تو اُسے نیست و نابودکردوں گی۔ہیلری کلنٹن کا یہ بیان بھی سیاسی دہشت گردی پر مبنی تھا اورآج جو کچھ ایران کے ساتھ کیا جا رہا ہے کیاوہ سیاسی دہشت گردی کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی نہیں ہے؟ایران کے ساتھ جورویہ اپنا یا جارہاہے وہ رویہ کوریا کے ساتھ کیوں نہیں؟ لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اسرائیل جیسا ملک جو ایسے خطرناک اسلحے لیے بیٹھا ہے جو پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہیں ، یہ اسلحے کسی بھی وقت دنیا کی تباہی کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اسرائیل کا رویہ ایسا ہے جیسے پوری دنیا میںاس کی منمانی چلے گی۔ اس نے ترکی کے جہاز پرحملہ کیا مگر کسی نے اسرائیل پر پابندی کی بات کیوںنہیں کی ۔ وہ کھلے عام ایران کو تباہ کرنے کی بات کرتا ہے مگر نہ تو اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اورنہ ہی اس کے اسلحے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہاہے ۔ کیا اسرائیل کی یہ حرکتیں دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتیں؟ بالکل یہ ریاستی دہشت گردی کی کھلی مثال ہے مگر اس کی جانب امریکہ کی نگاہیں نہیں اٹھیں اور نہ عالمی سطح پر دہشت گردی ختم کرنے والے اسے دہشت گردی سمجھ رہے ہیں ۔ ایسے میں دنیا سے دہشت گردی ختم کرنا ناممکن اس لیے ہے کہ دہرے رویے سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم ناممکن ہے۔اور عالمی میڈیا بھی اس جانب نظر نہیں ڈالتا۔اس صورت حال میں دہشت گردی کا یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ طاقتور ممالک جو بھی کریں وہ دہشت گردی نہیں ہے لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام اگر اپنے حق کی آواز بھی بلندکریں یا وہ کام کریں جو امریکی اور مغربی ممالک کر رہے ہیں تو وہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کو یہ دُہرا پیمانہ اور حسب ضرورت اس کی تشریح کسی بھی طرح درست نہیں ہے ۔اس لیے عالمی میڈیا (جسے ہم امریکی میڈیا کہیں تو زیادہ درست ہے)جو بھی کہے اور جو بھی تشریح پیش کرے۔نہ تو کوئی تسلیم کرتا ہے اور نہ کرے گا کیونکہ یہ سب منصوبہ بند مفاہیم ہیں ۔

انسدا دہشت گردی کے لیے کوئی بھی مہم یا کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک دہشت گردی کو نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہے کیا؟معاملہ یہ ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جو مہم جاری ہے وہ صرف مسلمان اور مسلم ممالک کو نشانہ بنا کر کیا جارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ صف اول میں جو ملک کھڑا ہے وہ بھی مسلم ملک ہے۔ایک طرف وہ انسداد کی کوشش بھی کر رہاہے اور دوسری جانب اسے ہی دہشت گرد کہا جا رہاہے، یہ تو عالمی صورت حال ہے۔ملکی سطح پر اس سے بھی مایوس کُن صورت حال ہے۔کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو دہشت گردی ہے مگرمنی پور اور آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دہشت گردی نہیں ،یا تشدد پسند نکسلی تنظیمیں آئے دن جو خون خرابہ کر رہی ہیں اُ سے دہشت گردی نہیں کہا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ جب مہاراشٹرا میں نو نرمان سینا اور شیو سینا کھلے عام دہشت گردی مچاتے ہیں تواُسے دہشت گردی سے تعبیر کرنا تو دور کی بات ہے حکومت خود ہی سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔انتہا پسند ہندو تنظیمیں جو بھی فتنہ پھیلائیں وہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتاہے ۔سچائی پر پردہ ڈالنے اور ایک حقیقت کو دو آنکھوں سے دیکھنے کی جب یہ حالت ہو گی تو ملک میں بھی بنائے جانے والے تما م قوانین دہشت گردی کو جڑ سے نہیں ختم کر سکتے ۔اور نہ کوئی مہم کارگر ہو سکتی ہے۔ضرورت ہے کہ فتنہ پھیلانے والے تمام لوگوں کو بلا امتیاز مذہب و ملت دہشت گرد کہا جائے اور ایک ہی ترازو میں تو لا جائے۔

اگر واقعی پوری دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کے تما م لوگوں کو ایک نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔اُن کے انسانی اور بنیادی حقوق کی نگہبانی کرنی ہوگی اور ہر طرح کے استحصال سے دنیا کی تما م اقوام کو بچانا ہوگا۔تبھی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیاجاسکتا ہے۔اب اس پیمانے پر طاقتور ممالک اور اقتصادی طور پر مضبوط میڈیا کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ۔اگر ایسا ہوجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ عہد میں دہشت گردی اُتنا بڑ امسئلہ نہیں ہے جتنا کہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہاہے۔اسی غلط افواہ اورہنگامہ آرائی کے چلتے اصل دہشت گردتو بچ جاتے ہیں اور جو معصوم اور بے گناہ ہیں وہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کی تما م کوششیں غلط سمت میں جاری رہتی ہیں۔

اسلام آباد: چودہ خودکش حملوں میں 166 ہلاک

سوات ، خودکش حملوں کیلئے تیار کئے گئے6بچے میڈیا کے سامنے پیش کردیئے گئے: سوات [16] بچوں کو سرحد کے مختلف سکولوں سے اغواء کیا گیاتھا اور بعد ازاں انہیں خودکش حملوں کی تربیت دی جاتی رہی، بازیاب کرائے گئے لڑکوں کے علاوہ شدت پسندوں سے سینکڑوں کلاشنکوف، پستول اور ہزاروں راو�¿نڈز سمیت بڑی مقدار میں اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا، سیکورٹی حکام نے تحصیل مٹہ کے علاقے پیوچار میں میڈیا کے سامنے خودکش حملوں کیلئے تیار کئے گئے 6بچوں کو پیش کیا۔ ان بچوں کے نام شاہ حسین، امان اللہ، ذاکراللہ، حضرت بلال، ضیائ� الرحمن اور رحمت اللہ ہیں۔ ان کی عمریں 12سے14سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ سیکورٹی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ کم سن لڑکوں کو خودکش حملوں کیلئے تیار کیا جارہا تھا۔ بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی سکولوں اور گھروں سے تخریب کاری کی کارروائیوں کیلئے لے جایا گیا اور وہ موقع ملنے پر فرار ہو گئے۔ سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران برآمد کیا گیا بھاری مقدار میں اسلحہ بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ [17]

(1)۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سوموار کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر کی عمارت کے اندر خودکش حملے میں پانچ افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کی تاریخ میں یہ چودھواں خودکش حملہ ہے اور ان میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔

(2)۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ انیس نومبر انیس سو پچانوے میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔

(3)۔ اسلام آباد میں دوسرا خودکش حملہ ستائیس مئی دو ہزار پانچ کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار میں کش حملہ ہوا۔ اس سانحہ میں لگ بھگ بیس افراد ہلاک ہوئے۔

(4)۔ چھبیس جنوری دو ہزار سات کو وفاقی دارالحکومت میں میریٹ ہوٹل کے باہر خودکش حملے میں حملہ آور اور سکیورٹی گارڈ ہلاک ہوا جبکہ پانچ لوگ زخمی ہوئے۔

(5)۔ اس کے بعد دو ہزار سات ہی کو چھ فروری کو اسلام آباد ائرپورٹ کے احاطے میں ایک اور خود کش حملہ ہوا جس میں صرف حملہ آور ہلاک ہوا جبکہ تین سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

(6)۔ دو ہزار سات ہی میں اٹھارہ جولائی کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں وکلائ� کنونشن کے پنڈال کے قریب خود کش حملے میں بیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے کچھ دیر قبل ہوا۔

(7)۔ ابھی اسلام آباد کے رہائشی لال مسجد آپریشن کے ذہنی دباو سے نکلے نہ تھے کہ ستائیس جولائی دو ہزار سات کو مسجد کو دوبارہ کھولا گیا اور ایک بار پھر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اس ہنگامے کا اختتام لال مسجد کے قریب آبپارہ مارکیٹ میں خود کش حملے سے ہوا جس میں سات پولیس اہلکاروں سمیت پندرہ افراد مارے گئے۔

(8)۔ دو جون دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارتخانے کے باہر کار بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور پچیس زخمی ہو گئے ہیں۔

(9)۔ چھ جولائی دو ہزار آٹھ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خود کش حملے میں کم از کم انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ دھماکہ ایسے وقت ہوا ہے جب اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کی برسی کے موقع پر علمائ کنونشن کا انعقاد ہو رہا تھا اور اس حوالے سے شہر بھر میں سکیورٹی کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔

(10)۔ اکیس ستمبر دو ہزار آٹھ کو میریئٹ ہوٹل پر ٹرک خود کش حملے میں چون افراد ہلاک ہوئے جبکہ اڑھائی سو سے زائد زخمی ہوئے۔

(11)۔ نو اکتوبر دو ہزار آٹھ کو پولیس لائنز میں خودکش حملے میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ پولیس لائنز میں واقع انسدادِ دہشت گردی بیرکس میں ہوا ہے۔

(12)۔ تئیس مارچ دو ہزار نو کو اسلام آباد میں واقع ستارہ مارکیٹ کے قریب پولیس کی سپیشل برانچ کے دفتر میں خودکش حملے میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

(13)۔ چار اپریل دو ہزار نو کو اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں واقع فرنٹیئر کانسٹیبلری کے رہائش کیمپ پر ایک خود کش حملے میں آٹھ اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے۔ خودکش حملہ آور ای سیون کی طرف واقع گرین ایریا کی طرف سے آیا اور اس نے عمارت میں داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اّڑا دیا۔

(14)۔ چھ جون دو ہزار نو کو اسلام آباد میں ریسکیو 15 کے دفتر پر ایک خودکش حملے میں دو اہلکار اور حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے عمارت کی پچھلی طرف سے حملے کی کوشش کی لیکن موقع پر موجود سپاہی نے اس پر فائرنگ کر دی جس سے اس کے جسم پر دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا۔ [18]

طالبان سے منسوب دہشت گردواقعات

1- 26 اگست 2009ءکو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم سے کم چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی۔ [19]

2- 27 اگست 2009ءکو خاصہ دار فورس پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔ [20]

3- 30اگست 2009ءکو ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خود کو دھماکے سے اڑا کر سکیورٹی کے پندرہ زیر تربیت اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ [21]

4- 18 ستمبر 2009ئ کو کوہاٹ میں ایک کار کے ذریعے خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے۔ [22]

5- 5اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔ [23]

9-6اکتوبر 2009ئ کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ [24]

7- 10اکتوبر 2009ئ کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا [25] ۔ یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔ [26]

8- 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کاروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کاروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔[27]

9- 15اکتوبر 2009ئ کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔ [28] ۔ لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔ [29]

10- 15اکتوبر کے حملے کے عینی شاہدیں نے بتایا کہ طالبان دہشت گردوں نے مسجد پر بھی فائرنگ کی اور مسجد کی حرمت کا خیال نہ کیا۔ [30]

11- 16اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے ایک مرکز اور تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں عام شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ خود کش حملہ نہیں بلکہ ایک کار بم دھماکہ تھا[31]

12- 20اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ [32]

13- 23اکتوبر 2009ئ کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔[33]

14- 23اکتوبر 2009ئ کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکہ ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔ [34] روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔ [35]

15- 2 نومبر 2009ءکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے [36]

16- 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبدالمالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبدالمالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔ [37]

17- 9 نومبر 2009ءکو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ [38]

18- 10 نومبر 2009ءکو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ [39] ۔ دھماکے کی جگہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاءمل گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کی دھمکیاں پہلے سے ہی مل رہی تھیں۔ [40]۔ طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے خود کش حملوں کے بارے میں کہا کہ جو بھی ہماری تحریک کو نقصان پہنچائے گا اسے سبق سکھایا جائے گا۔ [41]

19- 13 نومبر 2009ءکو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔ [42] -

20- 13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔ [43]

21- 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہوگئے۔ [44] ۔ کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ترجمان قاری حسین نے پشاور اور بنوں میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی کہ حکومت خود کش حملوں کو روک کر دکھائے۔ [45]

22- 16 نومبر 2009ءکو پشاور میں پولیس سٹیشن کے قریب ہونے والے ایک مبینہ خودکش کار بم حملے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور چوبیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ پشاور کے ایس پی رورل بشیر اللہ خان کے مطابق یہ واقعہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں اس وقت پیش آیا جب ماشو خیل کے علاقے سے آنے والے ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی مسجد کی عمارت سے ٹکرا دی۔ [46]

23- 19 نومبر 2009ءکو صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر ایک خود کش حملے میں انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اس کو جب تلاشی کے لیے روکا گیا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ [47]

24- 20 نومبر 2009ءکو رات گئے ایک پولیس کی ایک گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں پولیس کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔ [48]

مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے مغوی رکن کی سربریدہ لاش ملی ہے۔ اس شخص کا بیٹا گزشتہ شام دہشت گردوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشت گردوں اور امن کمیٹی کے ممبر کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل لکڑو میں مولانا شہزاد گل اور رسول شاہ کی لاشیں کندارو کے قریب سے ملی تھیں اور ان دونوں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قبائلی جرگے کے ذریعے انہوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مولانا شہزاد گل اور پچاس سالہ رسول شاہ جو مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے سرگرم ر�±کن تھے کی سربریدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں دونوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مقامی طالبان نے قبول کی تھی [49]

25- 4 دسمبر 2005ءکو پریڈ گراوراولپنڈی میں طالبان نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی۔ [50]

26- 5 دسمبر 2009ءکو پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکہ کیا گیا جس سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔ [51]

روز دھماکے بم بلاسٹ کیا یہ ظاہر نہیں کرتے کہ کہ دھشت گرد اس ملک میں نہیں ہم دھشت گردون کے ملک میں رہیتے ہیں- بے بس، لاچار، لاشیں اٹھانے کے لئے، آنسو بہانے کے لئے-


حوالہ جات

  1. کسی "قا ئد "کی تلا ش
  2. (قصص العلماء ص 52 تا53۔)
  3. Wahabism/Saudis A Colonial British Creation & Puppets Of US یوٹیوب پر
  4. وہابیت کا تحلیلی اور تنقیدی جائزہ
  5. بابیت اور بہائیت۔ ایک جائزہ
  6. ڈاکٹر مبارک علی
  7. پاکستانی خیمے میں سعودی اونٹ
  8. وائس آف امریکہ
  9. پاکستان کوتیل میں دی گئی رعایت ختم
  10. (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14ستمبر۔2007ء)
  11. Urdu Point
  12. Online Urdu Newspaper
  13. بی بی سی پر ایک تبصرے سے ماخوذ
  14. سعودی شہزادے کا چیف جسٹس کو خط
  15. حامد سعید کاظمی
  16. (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔08جنوری۔ 2010ء)
  17. 08 /01/2010 Urdu Point.Com
  18. بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد وقت اشاعت: Monday, 5 october, 2009 ,
  19. [بی بی سی 26 اگست 2009ء ]۔
  20. [بی بی سی 27 اگست 2009ء ]۔
  21. [بی بی سی 27 اگست 2009ئ]
  22. [بی بی سی 19 ستمبر 2009ء ]
  23. [۔ بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء ]
  24. [بی بی سی]
  25. [روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ئ۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا ]
  26. [بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء ]
  27. [روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009]۔
  28. [بی بی سی اردو ]
  29. [روزنامہ جنگ تازہ خبریں 15 اکتوبر 2009ء ]۔
  30. [بی بی سی 15 اکتوبر 2009ئ]۔
  31. [بی بی سی 16 اکتوبر 2009ء ]
  32. بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ئ
  33. [روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 23 اکتوبر 2009ء ]
  34. [بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء ]
  35. [نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ئ]
  36. [روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء ]
  37. [روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 8 نومبر 2009ء ]
  38. [روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ئ]
  39. [جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ء ]
  40. [روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء ]
  41. [روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ئ]
  42. [جنگ تازہ ترین 13 نومبر 2009ء]
  43. [روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء ]۔
  44. [بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ئ]
  45. [بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء ]
  46. [بی بی سی اردو 16 نومبر 2009ء ]
  47. [بی بی سی اردو 19 نومبر 2009ئ]
  48. [بی بی سی اردو 20 نومبر 2009ء]
  49. [بی بی سی اردو 27 نومبر 2009ء ]
  50. [روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ئ]
  51. [جنگ تازہ ترین 5 دسمبر 2009ء ]