رحمت النساء نازؔ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رحمت النساء نازؔ
پیدائش28 جون 1932(1932-06-28)ء
بنگلور ، کرناٹک ، برطانوی ہندوستان
وفات9 جولائی 2008(2008-07-09)ء
کراچی، پاکستان
قلمی نامرحمت النساء
پیشہماہرِ تعلیم ، شاعرہ ، سوشل ورکر
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے ، بی ،ایڈ
مادر علمیکراچی یونیورسٹی

رحمت النساء نازؔ برصغیر کی نامور شاعرہ، ماہر تعلیم اور سماجی کارکن تھیں۔

ابتدائی زندگی اور کیرئیر کا آغاز[ترمیم]

رحمت النساء نازؔ 28 جون 1932ء کو بنگلور، کرناٹک ( سابق ریاست میسور ) برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ دسویں جماعت تک تعلیم میسور سے ہی حاصل کی، اس کے بعد جلد ہی ان کی شادی ڈاکٹر محمد غوث شریف سے طے پائی۔ قیامِ پاکستان کے کچھ ماہ بعد یکم جنوری 1948ء کو اپنے شوہر اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ بنگلور سے ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔ اور یہاں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر کے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے، بی ایڈ کیا اور بعد ازاں درس و تدریس سے منسلک ہوئیں۔[1]

شعروشاعری[ترمیم]

شاعری کا شغف بچپن سے رہا۔ جب پاکستان آئیں تو شہر کی دیگر ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے مشاعروں میں بھی شرکت کی۔ اُ ن کا کلام پاکستان اور بھارت کے کئی اردو اخبارات میں باقاعدگی سے چھپتا رہا۔

نمونہِ کلام[ترمیم]

نظم : میں سب کچھ بھول جاتی ہوں!!!

کبھی موسم بھی بدلے تھے۔ ۔۔ دھنک کے رنگ پھیلے تھے

مرے آنگن میں بھی شاید۔ ۔۔۔ کبھی اک چاند اترا تھا

میں اکثر یاد کرتی ہوں مگر پھر بھول جاتی ہوں!!

وہ دن جب زندگی کو۔ ۔۔۔ زندگی کی چاہ ہوتی تھی

کسی کے اک اشارے پر۔ ۔۔۔ دھڑکتا تھا کسی کا دل

میں اکثر یاد کرتی ہوں مگر پھر بھول جاتی ہوں!!

ستاروں کا تبسّم۔ ۔۔ ۔۔ مسکرانا غنچہ وگل کا

مرا شہر نگاراں۔ ۔۔ ۔۔ اور کئی مانوس رستے بھی

میں اکثر یاد کرتی ہوں مگر پھر بھول جاتی ہوں!!

غزل

جب دل کا درد منزلِ شب سے نکل گیا محسوس یہ ہوا کوئی طوفان ٹل گیا
اب تو ہے صرف آمدِ فصلِ بہار یاددل ایک پھول تھا جو سرِ شاخ جل گیا
جب تک کسی کا نقشِ کفِ پا ہمیں ملا ہم سے کچھ اور دور زمانہ نکل گیا

نظم : شجر

ایک بوڑھا خزاں رسیدہ شجر۔ ۔۔ ۔۔۔ جس نے اِک عمر سب کا ساتھ دیا

جب مسافر اگر کوئی تھکتا۔ ۔۔ ۔۔۔ یا، تپش دھوپ کی ستاتی اسے

اس کے سائے میں بیٹھ جاتا تھا۔ ۔۔ ۔۔۔ اس کے سائے میں کھیل کر بچّے

ایسے خوش ہوتے جیسے جنت ہو۔ ۔۔ ۔۔۔ اس کی بانہوں میں جُھولتے تھے کبھی

اور شاخوں سے کھیلتے تھے کبھی۔ ۔۔ ۔۔۔ چھاؤں میں اس کی بیٹھ کر کچھ لوگ

اپنے دکھ سکھ کے قصّے کہتے تھے۔ ۔۔ ۔۔۔ راز کتنے ہی دفن تھے اس جا

آج اس میں نہ شاخ ہے نہ ثمر۔ ۔۔ ۔۔۔ اب کسی کو نہیں ہے اس کا خیال

ہائے بوڑھا خزاں رسیدہ شجر!

غزل

رنج و الم کی کوئی حقیقت نہ پوچھیئے کتنی ہے میرے درد کی عظمت نہ پوچھیئے
کتنے لگے ہیں زخم جگر پر کسے خبر ڈھائی ہے کس نے کتنی قیامت نہ پوچھیئے
اشکوں نے راز دل کا کیا جب کبھی عیاںکتنی ہوئی ہے مجھ کو ندامت نہ پوچھیئے

مجموعہٴ کلام ”زخمِ ہجراں“ کا اجرا[ترمیم]

رحمت النسا نازنے باقاعدہ مشاعروں میں شرکت کے باوجود کبھی مجموعہِ کلام شائع کروانے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ تاہم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بہت اصرار پر انھوں نے کتاب شائع کروانے کی ہامی بھری لیکن ابتدائی مرحلے کے کام کے دوران ہی بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہو گیا۔ لہذا اس کتاب میں وہ دو نظمیں بھی شامل ہیں جو انھوں نے بے نظیر بھٹو کے چہلم پر ان کو خراج میں پیش کیں۔9 جولائی 2008 کو رحمت النسا ناز صاحبہ کی وفات کے بعد ان کی کتاب کی مکمل تدوین و اشاعت کا کام ان کے بیٹے سیف اللہ سیفی اور ان کے بھائی سید ضیا الحق(ضیا کرناٹکی)صاحب نے کیا۔ کتاب کا اجرا اتوار 7 جولائی 2013ء کو اُن کے پیدائشی شہربنگلور میں ہوا اورضیا کرناٹکی صاحب کے ادارہ برائے آرٹ،سوشل اور ادبی ترقی ”الصدا“ نے کیا ہے۔ 24 ستمبر 2013 کو ان کے مجموعہ کلام کا اجرا کی تقریب بلجیم کے دار الحکومت برسلز میں بھی منعقد ہوئ۔[2] تقریب کا اہتمام پاکستان پریس کلب بلجیم نے کیا۔ ان کے مجموعہِ کلام میں ہجرت کے غموں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان کے کلام میں ایک طرف اپنوں سے جدائی کا درد، تو دوسری جانب پاکستان سے شدید محبت کا بھرپور اظہار بھی موجود ہے۔

وفات[ترمیم]

9 جولائی 2008ء کو رحمت النساء نازؔ کا انتقال کراچی میں ہوا۔ اور ان کی تدفین ناظم آباد کے قبرستان میں ہوئی۔

حوالہ جات[ترمیم]