ساختیات
ساختیات (انگریزی: Structuralism) لسانیات کی ایک تنقیدی اصطلاح ہے جس کے مطابق قاری اور مصنف کے خیالات و نظریات اور مہارت و اسلوب سے زیادہ ان کی ساخت کو اولیت حاصل ہے۔[1] ماہر ساختیات اور اردو کے نظریاتی انتقادات کے محقق اور ادیب احمد سہیل نے لکھا ہے ،"ساختیات کو سادے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ مظاہر کا تجزیاتی مناجیات/ طریق عمل کاعلم یا سائنس ہے اس کا بنیادی مکالمہ "انسانی مظاہر" سے ہی ہوتا ہے۔ ساختیات کے مظہر میں ثنوئی اختلافات کا نظام موجود ہوتا ہے۔ جس میں افترقات کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جاتا ہے اور ساخت سے معنویت/ معنیات اخذ کی جاتی ہیں۔ جو اصل میں فکر کا طرز نظر اور رسائی ھوتی ہے۔ اس نظریے کو سب سے پہلے ارسطو نے چھیڑا ۔ یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ - فارسی زبان میں اسم 'ساخت' کے ساتھ فارسی قواعد کے مطابق 'ی' لاحقۂ نسبت اور 'ات' بطور لاحقۂ جمع مونث لگانے سے 'ساختیات" بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٨٣ء، کو "نئی تنقید" میں مستعمل ملتا ہے۔ ادبی تخلیق کی پرکھ یا تنقید کی ایک شاخ جس میں الفاظ و تراکیب کی حرفی و نحوی ساخت کو بہت اہم خیال کیا جاتا ہے، "اسی طرح ساری جدید ادبی و فکر تحریکیں خواہ . کونکریٹ پوئٹری، لسانی تشکیلات ساختیات یا اسلوبیات ہو، ہمارے ادب کے وجود کا حصہ بنی ہیں یا بن رہی ہیں۔" ( ١٩٨٣ء، نئی تنقید، ١٠٧ )
ساختیاتی تنقیدی نظریے کے چار (4) مزاج ہیں۔
(1) تاریخی تنقید ( طربیہ، المیہ، موضوع کا خلاصہ)
(2) علامتی، نسلی تنقید (ادبی تشریات،ہیتی، اساطیری )
(3) اساطیری/ ارکی ٹائپ تنقید (طربیہ، المیہ، رومانی، طنز و مزاح)
(4) اصناف اور بلاغتی تنقید ( نثر، ڈراما،شاعری)
سوئس ماہر لسانیات فرینڈڈ ساسر (1857۔ 1913) جن کو جدید لسانیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے لسانی تصورات کا خلاصہ و خاکہ پپش کیا۔ ساختیاتی مباحث میں ساسر نے زبان کی ثقافتی مظہریت سے بحث کرتے ھوئے لسانی عناصر کی نشاندھی کی اور کہا کہ لسانی نظام میں معروضی حقائق شناخت نہیں کیے جا سکتے۔ ساختیاتی مطالعوں میں "ادب" کو دوسرے درجے کا نظام فکر تصور کیا گیا ہے۔ مارکسزم ،مظریات، فرائڈین ازم اور وجودیت کے خمیر سے ساختیات کا فکری اور مناجیاتی ڈھانچہ تشکیل پایا ہے۔ احمد سھیل نے اپنی کتاب میں ان مکاتب فکر کو ساختیات کی مباحث میں شامل کیا ہے۔
"باختن دبستان، پراگ دبستان، جینوا دبستان، کوپن ہیگن دبستان،روسی ہیت پسندی، ییل کا دبستان، شکاگو دبستان، کیمرج دبستان، ماسکو ٹرٹو دبستان ۔"
(احمد سھیل، " ساختیات، تاریخ، نظریہ، تنقید" ۔ تخلیق کار پبلیشر، دہلی، 1999)
ساختیات کے نظریاتی، فکری ،لسانی، تنقیدی اور تحریکی کے حوالے سے ان موضوعات پر مباحث ایک عرصے سے جاری ہے۔
ایبانک تنقید،بالائی ساختیات، ردتشکیل، متنی تنقید، قاری اساس تنقید،ثانیثی تنقید، اقلیتی مخاطبہ، قبل متن نظریہ، آرکی ٹائپ تنقید،فیوجی ٹیو تنقید، تفھیمات، مارکسی ساختیاتی تنقید ، وطائفی تنقید،نئی ساختیات، مظریت، پس نو آبادیاتی تنقید،، لزبن اور گے تنقید،پس ردتشکیل، پس بالائی ساختیات، رد نوآبادیاتی تنقید، نیوکلیائی مخاطبہ، نو ساختیات، سیاقیت، بدیعیاتی تنقید، نشانیات، ٹروپ (ٹروپ لوجی)، زبانی شبیہ کاری، یک کلامیہ تنقید،، مخاطباتی تجزیات، نامیاتی تنقید، نظریہ قبولیت، متنی تنقید، قاری اساس تنقید،ثانیثی تنقید، اقلیتی مخاطبہ، قبل متن نظریہ، آرکی ٹائپ تنقید،فیوجی ٹیو تنقید، تفھیمات، مارکسی ساختیاتی تنقید ، وطائفی تنقید،نئی ساختیات، مظریت، پس نو آبادیاتی تنقید،، لزبن اور گے تنقید،پس ردتشکیل، پس بالائی ساختیات، رد نوآبادیاتی تنقید، نیوکلیائی مخاطبہ، نو ساختیات، سیاقیت، بدیعیاتی تنقید، نشانیات، ٹروپ (ٹروپ لوجی)، زبانی شبیہ کاری، یک کلامیہ تنقید،، مخاطباتی تجزیات، نامیاتی تنقید، نظریہ قبولیت، متنی اور تحریری تنقید، تاریخ کار تنقید، عمل کلام کا نظریہ، کوئر نظریاتی تنقید اور رواجی تنقید وغیرہ۔۔۔۔۔۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ پروفیسر انور جمال، ادبی اصطلاحات، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، 2016ء، ص 116