فیصل۔ویزمان معاہدہ
فیصل۔ویزمان معاہدے پر 3 جنوری، 1919ء کو قلیل المدت مملکت حجاز کے بادشاہ حسین ابن علی الہاشمی کے تیسرے بیٹے امیر فیصل اور صہیونی تنظیم کے صدر چیم ویزمین نے دستخط کیے تھے۔ پیرس امن کانفرنس کے آغاز سے دو ہفتے قبل دستخط کیے گئے، اس معاہدے کو صہیونی وفد نے مارچ، 1919ء میں ٹی ای لارنس کی طرف سے فیصل کے نام سے امریکی صہیونی رہنما فیلکس فرینکفرٹر کے نام لکھے گئے خط کے ساتھ دو دستاویزات کے طور پر پیش کیا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ فلسطین کے لیے صیہونی منصوبہ، عربوں کی منظوری کے ساتھ پہلے سے موجود تھا۔ [1]
یہ معاہدہ فیصل کو 3 جنوری کو کارلٹن ہوٹل میں ان کے کمرے میں انگریزی میں پیش کیا گیا جسے فیصل پڑھ نہیں سکتا تھا اور لارنس نے اس کے مندرجات کا ترجمہ کر کے فیصل کو سمجھایا تھا۔ [2] فیصل نے اسی میٹنگ میں ایک علاحدہ کمرے میں منتظر اپنے مشیروں سے مشورہ کیے بغیر اس دستاویز پر دستخط کیے، لیکن اپنے دستخط کے آگے عربی میں ایک انتباہ کا اضافہ کیا، [1] اس طرح کہ فیصل نے معاہدے کو فلسطین کے آزاد عرب علاقے میں ہونے سے مشروط سمجھا۔ [ا] مگر صیہونی تنظیم نے یہ معاہدہ پیرس امن کانفرنس میں اس انتباہ کے بغیر پیش کیا۔ [4]
اسرائیلی مؤرخ یوو گیلبر نے معاہدے کو "صرف پروپیگنڈہ کی اہمیت" کے طور پر بیان کیا، کیونکہ یہ جلد ہی واضح ہو گیا تھا کہ فیصل کی شرائط پوری نہیں کی جائیں گی۔ [5]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب Allawi 2014, p. 189.
- ↑ Allawi 2014, p. 188.
- ↑ Allawi 2014, p. 189a.
- ↑ Allawi 2014, p. 189c.
- ↑ Yoav Gelber (22 May 2014)۔ Jewish-Transjordanian Relations 1921–1948: Alliance of Bars Sinister۔ Routledge۔ صفحہ: 8۔ ISBN 978-1-135-24514-6۔
This accord depended on the fulfilment of Arab national claims by the Peace Conference and also on the Palestinian Arabs' compliance. It soon became clear, however, that none of these conditions would be met. The Weizmann—Faysal agreement therefore lost its political meaning and remained a document of propaganda value only.