مندرجات کا رخ کریں

مسعود غزنوی سوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسعود غزنوی سوم
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1061ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 27 فروری 1115ء (53–54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ گوہر خاتون   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بہرام شاہ غزنوی ،  ارسلان غزنوی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابراہیم غزنوی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان سلطنت غزنویہ   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت غزنویہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1099  – 1115 
ابراہیم غزنوی  
 

سلطان ابوسعد مسعود غزنوی سوم بہت سخی اور نیک طبیعت حکمران تھا۔ اس دور حکومت پرامن دور ہے۔ یہ سلطان ملک شاہ اول سلجوقی کا داماد تھا۔

شادی

[ترمیم]

سلطان ابراہیم غزنوی نے سلجوقیوں کے ساتھ صلح کر لی تا کہ مزید جنگ نہ ہو۔ اس صلح کو پائیدار بنانے کے لیے سلطان نے اپنے بیٹے مسعود غزنوی کی شادی ملک شاہ اول سلجوقی کی بیٹی اور ملک احمد منجر کی بہن [1] مہو عراق کے ساتھ کروا دی تھی۔ اس سے سلطان مسعود غزنوی سوم کے دور حکومت میں بھی سلجوقیوں کے ساتھ اخوت اور محبت کے مراسم قائم رہے۔[2]

تخت نشینی

[ترمیم]

سلطان مسعود غزنوی سوم بغیر کسی رکاوٹ کے 492ھ بمطابق 1099 میں اپنے والد کے جانشین کے طور پر تخت نشین ہوا۔

فتوحات

[ترمیم]

سلطان ابو سعد مسعود نے ہندوستان کی امارت عضدو الدولہ کے سپرد کی تھی جب وہ مر گیا [3] تو اس کی جگہ جاگیردار لاہور حاجب طغا کو ہندوستان کا سپہ سالار مقرر کیا اور اسے ہندوستان پر حملے کرنے کا حکم دیا۔ حاجب طغا نے دریائے گنگا کو عبور کر کے ہندوستان کے ان علاقوں کو فتح کیا جہاں سلطان محمود غزنوی کے علاوہ کسی مسلمان بادشاہ کا گذر نہ ہوا تھا۔ طغا بہت سا مال غنیمت لے کر واپس لاہور آیا۔ [4]

دار الخلافہ لاہور

[ترمیم]

سلطان ابوسعد مسعود کے دور حکومت میں لاہور غزنوی خاندان کا اصل دار الخلافہ بن گیا کیونکہ ایران اور توران میں اپنے بیشتر علاقہ سے محروم ہونے کے بعد شاہی خاندان ہندوستان میں رہائش پزیر ہونے پر مجبور ہو گیا تھا۔ [5]

سیرت

[ترمیم]

سلطان ابو سعد مسعود غزنوی سوم بہت ہی سخی اور نیک طبیعت انسان تھا۔ اس نے بڑے ہی انصاف سے حکومت کی اور ان تمام برائیوں کا قلع قمع کیا جو سلطنت کی تباہی و بربادی کا باعث ہو سکتی تھیں۔ اس نے اپنے باپ ابراہیم کے عہد کے امرا کو ان کے منصوبوں پر برقرار رکھا اور ان کی جاگیروں کی بحالی روا رکھی۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں بغیر کسی فتنہ و فساد کے بڑی عمدگی سے حکومت کے فرائض انجام دیے۔ [6] سلطان عسکری جذبے کا حامل تھا۔ عدل و انصاف اور خیر خواہی سے لگاؤ رکھنے والا بادشاہ تھا۔ [7]

وفات

[ترمیم]

سلطان مسعود غزنوی سوم نے سولہ سال کا پرامن دور حکومت گزارا۔ اس کا دور حکومت 492ھ بمطابق 1099ء سے 508ھ بمطابق 1114ء تک ہے۔ اس نے 508ھ میں وفات پائی۔ سلطان کی عمر بوقت وفات ستاون برس تھی۔ [8]

جانشین

[ترمیم]

تاریخ گزیده میں لکھا ہے کہ سلطان مسعود غزنوی سوم کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا کمال الدولہ شیرزاد غزنوی تخت نشین ہوا تھا۔ تخت نشینی کے ایک سال بعد وہ اپنے بھائی ارسلان شاہ کے ہاتھوں مارا گیا لیکن باقی تمام مورخین ارسلان شاہ کو سلطان کے بعد بے واسطہ بادشاہ تسلیم کرتے ہے۔ [9]

سکے

[ترمیم]

سلطان ابوسعد مسعود غزنوی سوم کے دور حکومت کے بعض سکوں کے منفقوش درج ذیل تھے۔

  1. ابوسعد
  2. سلطان الاعظم
  3. سلطان العادل
  4. علاؤ الدولت و سند الملت
  5. ظہیر الایمان
  6. نظام الدین
  7. مولا السلاطین [10]

اولاد

[ترمیم]

سلطان ابوسعد مسعود غزنوی سوم کے تین بیٹوں کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے۔

  1. شیرزاد غزنوی
  2. ارسلان غزنوی
  3. بہرام شاہ غزنوی [11]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ53 ، 54
  2. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 123
  3. ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ 54
  4. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 123
  5. تاریخ پنجاب مولف سید محمد لطیف اردو متراجم خان بہادر شمس العلماء صفحہ 210
  6. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 123
  7. تاریخ پنجاب مولف سید محمد لطیف اردو متراجم خان بہادر شمس العلماء صفحہ 210
  8. ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ 54
  9. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 123
  10. ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ 54
  11. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 123