پیرا شاہ غازی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیرا شاہ غازی قلندردوراں عرف دمڑی والی سرکار کھڑی شریف میرپور آزاد کشمیر

ولادت[ترمیم]

پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار1665ء بمطابق1076ھ موضع بہرام ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا نام پیر شاہ یا پیرا شاہ تھا آپ کی سوانح حیات پر مشتمل سب سے قدیم اور مستند کتاب کا تذکرہ مقیمی ہے جس کے مصنف حضرت میاں محمد بخش ہیں اس کتاب میں میاں صاحب نے آپ کا اسم مبارک پیرا شاہ غازی درج کیا ہے

نسب طریقت[ترمیم]

آپ کا نسب طریقت خاندان قادریہ اور گروہ شاہ مقیم سے تعلق ہے پیرا شاہ غازی،سید شاہ محمد امیر بالاپیر،سید شاہ محمد مقیم محکم الدین،سید جمال اللہ حیات المیر زندہ پیر،غوث صمدانی شیخ عبد القادر جیلانی۔ اور بقول فقراء ان کی نسبت خضر علیہ السلام سے روحانی طور پر بھی ہے۔

القاب و خطابات[ترمیم]

سخی سرکار،شاہ شاہاں،پیر پیراں،دستگیر درماندگاں،راہنمائے گمراہاں،مشکل کشائے ہر دو جہاں،قطب الاقطاب،فرد الاحباب،پیران پیر،عالیجناب مست،مست ساز ،بادشاہ بے نیاز ،شیر بیشہ اولیاء،اوج کبریائی کے شہباز،شہادت پناہ،غازی پیر پیرا شاہ قادری۔ غازی، المغازی، امیر العساکر۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

شروع میں شعبہ تجارت سے وابستہ اور بہت مالدار تھے دو بیویاں تھیں ایک بیوی سے دو بیٹے تھے جبکہ دوسری سے کوئی اولادنہ تھی جس بیوی سے اولاد نہ تھی اس کی خبر ملی کہ کسی نے زہر دیدیا ہے جو ہلاک ہو گئی ہے تلاوت کرتے ہوئے دریا میں کود گئے اور روایت کے مطابق 12 سال تک غائب رہے جب واپس آئے تو مستی و سکر کی حالت قائم ہو گئی۔ آبادیوں سے دوررہنا اورکوہ و بیابان سے میل رکھنا پسند تھا جانور اور درندے آپ کی طرف مائل رہتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دورغائب خضر علیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ اور انہی سے یہ فیوض و برکات حاصل تھیں۔

دمڑی والا کی وجہ تسمیہ[ترمیم]

ایک مرتبہ غوث الاعظم کی بارگاہ میں حاضر تھے تو آپ نے فرمایا اے فقیر ہماری طرف سے تا قیامت ایک لاکھ ٹکہ وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے جو مخلوق خدا تمھارے لیے ہر روز نذر نیاز مان کر پیش کیا کرے گی انھوں نے عرض کیا غریب نواز دنیاوی مال تو میرے کسی کام کا نہیں جبکہ میرے جانشین اس دولت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل رہیں گے اسے کم کر دیں دوبارہ فرمایا سوالاکھ روپے میں سے سوالاکھ دمڑی (ایک پیسہ میں چاریاآٹھ دمڑیاں ہوتی تھیں)آپ کی نذر ہو گی یہ ضرورت سے زیادہ بھی نہیں اور نہ دینے والے کے لیے بوجھ ہوگی۔ اب سوالاکھ روپے لوگ غوث پاک کی نذر مانتے ہیں ان میں سوالاکھ دمڑی پیرا شاہ غازی کے نام کی نذر ہوتی ہے

ننگے پاؤں برہنہ سر[ترمیم]

آپ کے بال لمبے تھے جب اللہ کا ذکر کرتے تو بال سیدھے آسمان کی جانب کھڑے ہو جاتے اکثرننگے پاؤں اور برہنہ سر ہوتے اور اکثر لوگ یہ کہتے پائے گئے
پیرا سر برہنہ نیست بر سر تاج داردچار ترک
ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولی ترک ترک
کہ پیرا شاہ غازی ننگے سر نہیں اپنے سر پر چار ترک کے تاج سجائے ہیں اور وہ چار ترک ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک سرداری اور ترک کلاہ شاہی کے ہیں

نشست گاہیں[ترمیم]

آپ کی کئی نشست گاہیں ہیں جہاں عقیدتمند حاضری دیتے ہیں

پیر تلاٹ[ترمیم]

ایک نشت گاہ ملوٹ میں پہاڑ کے دامن میں ہے اس کا نام "پیر تلاٹ" ہے یہ جگہ میرپور سے شمال کی جانب چار میل پہاڑ کے دامن میں واقع ہے اس جگہ کے متعلق آپ کا فرمان ہے جو لوگ سنگ ملوٹ پر جا کر حاجات پیش کریں میں ان کی فریاد خود سنتا ہوں۔

مہندرا[ترمیم]

دربار کھڑی کے شمال کی جانب ایک کوس کے فاصلے پر چک ٹھاکرہ میں واقع ایک پہاڑی پر کھلا میدان ہے جسے"مہندرا" کہتے ہیں۔ اس پہاڑ پر ایک لمباپتھر پڑا ہوا ہے جس کا سر محراب کی مانند ہے ایک مرتبہ آپ نے اس پتھر کو کہا اٹھ کھڑا ہو میں تجھ پر ٹیک لگاؤں وہ اس وقت سے اسی حالت میں کھڑا ہے آپ یہاں کافی وقت گزار کر آئے اب بھی پشت اور پاؤں کے نشانات اس جگہ پر واضح نظر آتے ہیں لوگ اب بھی وہاں حاضری دیتے ہیں۔

مالدیو موہال[ترمیم]

رہتاس کے قریب "مالدیو موہال"نامی ایک گاؤں ہے یہاں پر بھی آپ کی نشست گاہ تھی اس جگہ اب بھی چراغ روشن ہوتے ہیں ایک مرتبہ ایک عورت دودھ لے کر آئی وہ دیوار لیپ کر رہی تھی جلدی سے دودھ پینے کو کہا جو گرم تھا وہاں پر ایک کلام کہا"ملدے کہندیں نہ ٹھہریں لے بیٹیاں رہن کنواریاں مرن مسوبہی" جس کے بعد اس گاؤں میں اکثر بچیاں کنواریاں اور اور جوان موتیں ہوتی رہیں۔

شیشم کا درخت[ترمیم]

موجودہ مزار کے مشرق کی جانب ایک شیشم کے درخت کے نیچے بھی آپ کی نشت گاہ تھی جہاں اکثر نشست فرماتے شیشم کے اس درخت کے ارد گرد ایک چبوترا قائم کر دیا گیا جب یہ شیشم کا درخت خشک ہو گیا تو اسے مسجد میں استعمال کے لیے کاٹ دیا گیا جبکہ چبوترا باقی رکھا گیا۔

وصال[ترمیم]

آپ کا وصال 14شعبان1155ھ بمطابق1742ء ہے اورکھڑی شریف میں محو استراحت ہیں وصال کا عدد "زہے پیر مردان حق پیرشاہ"

مریدین و خلفاء[ترمیم]

بابادین محمد[ترمیم]

انہین بچپن ہی سے گود لے لیا تھا اپنے فرزندوں سے بھی زیادہ پیار کرتے فرماتے اسے مین اپنی خدمت کے لیے تیار کر رہا ہوں یہ میری خدمت کریگا اور پھر دنیا کا مخدوم ہوگاایک وقت ایسا بھی آیا کہ بابادین محمد کے علاوہ کوئی بھی قرین نہ جا سکتا یہی آخر وقت تک ساتھ رہے اور سجادہ نشین بھی بنے

میاں جھلا[ترمیم]

ان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ بڑے امیر کبیر تھے ایک مرتبہ محفل سماع سجا کر بیٹھے تھے کہ اچانک پیرا شاہ غازی وہاں سے گذرے قوال خاموش ہوئے تو آپ نے انھیں قوالی کا کہا تو یہ نوجوان بدتمیزی کے انداز مین کہنے لگا کہ ہم گپ شپ میں مصروف ہیں اورتم جھلے(جھلا پاگل کو کہتے ہیں) قوالوں کو قوالی کا کہہ رہے ہو آپ نے فرمایا جھلا میں نہیں تو جھلا ہے یہ کہہ کر چل دیے یہ بھی پیچھے چل پڑے جہاں ٹھہرتے ٹھہر جاتے چلتے تو چل پڑتے کبھی شفقت میں آتے تو کہتے"جھلیا تینوں وی جھلیا" یوں یہ اصل نام کی بجائے میاں جھلا کے نام سے شہرت پا گئے۔

میاں بھلا[ترمیم]

یہ بھی اپنے وقت کے برگزیدہ فقراء زبدۃ الاولیاء پیشوائے صلحاء تھے اکثر مستی وسکر کی حالت میں رہتے۔

میاں گھوڑا[ترمیم]

یہ فرد الافراد صاحب ارشاد تھے،میاں گھوڑا کا لقب اس لیے پڑا کہ دمڑی والے نقارہ ساتھ رکھتے اور اکثر یہ مرید اپنے کندھے پر اٹھا کر چلتے جنوب کی جانب دیوتی دیوتا پہاڑ کے پشتے پر نقارہ بجاتے تھے اس وجہ سے نام میاں گھوڑا پڑ گیاموضع ملوٹ کے قریب جنوب کی طرف"دہرہ"نامی گاؤں ہے اس کے نزدیک پیر پلاہ نامی درخت کے قریب مزار ہے جو میاں گھوڑا کا ہے ان کی وفات پیرا شاہ غازی کی حیات میں ہوئی انھیں خود دفن کیا ۔

میاں پیرا[ترمیم]

یہ بھی بڑے باکمال مرید تھے ایک چنکارہ نامی ساز بجاتے ان کی قبر میرپور کے علاقے اکالگڑھ میں ہے

حاجی شاہ[ترمیم]

یہ بھی خلیفہ اور مرید تھے صاحب کرامت اور باکمال ولی تھے اپ کی قبر مبارک میرپور کے مشرقی دروازے کے اندر سرس کے درخت کے نیچے واقع ہے

میاں حاجی بگا شیر[ترمیم]

ان کانام مرید شاہ تھا یہ بادشاہ محمد شاہ کے ملازم تھے بڑے امیر کبیر تھے سب کچھ چھوڑ کر ان کی مریدی میں آ گئے ان ک مزار جہلم کے قریب برلب جی ٹی روڈ گجر پور میں ہے۔

اولاد[ترمیم]

آپ کے دو فرزند تھے ایک دفعہ ان میں سے ایک آیا تو اسے آپ نے فرمایا جاؤ میرپور سراجاں والی مسجد میں قیام کرو اور مسجد کی روٹیاں کھاؤ اور جان لو میرے مصلے اور دمڑیوں کا وارث دین محمد ہے میری دولت سے تمھارا کوئی حصہ نہیں ان کے فرزند نے ایساہی کیا اس صاحبزادے کا نام میاں ساون جی تھا مسجد سراجاں میں قیام پزیر رہے یہاں ایک عورت سے نکاح کیا لیکن کوئی اولاد نہ ہوئی ان کی زوجہ کا پہلے نکاح سے ایک فرزند تھا جس کا نام میاں گوجرتھا ان کے پاس رہے اور وہیں فوت ہو گئے میاں ساون جی اور ان کی زوجہ کی قبر اسی مکان میں ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ مقیمی میاں محمد بخش، باب سوم صفحہ 239،میاں محمد بخش اکیڈمی ریڈچ انگلینڈ