اشرف عباس قاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا، مفتی
اشرف عباس قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش (1980-01-03) 3 جنوری 1980 (عمر 44 برس)
نظرا محمد آباد، ضلع دربھنگہ، بہار، بھارت
شہریت  بھارت
قومیت ہندوستانی
عملی زندگی
تعليم فضیلت
ڈبل ایم اے (اردو)
مادر علمی
پیشہ عالم، محقق، مصنف، استاد
پیشہ ورانہ زبان اردو، عربی
دور فعالیت 2002ء تا حال
کارہائے نمایاں الأسرة في كتب الفتاوى الهندية (عربی)، صحاح ستہ: تعارف و خصوصیات، اجزاء انسانی کا عطیہ

اشرف عباس قاسمی (پیدائش: 3 جنوری 1980ء) ایک ہندوستانی عالم دین، محقق، مصنف اور عربی و اردو زبان کے ادیب ہیں۔ ان کی تصانیف میں الأسرة في كتب الفتاوى الهندية (عربی)، صحاح ستہ: تعارف و خصوصیات، اجزاء انسانی کا عطیہ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ 2013ء سے وہ دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

اشرف عباس قاسمی 3 جنوری 1980ء کو اپنے نانیہال نظرا محمد آباد، ضلع دربھنگہ، بہار میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن بتھیا، ضلع دربھنگہ ہے۔[1][2]

ان کی تعلیم کی ابتدا گھر پر اپنے والد کے پاس ہوئی، پھر محض 9 سال کی عمر میں انھوں نے مدرسہ کنز العلوم الہ آباد میں قاری محی الدین کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کرلی، ایک سال مدرسہ امانیہ لوام میں دور کرنے کے بعد1991 تا 1992ء دو سال مدرسہ منبع العلوم خیر آباد میں رہ کر اردو، فارسی اور عربی اول تک کا نصاب پڑھا۔[1][2]

1993ء میں عربی کی تعلیم کے لیے مدرسہ جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ، بھروچ، گجرات کا رخت سفر باندھا اور عربی ششم تک کی تعلیم وہیں پر حاصل کی، ان کے مظہر سعادت کے اساتذہ میں محمد فاروق قاسمی دربھنگوی، شیخ الحدیث دار الاحسان بارڈولی گجرات اور محمد صبیح اختر قاسمی، شیخ الحدیث جامعہ جلالیہ ہوجائی، آسام شامل ہیں۔[1][2]

اعلیٰ تعلیم کے لیے شوال 1419ھ مطابق 1999ء میں انھوں نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، شعبان 1420ھ مطابق 1999ء میں وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد انھوں نے وہیں سے تکمیل عربی ادب اور افتا بھی کیا۔[1]

ان کے اساتذۂ دار العلوم میں نصیر احمد خان بلند شہری، عبد الحق اعظمی، قمر الدین احمد گورکھپوری، نعمت اللہ اعظمی، سعید احمد پالن پوری، ارشد مدنی، حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، ریاست علی ظفر بجنوری، عثمان منصور پوری، محمد امین پالن پوری، ظفیر الدین مفتاحی اور نور عالم خلیل امینی شامل تھے۔[1]

دینی تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے عصری تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کی اور 2010ء میں فاصلاتی طور پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے تاریخ اور اردو میں ڈبل ایم اے، 2003ء میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے ڈپلوما ان فنکشنل عربک اور 2011ء میں ڈپلوما ان اردو لنگویج کیا، اسی طرح قومی کونسل سے ہی کمپیوٹر ایپلیکیشنز، بزنس اکاؤنٹنگ اور کثیر لسانی ڈی ٹی پی میں بھی ڈپلوما کیا۔[1]

عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم سے فراغت کے بعد 2002ء میں ان کا تقرر جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ میں ہو گیا۔ ابتدا سے لے کر درجات علیا کی شرح تہذیب، اصول الشاشی، مؤطین، ترمذی شریف اور مسلم شریف جیسی کتابیں متعلق رہیں، ہانسوٹ میں عربی انجمن اللجنۃ، ہانسوٹ کے سر پرست و نگراں بھی رہے۔[1]

1432ھ مطابق 2013ء میں ان کا تقرر مادر علمی دار العلوم دیوبند میں مدرس عربی کی حیثیت سے ہوا، 1440ھ میں درجۂ وسطی ب میں ان کی ترقی ہوئی۔ ابتدا میں القراءۃ الواضحہ، مرقات اور شرح تہذیب جیسی کتابیں ان سے متعلق رہیں، اب عالمیت کے نصاب کی قطبی، مختصر المعانی اور ترجمہ کلام پاک اور تکمیل ادب عربی کی البلاغۃ الواضحہ جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔[1][3]

تصوف میں انھیں قمر الزماں الہ آبادی خلیفہ و مجاز شاہ وصی اللہ الہ آبادی کی طرف سے اجازت بیعت حاصل ہے۔[1]

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے اور ان کے اندر دینی ماحول پیدا کرنے کے لیے 2016ء میں انھوں نے اپنے علاقے میں دار العلوم شکری کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔[1]

قلمی زندگی[ترمیم]

اشرف عباس قاسمی، مضمون نگاری کے حوالے سے زمانۂ طالب علمی میں اعجاز احمد اعظمی، ظفیر الدین مفتاحی اور نور عالم خلیل امینی سے بھی مستفید ہوئے۔ ان کے علاوہ اشرف علی تھانوی، ابو الحسن علی ندوی اور عبد الماجد دریابادی ان کے پسندیدہ مصنفین میں رہے ہیں۔[2]

ملک و بیرون ملک کے مؤقر مجلات و رسائل میں ان کے مضامین و مقالہ جات شائع ہوتے رہتے ہیں، انھیں ان کی مقالہ نگاری کے سلسلے ہی میں سعودی حکومت کی طرف سے بطور شاہی مہمان عمرہ کے لیے مدعو کیا جا چکا ہے۔[1]

ریاست علی ظفر بجنوری کی نگرانی میں محمد عارف جمیل مبارکپوری نے کشاف اصطلاحات الفنون کی تصحیح و مراجعت کا کام کیا، جس کی نظر ثانی و تصحیح میں اشرف عباس قاسمی نے اہتمام کے ساتھ ریاست علی ظفر بجنوری کی معاونت کی۔[4]

تصانیف[ترمیم]

اشرف عباس قاسمی کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں: [1][2]

  • نزھة النظر في توضيح نخبة الفكر (تحقیق و تعلیق؛ عربی)
  • الأسرة في كتب الفتاوى الهندية (عربی)
  • اجزاء انسانی کا عطیہ
  • پلاسٹک سرجری (اسلامک فقہ اکیڈمی سے شائع مختلف اہل علم کے مجموعۂ مضامین ”پلاسٹک سرجری فقہ اسلامی کی روشنی میں “ کی تلخیص)
  • صحاح ستہ: تعارف و خصوصیات
  • کشف الحجاب (غیر مقلدیت کی نقاب کشائی) (عبد الرحمن پانی پتی کی کتاب ”کشف الحجاب“ پر تحقیق و تحشیہ)
  • دفاع سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم (ماہنامہ دار العلوم دیوبند میں شائع قسط وار مضامین کا مجموعہ؛ زیر طبع)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ غالب شمس دربھنگوی (9 اپریل 2023)۔ "تار رباب جو بھرا ہے نغمۂ درد سے (تذکرۂ حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی دربھنگوی استاذ دارالعلوم دیوبند)"۔ baseeratonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2023 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ابن الحسن عباسی (اکتوبر 2020)۔ "مطالعہ میرا سرمایہ حیات: اشرف عباس قاسمی"۔ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی: مجلس تراث الاسلام۔ صفحہ: 629–632 
  3. محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 779۔ OCLC 1345466013 
  4. محمد سالم جامعی، مدیر (اکتوبر 2017)۔ "ریاست علی ظفر بجنوری نمبر"۔ ہفت روزہ الجمعیۃ۔ مدنی ہال، 1-بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی 2: ہفت روزہ الجمعیۃ: 68–70