بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

روہنگیا کے مسلمان[ترمیم]

میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار(برما) کے مغربی صوبہ راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباََ دس لاکھ تھی لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں۔ میانمار میں انھیں غیر قانونی بنگلی دیشی مہاجرمانا جاتا ہے۔ حکومت نے انھیں شہریت دینے سے ہمیشہ انکار کیاتاہم یہ یہ ميانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں۔ ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے۔ اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔میانمار کی راکھین ریاست میں جنسی حملوں کا نشانہ بننے والے روہنگیا بچے بنگلہ دیش پہنچنے کے بعد یہ لرزہ خیز داستانیں سناتے نظر آتے ہیں۔

بنگلہ دیش کو ہجرت[ترمیم]

اقوامِ متحدہ کے مطابق 25اگست 2017 میں میانمار کے صوبہ رکائن میں ہونے والے پرتشدد فسادات اور بدترین مظالم کے سبب پانچ لاکھ چھتیس ہزار روہنگیا اقلیتی مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں پہلے ہی روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے راکھین میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی روہنگیا مسلم برادری کے خلاف ان خونریز کارروائیوں کو ’نسلی تطہیر‘ کا نام دیا جا چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔ ادھر اس تشدد سے فرار کی کوشش میں انیس روہنگیا باشندے بنگلہ دیش کی سمندری حدود میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔

مہاجرین کے مسائل[ترمیم]

مہاجرین کو خوراک کی قلت اور دیگر مسائل کا سامنا ہے اور بنگلہ دیشی حکومت نے میانمار کو اپنے لوگ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے جبکہ مہاجرین واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جنوبی بنگلہ دیش کے ایک نیم جنگلاتی علاقہ میں اپنی ایک جھونپڑی بنانے میں مصروف چار روہنگیا مہاجرین ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلے گئے جن میں تین بچے بھی تھے۔

بنگلہ دیشی حکومت کے اقدامات[ترمیم]

اقوامِ متحدہ کے مطابق مہاجرین نے ابتدا میں خالی جگہوں اور سڑکوں پر رہائش کے لیے خیمے لگائے۔ بنگلہ دیش میں حکام نے پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے زمین کا ایک برا خطہ خالی کرا کے انھیں دیا جہاں 80،000 خاندانوں کو رہائش دی گئی۔ امدادی اداروں نے فوج کے تعاون سے نئے کیمپ بنائے جن میں 14 ہزار عارضی پناہ گاہیں تعمیر کی گئیں۔روہنگیا اقلیت کے پرانے کیمپ کے ساتھ بننے والے اس نئے کیمپ میں 14،000 رہائش گاہوں میں سے ہر یونٹ میں چھ خاندانوں کی گنجائش تھی۔نیا کیمپ آٹھ کلومیٹر کے رقبہ پہ بنایا گیا جو روہنگیا اقلیت کے پہلے سے آباد کیمپ کے قریب ہے۔اس میں 8500 عارضی بیت الخلا اور عارضی مکان بنائے گئے۔ اس کیمپ میں طار لاکھ افراد کی گنجائش ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے 2014 سے بنگلہ دیشی شہریوں اور روہنگیا مہاجرین کے درمیان شادیوں پہ پابندی لگائی ہوئی ہے۔ دو مہاجرین کیمپ کوتوپلونگ اور نیاپرا کی 2017 میں رجسٹرڈ آبادی 34،000 تھی جبکہ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے اندازہ لگایا کہ یہ ابادی 77،000 سے بڑھ گئی اور 14 جنوری 2018 میں کیمپ کی بڑھنے والی سائٹ میں آبادی 547،616 تھی۔ کوتوپلونگ کیمپ کو دنیا کا سب سے بڑا مہاجرین کیمپ کہا جاتا ہے۔ جو کینیا دادآب کیمپ سے بھی برا ہے جہاں کی آبادی اپریل 2917 میں 245،126 تھی۔

دو مہاجرین کیمپ کوتوپلونگ اور نیاپرا کی 2017 میں رجسٹرڈ آبادی 34،000 تھی۔جبکہ اقوامِ متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے اندازہ لگایا کہ یہ آبادی 77،000 سے بڑھ گئی۔ اور 14 جنوری 2018 میں کیمپ کی بڑھنے والی سائٹ میں آبادی 547،616 تھی۔ کوتوپلونگ کیمپ کو دنیا کا سب سے بڑا کیمپ کہا جاتا ہے جو کینیا دادآب کیمپ سے بھی بڑا ہے جہاں کی آبادی اپریل 2017 میں 245،126 تھی۔

میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومت کے درمیان کشیدگی[ترمیم]

میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومت کے درمیان روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر حالات کشیدہ ہیں۔ ڈھاکہ نے میانمار پر اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے سخت احتجاج بھی کیا۔بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق میانمار کے فوجی ہیلی کاپٹر اور ڈرونز گذشتہ تین دن میں متعدد بار بنگلہ دیش کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔بنگلادیشی حکام نے ڈھاکہ میں میانمار کے ایلچی کو طلب کر کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور میانمار کے اس اقدام کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ بنگلہ دیشی دستوں نے مغربی بھارت کے ساتھ ملکی سرحد کی نگرانی سخت تر کر دی ہے تاکہ بھارت سے ان ہزاروں روہنگیا مسلم مہاجرین کے بنگلہ دیش میں داخلے کو روکا جا سکے، جنہیں ممکنہ طور پر بھارتی حکام سرحد پار دھکیل سکتے ہیں۔حکام کے مطابق بھارتی سرحدی علاقے میں روہنگیا مہاجرین کی تعداد مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر پُٹکھلی کی سرحدی چوکی والے علاقے میں۔ اس جگہ پر صرف ایک چھوٹا سا دریا ہی دونوں ممالک کے مابین سرحد کا کام دیتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

https://en.wikipedia.org/wiki/Kutupalong_refugee_camp

https://ur.wikipedia.org/wiki/روہنگیا

https://www.dw.com/ur/بنگلہ-دیش-میں-جنوری-سے-ایک-لاکھ-روہنگیا-مہاجرین-کی-واپسی/a-41972517

https://www.dw.com/ur/روہنگیا-مہاجرین-دنیا-کے-کون-کون-سے-ممالک-میں-ہیں/g-40692629

https://waqtnews.tv/16-Nov-2018/103246

https://waqtnews.tv/27-Oct-2018/101919

https://waqtnews.tv/16-Nov-2018/103246

https://www.aljazeera.com/news/2018/06/rohingyas-surviving-the-worlds-largest-refugee-camp-180620140117850.html