حماس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حرکة المقاومة الإسلامیة
بانیاحمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی اور محمود الزہر
رئیسِ سیاسی مکتباسماعیل ہانیہ[1]
سیاسی بیورو کے نائبموسی ابو مرزوق[2][3]
تاسیس1987ء (1987ء)[4][5]
پیشروفلسطینی اخوان المسلمین
صدر دفتر
نظریاتفلسطینیوں کا حق خود ارادیت
اہل سنت سیاست اسلامیہ،[6]
اسلامی اصول پرستی,[7] فلسطینی قوم پرستی
مذہباسلام
بین الاقوامی اشتراکاخوان المسلمین
مجلس قانون ساز
74 / 132
جماعت کا پرچم
ویب سائٹ
hamasinfo.net
framepx

حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ (عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ شہر میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔

اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے مرحوم رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 2025ء تک اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ختم ہوجانے کی پیشین گوئی کی تھی۔

2004ء میں احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی شہید کی شہادت کے بعد ہزاروں افراد ان کے قتل پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔

پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لیے مختص ہے اور دوسرا گروہ اس کی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی۔

شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین شاہ عبد اللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔

اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے عمل اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔

اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔

انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر یاک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کارروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کے قدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفوں میں سے ایک ہیں۔

حماس نے مہاجرین کے کیمپوں اور گاؤں میں شفاخانے (کلینک) اور اسکول قائم کیے جہاں فلسطینیوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اس وقت فلسطینی پی این اے کی بدعنوان اور نااہل حکومت سے مایوس ہو چکے تھے اور ان کی اکثریت نے حماس کے خودکش حملوں پر خوشی کا اظہار کیا اور ان خودکش حملوں کو اسرائیل سے انتقام لینے کا سب سے بہتر راستہ جانا۔

اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حماس نے 2006 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔2006, 2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات کافی شدت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فلسطین میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کئی کوششیں ہوئیں۔ لیکن ان میں ناکامی ہوئی۔ آخر کار صدر محمود عباس نے جن کا تعلق الفتح سے ہے۔ جون 2007ء میں حماس کی جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیر اعظم کا اعلان کر دیا۔۔ ایسا کرتے وقت محمود عباس کو امریکا اور اسرائیل دونوں کی آشیرباد حاصل تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.aljazeera.com/news/2021/8/1/haniya-re-elected-as-chief-of-palestinian-group-hamas
  2. * "Understanding Islamism" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ merln.ndu.edu (Error: unknown archive URL), Cris is Group Middle East/North Africa Report N°37, March 2, 2005
    • "The New Hamas: Between Resistance and Participation". Middle East Report. Graham Usher, August 21, 2005
    • "Hamas leader condemns Islamist charity blacklist"۔ Reuters۔ August 23, 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ January 28, 2009 
    • James Hider (October 12, 2007)۔ "Islamist leader hints at Hamas pull-out from Gaza"۔ The Times۔ London۔ اخذ شدہ بتاریخ January 28, 2009 
    • "Council on Foreign Relations"۔ Council on Foreign Relations۔ 02 جون 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ May 27, 2010 
    • Islamic fundamentalism in the West Bank and Gaza: Muslim Brotherhood and Islamic Jihad, by Ziyād Abū 'Amr, Indiana University Press, 1994, pp. 66–72
    • Anti-Semitic Motifs in the Ideology of Hizballah and Hamas, Esther Webman, Project for the Study of Anti-Semitism, 1994. ISBN 978-965-222-592-4