خلیج فارس میں قزاقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
1892ء کا ایک نقشہ جس میں قزاقوں کے بندرگاہ کو دکھایا گیا ہے۔[1]

خلیج فارس میں قزاقی ایک سمندری تجارتی جنگی سلسلہ ہے جو 19ویں صدی میں اہنے عروج پر تھا۔ سرزمین بحرین میں عربی سمندری جنگجو اور خلیج فارس میں سلطنت برطانیہ اس میں خاص طور ملوث تھی۔ خلیج فارس دنیا بھر میں سمندری تجارت کا اہم مرکز رہا ہے اور اس قزاقی کی وجہ سے یہاں کی تجارت کو خطرات لاحق ہوئے خصوصا برطانوی ہند اور عراق جیسے ممالک کو یہاں تجارت کرا مشکل ہو گیا۔[2]]] خلیج فارس میں قزاقی کا سلسلہ القاسمی (قبیلہ) نے شروع کیا اور انھوں نے قزاقی کی کئی مثالیں قائم کیں۔ برطانوی حکومت ان سے پریشان ہو کر ایک معاہدہ کی تیاری کرنے لگی اور 1809ء میں خلیج فارس مہم کا آغاز کیا۔ 19ویں صدی کی سمندری جنگی مہم بڑے زور و شور سے شروع ہوئی اور راس الخیمہ، بندر لنگہ اور القاسمی کے دیگر بندرگاہوں پر بمباری کی گئی۔[3][4] شارجہ کے اس وقت کے امیر سلطان بن محمد القاسمی نے اپنی کتاب خلیج فارس میں قزاقی کی حقیقت[3][5][6] میں یہ انکشاف کیا ہے کہ برطانوی حکومت نے قزاقی کا بہانہ بنا کر اپنی سامراجیت قائم کرنے کی کوشش کی۔[7]

خلیج فارس میں 18ویں اور 19ویں صدی میں قزاقی ایک عام بات تھی۔ وہاں ایک بندر گاہ کا قزاقوں کا بندر گاہ کہا جاتا تھا جو اب موجودہ دور میں قطر اور عمان کے درمیان موجود ہے۔[8][9]

ابتدائی تاریخ[ترمیم]

خلا سے خلیج فارس کا منظر

1800ء ق م میں دلمون میں معاشی عدم استحکام آیا جس کے سبب خلیج فارس میں قزاقی کا سلسلہ شروع ہوا۔[10] دلمون موجودہ دور میں بحرین کا علاقہ ہے۔

694ء ق م میں ہندوستان سے آنے اور وہاں جانے والے تاجروں پر اشوریہ کے ڈاکووں نے خلیج فارس میں حملہ کر دیا۔ آشوریہ کے بادشاہ سنحاریب نے خلیج فارس میں لوٹ پاٹ پر لگام لگانے کی کوشش کی مگر اس کی کوششیں رائیگاں گئیں۔[11][12]

خلیج فارس میں قزاقی کا سلسلہ |عہد قدیم سے شروع ہوا اور جدید دور تک جاری رہا۔ وقتا فوقتا اس میں کمی بیشی جاری رہی۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں القاسمی قبیلہ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Muhammad Al Qasimi (1986)۔ The Myth of Piracy in the Arabian Gulf۔ UK: Croom Helm۔ ISBN 0-7099-2106-3 
  2. Muhammad Al Qasimi (1986)۔ The Myth of Piracy in the Arabian Gulf۔ UK: Croom Helm۔ ISBN 0-7099-2106-3 
  3. ^ ا ب Sultan Al Qasimi (1986)۔ The Myth of Piracy in the Gulf۔ UK: Croom Helm۔ ISBN 0-7099-2106-3 
  4. "The Corsair – Historic Naval Fiction"۔ historicnavalfiction.com۔ 10 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2015 
  5. "Sheikh Saqr bin Mohammed al-Qasimi obituary"۔ theguardian.com۔ 1 نومبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2015 
  6. Sultan Muhammed Al-Qasimi، Sulṭān ibn Muḥammad al-Qāsimī (Ruler of Shāriqah) (1 جنوری 1988)۔ "The Myth of Arab Piracy in the Gulf"۔ Routledge – Google Books سے 
  7. C.R. Pennel (2001)۔ Bandits at Sea: A Pirates Reader۔ NYU Press۔ صفحہ: 11۔ ISBN 0-8147-6678-1 
  8. Annegret Nippa، Peter Herbstreuth (2006)۔ Along the Gulf : from Basra to Muscat۔ Schiler Hans Verlag۔ صفحہ: 25۔ ISBN 978-3-89930-070-3 
  9. Richard Nyrop (2008)۔ Area Handbook for the Persian Gulf States۔ Wildside Press۔ صفحہ: 12۔ ISBN 978-1-4344-6210-7 
  10. John Hamilton (2007)۔ A History of Pirates۔ Abdo Pub Co۔ صفحہ: 7۔ ISBN 978-1-59928-761-4 
  11. Rajaram Narayan Saletore (1978)۔ Indian Pirates: From the Earliest Times to the Present Day۔ Concept۔ صفحہ: 12